ہوم << ہزار فن احمد چلیبی، دنیا کا پہلا ہواباز - ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

ہزار فن احمد چلیبی، دنیا کا پہلا ہواباز - ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

۳ جون ۱۶۳۲ء جمعہ کا دن تھا۔ سارا قسطنطنیہ نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد آبنائے فاسفورس کے دونوں کناروں پر جمع تھا۔ بیمار اور اپاہج لوگوں کو چھوڑ کر شائد ہی شہر کا کوئی باسی ایسا بچاہو ۔ جو آج یہاں موجود نہ تھا۔ قسطنطینہ کے ضلع پیرا (گلاٹا) کی گلیوں میں ہر طرف سر ہی سر نظر آرہے تھے ۔ بیس سالہ عثمانی خلیفہ مراد رابع بھی اپنی ماں کوسم سلطان کے ساتھ قسطنطنیہ کے یورپی کنارے پر واقع سرائے بورنو میں سنان پاشا کے محل کی چھت پر موجود تھا ۔ عورت ،مرد ،بچہ ، بوڑھا ہر کوئی بڑی بیتابی سے گلاٹا ٹاور کے طرف دیکھ رہا تھا۔ جہاں تئیس سالہ ہزار فن احمد چلیبی اپنے بڑے بھائی لگاری حسن چلیبی کے ساتھ گلاٹا ٹاور کی چھت پر کھڑا تھا ۔ احمد چلیبی نے اپنے بازوؤں اور جسم کے ساتھ پرندوں کے پروں جیسی فلائنگ مشین باندھ رکھی تھی۔ اس کی نظریں بےقراری سے گولڈن ہارن کے دوسرے کنارے پر موجود سلطان مراد پر لگی تھیں۔ اس نے آج کے دن کے لئے بڑی محنت کی تھی ۔ وہ پچھلے سات سال سے پرندے کی طرح ہوا میں اڑنے کے خواب دیکھ رہا تھا۔

احمد چلیبی نے ہزاروں نقشے بنائے تھے ۔ اس نے کئی ہفتوں اور مہنیوں تک عباس بن فرناس اور لیونارڈو ونچی Leonardo da Vinci کے بنائے نقشوں کا مطالعہ کیا تھا۔ اس کا ہیرو وہ ترک اسماعیل جوہریIsmail Cevheri تھا ۔ جو ۱۰۰۸ء میں پرندوں کی طرح ہوا میں اڑنے کی مشق کرتے ہوئے نیشا پور کی ایک مسجد کی چھت سے گر کر ہلاک ہو گیا تھا۔ اس نے اسماعیل کے بنائے ماڈل میں کئی تبدیلیاں کی تھیں ۔ اس نے گھنٹوں پرندوں کے اڑنے کے عمل کا مشاہدہ کیا تھا ۔ درجنوں بار اپنے سدھائے ہوئے شاہین کی پرواز کی تکنیکAerodynamics کا بغورمطالعہ کیا تھا۔ کئی مہینوں تک اس نے اپنے اس پالتو شاہین کے پروں کا معائنہ کیا تھا ۔ تب جا کر اس نے عقاب کے پروں جیسے دو پر اپنے وزن اور جسامت کے مطابق تیار کیے تھے ۔ اس نے اپنے جسم کو چوٹ سے بچانے کے لئے خاص لباس بنایا تھا۔ پچھلے کئی مہینوں سے وہ اپنے جسم کے ساتھ یہ پر باندھ کر اڑنے کی مشق کر رہا تھا ۔ نو بار اسے اپنی ان کوششوں میں ناکامی ہو چکی تھی ۔ لیکن وہ حوصلہ نہیں ہارا تھا۔ اس کا عزم اس کی طرح جوان تھا اور آج ایک بار پھر وہ استنبول کے ہزاروں باسیوں کے سامنے پرندوں کی طرح اڑنے کا مظاہر ہ کرنے جا رہاتھا۔ جیسے ہی سلطان نے اپنے ہاتھ میں پکڑا پرچم نیچے کیا۔

