ہوم << سیکولرسٹوں کی سائنس - معظم معین

سیکولرسٹوں کی سائنس - معظم معین

معظم معین ا ہم ایک ایسے مزاحیہ معاشرے میں رہتے ہیں جہاں ہمارے مشہور و معروف سائنس دان سائنس سے زیادہ سیکولرازم کی تبلیغ میں اپنی صلاحیتیں صرف کرتے نظر آتے ہیں اور ان کی وجہ شہرت سائنس کی خدمت نہیں بلکہ ملاؤں پر تنقید ہے۔ عجب معاملہ ہے کہ مولویوں کو نصیحت کہ مسجد کے مصلے کو سنبھالتے سنبھالتے سیاست کیوں کرنے لگ گئے جبکہ خود یونیورسٹی کے طلبہ کو سائنس کی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ لادینیت اور لامذہبیت کی تعلیم بھی دینے لگیں تو کوئی برا نہیں۔ اگر مسجد اور منبر کا سیاست اور معاشرت سے کوئی تعلق نہیں تو پھر فزکس اور بیالوجی کا انسانوں کے اجتماعی معاملات سے کیا تعلق ہے۔ کتنا تضاد ہے کہ پروفیسر ہود بھائی کو یونیورسٹی میں خدا بیزاری پھیلانے کی اجازت ہے لیکن تبلیغی جماعت کے مولانا طارق جمیل کو خدا خوفی پھیلانے کی اجازت نہیں۔ اوپر سے صبح شام مولویوں پر برستے رہتے ہیں کہ کتنی صدیاں ہو گئیں تم لوگوں نے سائنس کی کوئی مشین کیوں ایجاد نہیں کی۔ یہ نہیں بتاتے کہ ہمارا سائنس دان تو سیکولرازم پڑھانے پہ لگا ہوا ہے۔ وہ سائنس پڑھائے گا تو کچھ ایجاد ہوگا ناں۔ وہ دھڑادھڑ ’’سیکولرسٹ‘‘ بنا رہا ہے اور وہ مارکیٹ میں آ رہے ہیں۔
’’سیکولرسٹ‘‘، ’’لبرلسٹ‘‘ کی سپر لیٹو ڈگری ہوتی ہے۔ بندہ پہلے فیشن فیشن میں لبرل بنتا ہے پھر آہستہ آہستہ صحبت کے اثر اور اپنی توفیق کے مطابق وہ سیکولرازم کی طرف اپنا سفر طے کرتا ہے اور ’’سیکولرسٹ‘‘ کے مقام پر فائز ہو جاتا ہے۔ یہ خاصا لاعلاج سا مقام ہے۔ اس مقام پر دلیل کم ہی اثر کرتی ہے خاص طور پر مذہب کے معاملے میں۔ اللہ ہی اپنا کرم کرے تو کرے۔ سیکولرسٹوں کی ضد یہ ہے کہ مولویوں کا خدا سائنس سے ثابت نہیں ہوتا اور ہم وہی چیز مانتے ہیں جو سائنس سے ثابت ہوتی ہو۔ اگر معیوب نہ سمجھا جائے تو یہ سوال ذہن میں پیدا ہو رہا ہے کہ یہ سوال کرنے والوں نے کیا اپنے والد بزرگوار سے اپنی ولدیت کا سائنسی ثبوت مانگا تھا۔ کیا کسی ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد یہ تسلیم کیا تھا کہ یہى میرے والد محترم ہیں۔ وگرنہ بہت سے سیکولرسٹ ایسے بھى ہیں جن کی شکلیں افریقہ یا امریکہ کے باشندوں سے ملتی جلتی ہیں یا بعض اوقات ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ملتی جلتی نظر آئے۔ اب اگر وہ اپنی والدہ محترمہ کے کہنے پر یقین کر لیتے ہیں اور چپ چاپ مونچھوں والے ان صاحب کو جو ان کے گھر میں رہتے ہیں اپنا والد محترم تسلیم کرنے پر راضی ہو جاتے ہیں تو کیا حرج ہے کہ اگر مسلمان بھی اسی اصول کے تحت کسی بڑے کی زبان پر یقین کر کے خدا کو خدا مان لیں۔
