ہوم << " ردعمل کی زنجیر " ایک چشم دید واقعہ -خواجہ مظہر صدیقی

" ردعمل کی زنجیر " ایک چشم دید واقعہ -خواجہ مظہر صدیقی

دفتر کے ایک کمرے میں اکرام الحق کی معمولی سی لغزش پر اس کے صاحب آپے سے باہر ہو گئے۔ الفاظ کی تلخی نے ماحول کو زہر آلود کر دیا۔ اکرام نے کچھ کہے بغیر سر جھکایا، لیکن دل میں بغاوت کی چنگاری سلگ چکی تھی۔

گھر پہنچا تو چہرے پر تناؤ اور لبوں پر شکوہ تھا۔ بیوی نے حسبِ معمول مسکرا کر خیرمقدم کیا، مگر وہ بھڑک اٹھا۔ معمولی سی بات پر تلخی بڑھی، آوازیں بلند ہوئیں، اور بات جھگڑے تک جا پہنچی۔ کمرے کے ایک کونے میں ان کا ننھا بیٹا سہمے ہوئے دل کے ساتھ یہ سب دیکھ رہا تھا۔

تھوڑی دیر بعد وہی بچہ گلی میں اپنے ہم عمر پڑوسی سے الجھ پڑا۔ بات ہاتھا پائی تک جا پہنچی۔ شور سن کر دونوں گھروں کے دروازے کھل گئے۔ والدین آمنے سامنے آئے تو جذبات نے ہوش پر پردہ ڈال دیا، اور جھگڑا شدت اختیار کر گیا۔

کسی نے 15 پر کال کر دی۔ تھوڑی ہی دیر میں پولیس موقع پر پہنچ گئی اور دونوں خاندانوں کو ڈالے میں بٹھا کر تھانے لے آئی۔ ماحول سنجیدہ ہو چکا تھا۔ تھانے میں بیٹھے اکرام نے بے بسی کے عالم میں اپنے باس کو فون کیا۔ چند منٹوں میں ایس ایچ او کو ایک بااثر سفارش موصول ہوئی۔

نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں فریقین کو زبردستی صلح کرنی پڑی۔ سب کچھ بظاہر تھم گیا، مگر دلوں میں چھپی چوٹیں کسی عدالت میں پیش نہیں کی جا سکتیں۔

یہ صرف ایک واقعہ نہیں، بلکہ ہماری روزمرہ زندگی کی ایک جھلک ہے ۔ جہاں ایک لمحے کا غصہ کئی زندگیاں متاثر کر دیتا ہے۔ شاید وقت آ گیا ہے کہ ہم سیکھیں: غصے کا ہر ردعمل ایک زنجیر بن جاتا ہے، جو دوسروں کو بھی جکڑ لیتا ہے۔

Comments

Avatar photo

خواجہ مظہر صدیقی

خواجہ مظہر صدیقی ارتقاء آرگنائزیشن پاکستان کے ڈائریکٹر ہیں۔ تعلق اولیاء کی نگری ملتان سے ہے۔ اٹھارہ سال روزنامہ نوائے وقت میں صدائے دل کے عنوان سے سماجی اور معاشرتی عنوانات پر کالم شائع ہوتے رہے ہیں۔ پانچ کتب کے مصنف ہیں۔ 1993 میں جنوبی پنجاب میں کہانی گھر کی بنیاد رکھی، اب تک 320 کہانی گھر قائم کیے ہیں۔ اس سلسلے میں بچوں میں کہانی کی ختم ہوتی قدیم ترین روایت کو پھر سے زندہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

Click here to post a comment