احمد چلیبی نے گہری سانس بھری ، ایک نظر نیچے کھڑے ہزاروں تماشائیوں پر ڈالی ان میں کچھ اس کے نام کے نعرے لگا رہے تھے ۔ لیکن اکثریت بڑی حیرت اور تعجب سے یہ ساری کارروائی دیکھ رہی تھی ۔ ان کا غالب گمان تھا کہ ہزاروں فٹ کی بلندی سے چھلانگ لگا نے کے بعد ابھی اسی کوشش میں اس پاگل سائنسدان کی ہڈیاں تک سرما بن جائیں گی ۔ سلطان کا اشارہ پاتے ہی حسن چلیبی نے اپنے بھائی کو گلاٹا ٹاور سے نیچے دھکا دیا۔ وہ تیزی سے نیچے گرنے لگا ۔ اسکا دل ڈوبنے لگا ۔ خوف اور امید کی ملی جلی کفیات کے ساتھ اس نے اپنے بازوؤں کو پرندوں کی مانند اوپر نیچے حرکت دیتے ہوئے اپنے جسم سے بندھے پر کئی بار پھڑپھڑائے اور سات آٹھ بار کوشش کرنے کے بعد وہ نیچے گرنے کی بجائے کسی بڑے پرندے کی مانند ہوا میں تیرنے لگا ۔ اس کا وہ خواب جس کے لئے اس نے دن رات ایک کر دئیے تھے ۔ پورا ہو گیا ۔ وہ پرندوں کی طرح ہوا میں اڑ رہاتھا۔

کچھ دیر وہ ہوا میں تیرتا رہا اور پھر آبنائے باسفورس کے اوپر سے اڑتا ہوا تقریباً ساڑھے تین کلو میٹر (۳۳۵۸ میٹر ) کا فاصلہ طے کرکے اسکو دور Üsküdar کے ایک محلے ڈوگن کلئیر Doğancılar میں ایک میدان کے اندر بحفاظت اتر گیا۔ اس کی اس پرواز کا دورانیہ پندرہ سے بیس منٹ تھا۔ ڈوگن کلئیر اسکو دور کا سب سے اونچا علاقہ ہے اور آج کل یہاں ایک پارک بنایا گیا ہے جہاں احمد چلیبی نے لینڈ کیا تھا۔ اور یوں وہ دنیا کا پہلا شخص بن گیا جس نے سپین کے عباس بن فرناس اور نیشا پور کے اسماعیل جوہری کی بنائی ہوئی بغیر انجن کی فلائنگ مشین (گلائیڈر ) کو بہتر بنایا اور پرندوں کے پروں کی شکل والی اس مشین کی مدد سے پہلی کامیاب پرواز کی۔ مغربی تاریخ دان اسے 1st bird man in the history of the mankind کے نام سے پکارتے ہیں۔ یہ دنیا کی پہلی بین البراعظمیintercontinental فلائٹ بھی تھی ۔ کیونکہ اس نے استنبول کے یورپی حصے سے پرواز کا آغاز کیا تھا اور استنبول کے ایشیائی حصے میں لینڈ کیا تھا۔

اگلے دن احمد چلیبی کے لئے خاص طور پر ٹوپ کاپی محل میں دربار سجایا گیا ۔ خلیفہ مراد رابع نے سونے کے سکوں سے بھری بوری اسے انعام میں دی۔ لیکن کچھ ہی مہینوں کے بعد اس نے احمد چلیبی کو یہ کہتے ہوئے جلا وطن کرنے کا حکم دے دیا : ''ایسے انسان سے ڈرنا چاہیے کیونکہ وہ جو چاہتا ہے کر گذرتا ہے ۔ ایسے انسانوں کو یہاں رہنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے ۔'' احمد چلیبی الجزائر چلا گیا ۔اور وہیں جلاوطنی کی حالت میں ہی اس کی موت واقع ہوگئی۔ گلاٹا ٹاور کے ساتویں درجے پر آج بھی جھروکے میں اس جگہ ایک تختی لگی ہے جہاں سے چھلانگ لگا کر اس نے یہ تاریخ رقم کی تھی۔ گلاٹا ٹاور کے میوزیم میں اس کے بنائے ہوئے گلائیڈر کے ماڈل کے ساتھ ہی اولیاء چلیبی کی کتاب بھی رکھی ہے ۔ جس میں اولیاء نے احمد چلیبی کے اس تاریخ ساز کارنامے کا چشم دید منظر بیان کیا ہے۔ اولیاء کی عمر اس وقت اکیس سال تھی اور وہ خود بھی اس ہجوم میں شامل تھا۔ جس نے یہ سارا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ اس نے اپنی کتاب ''سیاحت نامہ'' میں بڑی تفصیل سے اس تاریخ ساز دن کا ذکر کیا ہے جب احمد چلبی نے دینا کی تاریخ کی پہلی اور کامیاب ترین پرواز کی۔