تو اگر سارے زمانے کے بچے کھڑے ہو جائیں کہ ہم اپنے ابو کو ابو تب تک نہیں مانیں گے جب تک وہ شوکت خانم سے ٹیسٹ کرا کر یہ ثابت نہیں کرتے کہ وہ ہمارے ہی ابو ہیں تو بڑا مسئلہ کھڑا ہو جائے۔ شوکت خانم کا کاروبار تو پھلے پھولے گا یا نہیں کہا نہیں جا سکتا مگر گھر گھر ’’چھتر پولا‘‘ ضرور شروع ہو جائے گا۔ کوئی یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ یہ ثابت کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ طریقہ تو موجود ہے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ صدیوں سے بچے پیدا ہو رہے ہیں اور گھروں میں کامیابی سے پل بھی رہے ہیں اور کوئی مسئلہ بھی پیدا نہیں ہو رہا اور کوئی کہتا بھی نہیں بلکہ سوچتا بھی نہیں کہ اس میں کوئی غیر عقلی بات ہے۔ لہذا اگر دنیا کا نظام صدیوں سے بغیر ہر چیز کو سائنس سے ثابت کیے چل رہا ہے تو اب کیوں نہیں۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ سائنس کے علاوہ بھی چیزوں کو ثابت کرنے یا ان پر اطمینان حاصل کرنے کے ذرائع ہو سکتے ہیں۔ عدالتیں بھی آئے دن گواہوں کی شہادت اور واقعاتی شواہد پر بڑے بڑے فیصلے سناتی ہیں اور کوئی ان پر اعتراض بھی نہیں کرتا کہ بغیر سائنسی ثبوت کے فیصلہ کر دیا۔ سب یہی کہتے ہیں کہ انسانی بس میں جو یقین بہم پہنچانا ممکن تھا اگر اس کا التزام کر لیا گیا ہے تو معاملہ ثابت ہے اور فیصلہ درست ہے یہی کام مسلمانوں نے حدیث کے معاملے میں کیا اور اپنے رسول سے ہر چیز حاصل کر لی تو کیا غلط کیا۔
اصل اختلاف یہ ہے کہ انسان رسول کی بات مانے یا نہ مانے۔ رسول کی مانے یا زمانے کی مانے؟ اب کچھ چیزیں سائنس کی دسترس سے باہر بھی تو ہیں مثلا بگ بینگ پٹاخے کے فیتے کو تیلی کس نے لگائی تھی؟ سائنس خاموش ہے۔ مرنے کے بعد انسان کا ہارڈوئیر تو ادھر ہی رہتا ہے تو سوفٹ وئیر کہاں جاتا ہے؟ پتا نہیں۔ قانون بقائے مادہ اور توانائی تو سراسر سائنس کی بے بسی کا اعتراف ہیں۔ آخر کیوں ہم مادہ اور توانائی پیدا نہیں کر سکتے؟ پھر سائنس کو ہی ہم حرف آخر کیوں مانیں۔ وہ باتیں جن کا جواب سٹیفن ہاکنگ کی سائنس کے پاس بھی نہیں ان کا جواب کہاں سے لیں؟ انہوں نے بھی بڑی خوبصورتی سے اپنے نظریات کو سائنس کا رنگ دینے کے لیے تصوراتی فزکس theoretical physics کا سہار ا لے رکھا ہے جس میں سائنس دانوں کےتصورات چلتے ہیں۔ آج بھی سائنس دان یہ تو بتا سکتے ہیں کہ زلزلے زمین کی گہرائیوں میں موجود پلیٹوں کے ہلنے سے آتے ہیں مگر اتنی ترقی کے باوجود یہ نہیں بتا سکتے کہ زلزلہ کب اور کہاں آئے گا۔ زلزلے کی پیشین گوئی نہیں کی جا سکتی۔ لاکھوں کروڑوں میل دور سورج اور چاند گرہن کی پیشین گوئی سیکنڈز کی حد تک کرنے والا انسان جس زمین کے سینے پر چلتا پھرتا ہے اس کے بارے میں اگلے سیکنڈ کے متعلق بھی نہیں جان سکتا، زلزلہ آنے کے بعد ہی سب کی دوڑیں لگتی ہیں۔ بعد میں ہمارے حکمرانوں کی طرح سائنس دان رپورٹیں جاری کرتے پھرتے ہیں کہ اس کا مرکز یہاں تھا اور وہاں تھا۔
