ہوم << بائیکاٹ؛خاموش ہتھیار ، زندہ ضمیر - خنساء طاہر

بائیکاٹ؛خاموش ہتھیار ، زندہ ضمیر - خنساء طاہر

جب بھی دنیا میں مسلمانوں پر ظلم و ستم بڑھتا ہے، بالخصوص جب فلسطین کی سرزمین پر نہتے بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کا خون بہایا جاتا ہے اور اسرائیلی جارحیت اپنی حدوں کو پار کرتی ہے، تو پوری امت مسلمہ کا دل زخمی ہو جاتا ہے۔ دنیا بھر میں احتجاج ہوتا ہے، لوگ سوشل میڈیا پر آواز بلند کرتے ہیں، اور اسی شور میں ایک اہم مطالبہ سامنے آتا ہے: اسرائیل کی حمایت کرنے والی کمپنیوں اور مصنوعات کا بائیکاٹ۔

لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسے موقعوں پر کچھ لوگ طنزیہ انداز میں ایک ایسا جملہ ادا کرتے ہیں جو نہ صرف ہماری ایمانی غیرت کو مجروح کرتا ہے بلکہ ہماری قومی خودداری پر بھی سخت سوال اٹھاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں: "یہودیوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں تو پھر پاکستان کی دو نمبر چیزیں استعمال کرنی پڑیں گی؟" یہ جملہ بظاہر ایک معمولی تبصرہ لگتا ہے لیکن درحقیقت یہ ہماری اجتماعی سوچ، فکری کمزوری اور احساسِ کمتری کا عکاس ہے۔

اسلام ہمیں صرف نماز، روزہ اور ذاتی عبادات کا درس نہیں دیتا، بلکہ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا، اور ظالم کی مدد سے خود کو دور رکھنا بھی ایمان کا حصہ ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "جس نے کسی ظالم کی مدد کی، وہ اللہ کے غضب کا مستحق ہے"۔جب ہمیں یہ علم ہو کہ کوئی کمپنی اسرائیل کو مالی، اخلاقی یا تکنیکی معاونت فراہم کر رہی ہے تو اس کمپنی کی مصنوعات خریدنا دراصل اس ظالم نظام کو سہارا دینے کے مترادف ہے۔ کیا ہم صرف اپنی وقتی سہولت، ذائقے یا برانڈ کی وابستگی کے لیے مظلوموں کے خون کو نظرانداز کر سکتے ہیں؟ یہ محض ایک تجارتی فیصلہ نہیں، بلکہ ضمیر اور ایمان کا معاملہ ہے۔

بائیکاٹ سے زیادہ مسئلہ جن لوگوں کو ہوتا ہے، وہ اکثر سوالیہ انداز میں کہتے ہیں کہ آخر بائیکاٹ کیوں ضروری ہے۔؟ بائیکاٹ صرف کسی چیز کا چھوڑ دینا نہیں، بلکہ ایک پرامن مزاحمت ہے۔ یہ ظلم کے خلاف خاموش احتجاج ہے۔ یہ اس مظلوم کی پشت پر کھڑا ہونا ہے جو دشمن کے سامنے تنہا ہے۔ جب ہم کسی ایسی کمپنی کا بائیکاٹ کرتے ہیں جو اسرائیل کی معاونت کرتی ہے، تو ہم دراصل اس کی طاقت کو کمزور کرتے ہیں۔ ہم یہ پیغام دیتے ہیں کہ مسلمان بیدار ہے، اور وہ اپنی دولت، اپنا اختیار اور اپنی ترجیح کو مظلوموں کے حق میں استعمال کرنے کا ہنر رکھتا ہے۔

بائیکاٹ ایک ایسا ہتھیار ہے جو نہ خون بہاتا ہے، نہ شور مچاتا ہے، مگر دشمن کے دل میں لرزہ ڈال دیتا ہے۔ یہ ہماری اجتماعی طاقت کا اظہار ہے، اور جب ایک قوم اجتماعی طور پر کسی چیز سے کنارہ کشی اختیار کرتی ہے، تو دنیا کی بڑی سے بڑی کمپنیاں بھی اپنی پالیسی بدلنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔

اس سب کے باوجود جب کوئی پاکستانی اپنی ہی مصنوعات کو "دو نمبر" قرار دیتا ہے، تو دراصل وہ اپنی ہی قوم، اپنے صنعتکار، مزدور اور محنت کش بھائیوں کی توہین کرتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ کہیں کہیں معیار کا مسئلہ ہوتا ہے، لیکن کیا دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ایسا نہیں ہوتا؟ فرق صرف اتنا ہے کہ وہاں اپنی چیزوں کو بہتر بنانے کے لیے قوم متحد ہوتی ہے، جبکہ ہم اپنی چیزوں پر طنز کرتے ہیں اور غیر ملکی چیزوں کو بلا تحقیق آنکھ بند کر کے قبول کرتے ہیں۔
پاکستان میں بننے والی بے شمار مصنوعات بین الاقوامی معیار پر پورا اترتی ہیں۔ مرچ مصالحوں میں مارکہ، طبی مصنوعات میں قرشی، چائے میں وائٹل، سکن کئیر کے شعبے میں کو نیچرل ، سعید غنی جیسے برانڈز نہ صرف ملک میں مقبول ہیں بلکہ ان کی مانگ بیرونِ ملک میں بھی ہے۔ سروس، بورجن، اسٹائلو جیسے جوتے کئی ملکوں کو ایکسپورٹ کیے جا رہے ہیں۔ ڈیوا لینس، ہائیر، جی ایف سی، سپر ایشیا جیسے برانڈز پاکستانی گھروں کی پہچان ہیں۔ یہ ہماری محنت اور قابلیت کی جیتی جاگتی مثالیں ہیں۔
اگر ہم خود ہی اپنی چیزوں کو کمتر سمجھیں گے، تو دنیا کیوں ان کی قدر کرے گی؟ اکثر لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اگر ہم بائیکاٹ کریں تو متبادل اشیاء کا گھٹیا معیار کی ہیں،حالانکہ وہ اس حقیقت کو نظرانداز کر دیتے ہیں کہ دنیا ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔ پاکستان ایک پھلتا پھولتا ملک ہے، یہاں ہر اسرائیلی مصنوعات کا متبادل بھی موجود ہے، اور اگر معیار کی بات ہے تو اس حقیقت کو نظر انداز نہ کریں کہ پاکستان کی بہت سی اشیاء بین الاقوامی معیار پر پورا اترتی ہیں۔

جی ہاں۔ پاکستانی مصنوعات نہ صرف معیاری ہیں بلکہ عالمی مارکیٹس میں کامیابی سے فروخت ہو رہی ہیں۔ یہ صرف اعداد و شمار نہیں، بلکہ ہماری محنت، صنعت اور قابلیت کی تسلیم شدہ حقیقت ہے۔

اکثر لوگ کہتے ہیں کہ "ہم بائیکاٹ کر بھی لیں تو کیا فرق پڑے گا؟" یہ دراصل ایک ناکامی کا اعلان ہے، ایک ایسی سوچ ہے جو کسی بھی قوم کو کبھی عظمت تک نہیں پہنچنے دیتی۔ دنیا میں بڑے بڑے نظام صرف اس لیے بدلے کہ کچھ لوگوں نے مستقل مزاجی سے ایک قدم اٹھایا اور پھر وہ قدم ایک تحریک بن گیا۔ جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کے خلاف چلنے والی بائیکاٹ کی تحریک نے پوری دنیا کو جھنجھوڑ دیا اور بالآخر ایک ظالمانہ نظام کا خاتمہ ہوا۔ اگر چند پاکستانی بھی خلوصِ دل سے بائیکاٹ کا آغاز کریں تو یہ نہ صرف ایک ظالم حکومت کے خلاف پیغام ہوگا بلکہ ہماری اپنی معیشت، خود انحصاری اور شعور کا آغاز بھی ہوگا۔

اب یہ وقت ہے کہ ہم الزام تراشی یا طنزیہ جملوں سے آگے بڑھیں، اور سنجیدگی سے اپنے کردار کا تعین کریں۔ ہمیں اپنی انڈسٹری کی بہتری کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے، اچھی کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور جہاں کمزوریاں ہوں وہاں اصلاح کے جذبے سے نشاندہی کرنی چاہیے۔ جو قوم اپنی چیزوں پر فخر نہیں کرتی، وہ ہمیشہ دوسروں کی محتاج رہتی ہے۔ اگر آج ہم نے خود کو سہولت پسندی سے نکال کر قربانی کی راہ پر ڈالا، تو کل ہم ایک باوقار، خودمختار اور مستحکم پاکستان دیکھ سکیں گے۔ آج ہم سب کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم ان ظالموں کا ساتھ دیں گے جن کی گولیوں سے بچے شہید ہو رہے ہیں یا ان مظلوموں کا ساتھ دیں گے جن کی فریادیں آسمان تک جا پہنچی ہیں۔ یہ فیصلہ ہمارے ضمیر کا ہے، ہمارے ایمان کا ہے، اور ہماری غیرت کا ہے۔ اگر ہم نے اس موقع پر بھی خاموشی اختیار کی، تو تاریخ ہمیں بزدلی، بے حسی اور غلام ذہنیت کے ساتھ یاد کرے گی۔ لیکن اگر ہم نے کھڑے ہو کر کہا کہ ہم ظالموں کی معیشت کو نہیں چلنے دیں گے، تو شاید یہی وہ لمحہ ہو جب اللہ ہمارے عمل کو مظلوم فلسطینیوں کی نصرت کا ذریعہ بنا دے، اور ہم قیامت کے دن سرخرو ہوں۔