میں احمد چلیبی کے گلائیڈر کے ماڈل کے سامنے کھڑا سوچ رہا تھا ۔کہ بیس اکیس سال کی عمر میں احمد چلیبی علم وہنر کے اتنے بڑے رتبے پر فائز ہو گیا تھا ۔ کہ دنیا آج تک اسے ہزار فن احمد چلیبی کے نام سے یاد کرتی ہے۔ لیکن کس طرح وہ اپنوں کی ناانصافی ، ناشناسی اور بے قدری کا نشانہ بنا ۔ اگر اس کے علم وہنر کو عزت دی جاتی تو نہ جانے وہ کیا قیامت ڈھاتا۔ اگر اس ٹیلنٹ کی قدر کی جاتی اسے اسباب مہیا کیے جاتے تو عین ممکن ہے دنیا کو ہوائی جہاز کے سفر کی نعمت کئی صدیاں قبل ہی میسر آ جاتی۔ لیکن ناعاقبت اندیشوں نے جس بے دردی سے اسے شجر سایہ دار بننے سے پہلے ہی اکھاڑ کر اجنبی زمین پر سوکھنے کے لیے پھینک دیا، اس کی مثال شاید دنیا کی تاریخ میں اس سے پہلے نہیں ملتی ۔

ابن فرناس کو گلائیڈر ( انجن کے بغیر اڑنے والی فلائنگ مشین ) کا موجد سمجھا جاتاہے ۔ اسے فادر آف ایوایشن Father of Aviation بھی کہا جاتا ہے۔ ابن فرناس اپنی اس ایجاد کی وجہ سے ہوابازی کی تاریخ میں ہمیشہ کے لئے امر ہو گیا ۔ اس کے بنائے گلائیڈر کا ماڈل دبئی کے ابن بطوطہ مال میں نصب ہے۔ آٹھ سو سال پہلے سپین کا عباس بن فرناس وہ پہلا پائلٹ تھا جس نے ۸۸۰ء میں قرطبہ کے پہاڑ کی چوٹی سے چھلانگ لگا کر اپنے بنائے ہوئے گلائیڈر کے ذریعے دس منٹ تک پرواز کی تھی۔ اس وقت عباس کی عمر ستر سال تھی، لیکن لینڈنگ کے وقت وہ بری طرح زمین سے ٹکرایا اور اس کی بنائی فلائنگ مشین تباہ ہوگئی۔ خود اسے بھی گہری چوٹیں آئیں اور اس کی کمر کے کئی مہرے اپنی جگہ سے ہل گئے، وہ کافی عرصہ تک صاحب فراش رہا تھا۔ گو وہ اس کے بعد بھی سات سال تک زندہ رہا مگر اس حادثہ کے بعد اپنی کمر کی درد اور بڑھتی عمر کی بناء پر کبھی دوبارہ نہ اڑ سکا لیکن اس نے اپنی کتاب میں اپنی ان غلطیوں کا تذکرہ ضرور کر دیا جن کی عدم موجودگی کی وجہ سے اس کی پرواز کریش لینڈنگ کا شکار ہوئی تھی ۔ اس نے اپنے بنائے ہوئے گلائیڈر میں خاص طور پر چار ایسی خامیوں کی نشاندہی کی ہے جو اس کے بنائے ہوئے گلائیڈر میں موجود نہیں تھیں اور جن کی عدم موجودگی اس کی پرواز کی ناکامی کا باعث بنی۔
۱- روڈر - Rudder
۲- دم ۔ Tail
۳- لچک ۔ Flexibility
۴- پر ۔ wings
اس کی یہ کتاب بعد میں آنے والے ہوابازوں کے لئے مشعل راہ ثابت ہوئی۔ اور یہی وہ چیزیں تھیں جن پر ۱۰۰۸ء میں مشہور ترک سائنسدان اسماعیل جوہری نے کام کیا اور اپنے بنائے ہوئے گلائیڈر میں ان کا خاص اہتمام کیا ۔لیکن بدقسمتی سے نیشاپور کی ایک مسجد سے چھلانگ لگاتے وقت اس کا گائیڈر مسجد کے مینار سے ٹکرا گیا اور اس کی موت واقع ہو گئی۔ احمد چلیبی نے اسماعیل جوہری کے بنائے ماڈل کو بہتر بنایا، اس کی خامیاں دور کیں، اس کے لیے اس نے لینارڈو ونچی کے بنائے ہوئے نقشوں سے بھی استفادہ کیا۔ لینارڈو ونچی فرانس کا مشہور سائنسدان تھا ۔ اس نے گو کہ کبھی پرواز کا عملی تجربہ نہیں کیا تھا لیکن اس کے بنائے نقشوں نے احمد چلیبی کی بہت مدد کی۔