ایک دوست نے پوچھا ’’کیا تم نظر کے لگنے پر یقین رکھتے ہو‘‘۔ عرض کی کہ احادیث سے تو پتا چلتا ہے کہ برحق ہے لہذا ماننا ہی ہے کوئی اور چارہ ہی نہیں۔
بولا ’’سائنس تو نہیں مانتی‘‘۔
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا
کئی سیکولر کہتے ہیں کہ وہ بھی مسلمان ہیں۔ یہ سیکولرسٹ بھی بڑے بہادر اور دل گردے والے لوگ ہیں۔ رسول سے اختلاف رائے رکھتے ہیں۔ یقیناً اس کے لیے بڑی ہمت چاہیے کیونکہ رسول کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف تو قرآن میں آتا ہے کہ خدا، جبریل، مئومنین اور سارے فرشتے اکٹھے ہیں ایسے میں ان ساروں سے اکٹھے ٹکر لینا بڑی ہمت کی بات ہے۔ سنا ہے فرشتوں کا ہاتھ بڑا بھاری ہوتا ہے چھترول کریں گے تو بڑی تکلیف ہو گی۔ ہمیں تو سچی بات ہے چھترول سے بڑا ڈر لگتا ہے مگر وہ نہیں ڈرتے۔ بلکہ کئی تو اس سے بھی آگے بڑھ کر خدا سے اختلاف رکھتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ خدا نے جو سسٹم چودہ صدیاں قبل نازل کیا تھا وہ آج ایکسپائر ہوگیا ہے لہذا اب ہم نیا سسٹم لانچ کریں گے۔ خدا کہتا ہے کہ قصاص میں زندگی ہے، وہ کہتے ہیں یہ سراسر قتل ہے۔ خدا کہتا ہے کہ یہ لازمی ہے، وہ کہتے ہیں نہیں اس پر پابندی لگائیں۔ خدا کہتا ہے کہ عید پر جانور قربان کرو، وہ کہتے ہیں ہم زیادہ سمجھدار ہیں، جانور مارنے کا کیا فائدہ، پیسے غریبوں میں بانٹ دو، بچیوں کی شادیاں کرا دو، یہ زیادہ اچھا ہے۔ غرض یہ کہ کئی جگہ خدا سے اختلاف کرتے ہیں۔ خدا کہتا ہے کہ مرد عورتوں پر حاکم ہیں مگر وہ تلک والی عورت کہتی ہے کہ کوئی حاکم شاکم نہیں، ہم برابر کے دوست ہیں۔ بھئی اگر دوست کہنا ہوتا تو کیا خدا دوست کا لفظ نہیں استعمال کر سکتا تھا۔ اب جو خدا سے متفق نہیں ہو سکے وہ ہم سے کیا ہوں گے۔ تو یہ لاعلاج سا مرض ہے۔ کبھی یہ کہتے ہیں کہ دنیا کو وجود میں آئے چودہ ارب سال ہو چکے ہیں اور کائنات کی وسعتوں میں یہ کوئی خاص وقت نہیں، اس میں تو نوری سالوں کے فاصلے اور اربوں سال کی مسافتیں ہیں۔ مگر دوسری طرف محض چودہ صدیاں پرانا نظام انہیں بوسیدہ لگتا ہے۔ خیر یہ سوال اور وہ جواب تو ہمیشہ سے چلتے آئے ہیں چلتے رہیں گے۔ مرشد اقبالؒ نے بھی ایسے ہی کسی دیسی سیکولرسٹ سے کہا تھا کہ
تری نگاہ میں ثابت نہیں خدا کا وجود
مری نگاہ میں ثابت نہیں وجود ترا
وجود کیا ہے، فقط جوہر خودی کی نمود
کر اپنی فکر کہ جوہر ہے بے نمود ترا

Comments

Click here to post a comment