دنیا کی ہنگامہ خیزیوں میں اگر کوئی خاموشی میں بھی کامل اظہار بن جائے تو وہ محض "باپ" ہے۔ باپ وہ فرد ہے جو نہجِ وفا پر خود کو مٹا کر اولاد کی بنیاد رکھتا ہے۔ ہر رشتہ بولتا ہے، گلہ کرتا ہے، اظہار مانگتا ہے ۔۔۔ مگر باپ ۔۔۔ باپ تھکن اوڑھے، چپ کی چادر تانے، ہر لمحہ ہماری خاطر جیے جاتا ہے۔
باپ وہ برگد ہے جو طوفانوں میں بھی اپنی شاخیں نہیں ہلاتا کہ کہیں بیٹے کی نیند خراب نہ ہو جائے۔ وہ ایسا سائبان ہے جو دھوپ میں خود جھلستا ہے مگر اولاد کی پیشانی پر شکن تک نہیں آنے دیتا۔ وہ جب مسکراتا ہے تو گویا صدائیں دیتی صداقت چپ ہو جاتی ہے ۔۔۔ اس کی مسکراہٹ میں ایک جہانِ سکون پنہاں ہوتا ہے۔
باپ... اک کردار نہیں، اک تمثیل ہے۔ وہ نثر کی لکیروں سے نہیں، وقت کی پرتوں سے پڑھا جاتا ہے۔ وہ ہر صبح کمر بستہ، شام بے نیازی سے لوٹتا ہے اور پھر بھی خالی ہاتھ نہیں بلکہ خوابوں کا توشہ ساتھ لاتا ہے۔
یاد ہے وہ دن جب ہم کچے صحن میں ننگے پاؤں دوڑا کرتے تھے؟ نہیں معلوم تھا کہ وہ پھٹے ہوئے جوتے رات کو کس نے سلوا کر رکھ دیے۔
یاد ہے اسکول کا پہلا دن؟ وہ بستہ، وہ یونیفارم، وہ جوتے؟ سب خواب کی مانند تھے۔ مگر ان کے پیچھے ایک پسینہ تھا، جو رزقِ حلال کی خوشبو میں بھیگ کر ہماری ہتھیلیوں پر چھپا رہتا تھا۔
باپ دراصل در ہے، مگر قفل سے خالی ۔۔۔ وہ روشنی ہے مگر نمائش سے پاک۔ وہ پُل ہے، جو لفظوں کے شور کے بغیر ہی ہمیں مایوسی سے امید کے ساحل تک لے آتا ہے۔ جب وہ رات کے پچھلے پہر خاموشی میں کھویا ہوتا ہے تو شاید اُس کی انگلیاں تسبیح کے دانے نہیں بلکہ ہماری سلامتی کے خواب گنتی ہیں۔ اُس کی دعاؤں میں کبھی شکایت کا شائبہ نہیں ہوتا، صرف فلاح کی صدا ہوتی ہے۔
ہم نے ہمیشہ ماں کے قدموں تلے جنت تلاش کی اور بجا کی۔ مگر شاید ہم بھول گئے کہ باپ تو وہ وسیلہ ہے، جو ہمیں اُن قدموں تک لے کر آیا۔ اُس کے کندھے وہ منبر تھے، جن پر کھڑے ہو کر ہم نے دنیا کو چھوٹا محسوس کیا۔ اُس کی نگاہوں کی وسعت میں وہ خواب چھپے تھے، جنہیں ہم نے اپنی کامیابیوں میں تلاش کیا۔
باپ... اک ایسا مصور، جس نے اپنی خواہشات کو گَل کرکے ہماری تمناؤں کی تصویر بنائی۔ اُس نے اپنی ضرورتوں کو الماریوں میں قید کیا اور ہماری خوشیوں کو کھلی فضا دی۔ مگر ہم... ہم اُس کی پیشانی کی جھریوں کو کبھی محبت سے نہیں پڑھتے، اُن ہاتھوں کو کبھی ادب سے نہیں تھامتے، جو ہمارے لیے کائنات اٹھائے پھرتے ہیں۔
آج جب دنیا "باپ کا عالمی دن" کی گھنٹیاں بجاتی ہے، تو یہ محض ایک دن نہیں، بلکہ ایک لمحۂِ اعتراف ہے۔ لمحہ جو ہمیں جتلاتا ہے کہ وہ ہستی جس نے ہمیں جینے کا ہنر دیا، کبھی سراہے جانے کی آرزو نہیں رکھتی ۔۔۔ مگر اُس کا دل بھی ہے، جذبات بھی ۔۔۔
زندگی کی یہ دوڑ، جس میں ہم اکثر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے، اُس میں کہیں پیچھے، ایک سایہ مسلسل ہمارے ساتھ دوڑتا ہے۔ وہی سایہ جس کے قدم سست ہو چکے ہیں، مگر وفا کی رفتار اب بھی شباب پر ہے۔
اس سے پہلے کہ وقت کی ریت، یادوں کی دیواروں کو ڈھا دے ۔۔۔ چلیے! اُس کے قریب چلیں۔ اُس کی بات سنیں، اُس کی خامشی کو سمجھیں۔ کیونکہ وہ مردِ فانی جسے دنیا باپ کہتی ہے، وہ ہماری زندگی کی سب سے پائندہ حقیقت ہے۔
باپ... وہ کتاب ہے جس کے ہر ورق پر قربانی لکھی ہے اور ہر باب میں محبت۔ اس کتاب کو پڑھنے کے لیے دل کی آنکھ درکار ہے اور سمجھنے کے لیے خاموشی کی لغت ۔۔۔
تبصرہ لکھیے