ہوابازی میرا بھی عشق ہے ۔ اور میں باقاعدگی سے فلائنگ کرتا ہوں ۔ مجھے ذاتی طور پر جہاز اڑانے سے زیادہ گلائیڈر اڑانے میں مزہ آتاہے، شاید اسی لیے عباس بن فرناس سے میرا تعارف بہت پرانا ہے ۔ میرا جب بھی دبئی جانا ہوتا ہے ۔ میں ابن بطوطہ مال میں ابن فرناس سے ملنے اور اس کے گلائیڈر کے ماڈل کو دیکھنے ضرور جاتا ہوں ۔ مگر احمد چلیبی سے میں زیادہ واقف نہیں تھا۔ اس کا نام سن رکھا تھا لیکن اس کے کارنامے کی تفصیل معلوم نہ تھی۔ اس سے مختصر تعارف تو گلاٹا ٹاور کے میوزیم کی سیر کے دوران ہوا مگر تفصیلی ملاقات اس وقت ہوئی جب میں نے یہ مضمون لکھنے کے لئے تحقیق شروع کی ۔ جس کے دوران لطف تو بہت آیا ۔ لیکن یہ ایک بہت مشکل کام بھی تھا کیونکہaviation سے متعلقہ تکنیکی چیزوں کو اس اندازمیں لکھنا کہ عام قاری بھی اسے سمجھ سکے جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ میں نے عباس بن فرناس کے بارے میں بہت تفصیل سے پڑھا ۔ اس کی کتاب اور اسی طرح کا اور بھی بہت سا مواد زیر مطالعہ رہا لیکن بدقسمتی سے احمد چلیبی کا اپنا لکھا کوئی مواد مجھے نہ مل سکا ۔ غالباً جب اسے الجزائر جلاوطن کیا گیا تو وہ اتنا مایوس ہوگیا تھا کہ اس جلاوطنی کے بعد اس نے پھر کبھی کسی ایجاد پر کام نہ کیا نہ ہی کسی تحقیقی و علمی سرگرمی میں حصہ لیا۔ اور نہ ہی اپنے اس کارنامے اور دیگر ایجادات کو محفوظ کرنے کے لئے کوئی کتاب لکھی ۔ الجزائر جانے کے بعد تاریخ میں اس کا کوئی نام ونشان نہیں ملتا ۔ احمد چلیبی کے بارے میں جاننے کے لئے زیادہ تر اولیاء چلیبی اور چند دوسرے مغربی تاریخ دانوں کی دی ہوئی معلومات پر اکتفا کرنا پڑتا ہے ۔

احمد چلیبی ۱۶۰۹ء کو استنبول میں پیدا ہوا ۔ وہ اپنے علم وہُنر اور ایجادات کی بناء پر قسطنطنیہ میں ہزار فن احمد چلیبی کے نام سے مشہور تھا۔ ہزار فن فارسی کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے ہزار ہنر رکھنے والا شخص ۔ احمد چلیبی کی الجزائر میں جلاوطنی کی زندگی کے بارے میں کوئی تفصیل نہیں ملتی ۔ وہ اتنا دل برداشتہ ہو گیا تھا۔ کہ اس کے بعد اس نے علم و تحقیق کے کام سے توبہ کر لی تھی ۔ اس نے اپنی باقی زندگی خاموشی سے الجزائر شہر کے ایک نواحی گاؤں میں گذار دی اور وہیں اکتیس سال کی عمر میں ۱۶۴۰ء میں اس کا انتقال ہوگیا ۔ اس کی قبر آج بھی الجزائر کے اس نواحی گاؤں میں اپنوں کی اس ناقدری ، بے وقعتی اور ناشناسی پر نوحہ خواں ہے۔ یہی سلوک اس کے بھائی حسن چلیبی کے ساتھ ہوا جس نے دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اپنے بنائے سات پروں والے راکٹ میں پرواز کی تھ۔ حسن کا راکٹ ۱۶۳۳ء کو توپ کاپی محل کے صحن سے اڑا جسے پچاس اوکا(ایک سو چالیس پاؤنڈ ) بارودی مواد کے ساتھ اڑایا گیا تھا۔ وہ بحیرہ مارمورا کے اوپر کئی سو فٹ تک اونچا گیا۔ اور پھر جب حسن نے محسوس کیا کہ اب راکٹ مزید اونچا نہیں جا سکتا تو اس نے اپنے راکٹ کے پر کھول دیے اور بحفاظت سنان پاشا کے محل کے سامنے آبنائے باسفورس میں آگرا جہاں سے وہ تیر کر کنارے پر جا اترا ۔ اسے بھی سلطان مراد نے پہلے انعام و اکرام سے نوازا، اور پھر تنگ نظر ملاؤں اور حاسد درباریوں کے مشورے پر کریمیا جلاوطن کر دیا ۔

