دفتر کے ایک کمرے میں اکرام الحق کی معمولی سی لغزش پر اس کے صاحب آپے سے باہر ہو گئے۔ الفاظ کی تلخی نے ماحول کو زہر آلود کر دیا۔ اکرام نے کچھ کہے بغیر سر جھکایا، لیکن دل میں بغاوت کی چنگاری سلگ چکی تھی۔
گھر پہنچا تو چہرے پر تناؤ اور لبوں پر شکوہ تھا۔ بیوی نے حسبِ معمول مسکرا کر خیرمقدم کیا، مگر وہ بھڑک اٹھا۔ معمولی سی بات پر تلخی بڑھی، آوازیں بلند ہوئیں، اور بات جھگڑے تک جا پہنچی۔ کمرے کے ایک کونے میں ان کا ننھا بیٹا سہمے ہوئے دل کے ساتھ یہ سب دیکھ رہا تھا۔
تھوڑی دیر بعد وہی بچہ گلی میں اپنے ہم عمر پڑوسی سے الجھ پڑا۔ بات ہاتھا پائی تک جا پہنچی۔ شور سن کر دونوں گھروں کے دروازے کھل گئے۔ والدین آمنے سامنے آئے تو جذبات نے ہوش پر پردہ ڈال دیا، اور جھگڑا شدت اختیار کر گیا۔
کسی نے 15 پر کال کر دی۔ تھوڑی ہی دیر میں پولیس موقع پر پہنچ گئی اور دونوں خاندانوں کو ڈالے میں بٹھا کر تھانے لے آئی۔ ماحول سنجیدہ ہو چکا تھا۔ تھانے میں بیٹھے اکرام نے بے بسی کے عالم میں اپنے باس کو فون کیا۔ چند منٹوں میں ایس ایچ او کو ایک بااثر سفارش موصول ہوئی۔
نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں فریقین کو زبردستی صلح کرنی پڑی۔ سب کچھ بظاہر تھم گیا، مگر دلوں میں چھپی چوٹیں کسی عدالت میں پیش نہیں کی جا سکتیں۔
یہ صرف ایک واقعہ نہیں، بلکہ ہماری روزمرہ زندگی کی ایک جھلک ہے ۔ جہاں ایک لمحے کا غصہ کئی زندگیاں متاثر کر دیتا ہے۔ شاید وقت آ گیا ہے کہ ہم سیکھیں: غصے کا ہر ردعمل ایک زنجیر بن جاتا ہے، جو دوسروں کو بھی جکڑ لیتا ہے۔
تبصرہ لکھیے