اولیاء ان واقعات کا چشم دید گواہ تھا ۔ اس کی کتاب ''سیاحت نامہ'' دس جلدوں پر مشتمل ہے، جس کا دنیا کی ہر زبان میں ترجمہ ہوچکا ہے ۔ ۲۰۱۰ء میں شکاگو یونیورسٹی کے پروفیسر رابرٹ ڈینکاف نے اس کا انگلش میں ترجمہ کیا ہے۔ اولیاء چلیبی نے اپنی کتاب کی پہلی جلد میں دونوں بھائیوں کے بارے میں بڑی تفصیل سے لکھا ہے۔ پروفیسر رابرٹ ڈینکاف اولیاء چلیبی کو نقل کرتے ہوئے احمد چلیبی کی پرواز کے بارے میں لکھتا ہے:
First, he practiced by flying over the pulpit of Okmeydanı eight or nine times with eagle wings, using the force of the wind. Then, as Sultan Murad Khan (Murad IV) was watching from the Sinan Pasha mansion at Sarayburnu, he flew from the very top of the Galata Tower (in contemporary Karaköy) and landed in the Doğancılar Square in Üsküdar, with the help of the south-west wind. Murad Khan then rewarded him for his feat with a sack of gold coins, saying: "This man is uncanny: he is capable of doing anything he wishes. It is not right to surround oneself with such people". True to his word, he then exiled Ahmed to Algeria, where the scientist remained until his death.
“— Evliyâ Çelebi,
'' پہلے اس نے آٹھ یا نو بار عقاب کے پروں کے ذریعے ہوا کی مدد سے اوکمیدانی کی چوٹیوں پر مشق کی ۔ پھر اس نے گلاٹا ٹاور سے پرواز بھری اور شمال مغربی ہواؤں کے بل بوتے پر کامیابی سے اسکودور کے ڈوگن کلئیر چوک پر اس وقت جا اترا جب سلطان مراد رابع سرائے بورنو میں سنان پاشاکے محل کی چھت سے یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ مراد رابع نے پہلے تو اسے سونے کے سکوں سے بھرا تھیلا انعام میں دیا اور پھر یہ کہہ کر اسے الجزائر میں جلا وطن کردیا کہ یہ شخص غیر معمولی ہے ۔ اور جو چاہتا ہے کرلیتاہے ۔ ایسے شخص کا ہمارے اردگرد رہنا ٹھیک نہیں ۔ احمد جلاوطنی کی حالت میں ہی الجزائر میں مر گیا ۔''

احمد چلیبی اور اس کے بھائی حسن چلیبی کی خدمات کے صلے میں ان کے ساتھ جو ناروا سلوک رکھا گیا وہ اس کے ہرگز مستحق نہیں تھے۔ گو کہ آج احمد چلیبی کو ترک اپنا قومی ہیرو مانتے ہیں ۔ اسے احمد چلیبی کے نام سے کم اور ہزار فن احمد چلیبی کے نام سے زیادہ جانتے ہیں۔ استنبول کے تین ائیرپورٹ اس کے نام سے منسوب کئے گئے ہیں ۔ شہر کی کئی مساجد اس کے نام سے جانی جاتی ہیں ۔ اس کے نام کے سکے اور ڈاک ٹکٹ جاری کیے جاتے ہیں۔ اس کا کارنامہ ترکی کے سکولوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ اس کی یاد میں بیشمار ٹی وی سیریلز اور فلمیں بنائی گئی ہیں احمد چلیبی پر بنائی گئی ایک ایسی ہی شاندار فلم Istanbul Beneath My Wingsمجھے بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا . لیکن کیا یہ سب عزت ومنزلت اس کی اس مایوسی کا بدل ہو سکتی ہے جو اتنا بڑا کارنامہ سرانجام دینے کی پاداش میں اس کے حصے میں آئی ۔ میں گلاٹا کا میوزیم دیکھتے ہوئے اپنی انہی سوچوں میں مگن رہا۔ اور پھر نم آنکھوں ، افسردہ اور بھاری دل کے ساتھ ہوٹل واپس لوٹ آیا ۔آج بھی گلائیڈر اڑاتے ہوئے احمد چلیبی جب یاد آتاہے تو دل بھر آتا ہے ۔