یہ بات ہم سب پر عیاں ہے کہ پاکستان کی بنیاد اسلام پر رکھی گئی ہے۔اسلام ہی اس ملک کا بنیادی اصول ہے۔ قرآنی تعلیمات اور نبوی احکامات ہی اس ملک و ملت کا حقیقی سہارا ہیں۔ اور شریعت اسلام کو ملکی قانون و آئین بنا کر ہی ہم تعمیر و ترقی کے منازل طے کرسکتے ہیں۔ پوری قوم 70 سال سے شریعت اسلامی کے نفاذ کے لیے تڑپ رہی ہے مگر ہمارے اوپر مسلط جابر حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔ اللہ انہیں راہ ہدایت نصیب فرمائے۔ آمین
برادرانِ اسلام!
اس ملک کی آزادی کے لیے ہمارے اکابرین نے بے تحاشا قربانیاں دی ہیں۔ وہ سامراجیت کے سخت مخالف تھے اور اس پر کسی بھی قسم کا سمجھوتہ کرنے کے لیے قطعا تیار نہیں تھے۔ انہیں آزادی سے سخت محبت تھی، انہیں ڈکٹیٹر شب، ظلم و ستم اور بربریت سے سخت نفرت تھی۔ ہمارے اسلاف کا ایک واضح مقصد تھا کہ وہ معاشرے کو برائیوں سے پاک کرنا چاہتے تھے اور ایک خوبصورت اسلامی معاشرے کا قیام چاہتے تھے۔ ان کی تقاریر اور ان کی پوری عملی زندگی سے یہ باتیں عیاں ہوتی ہیں۔ قائداعظم اس ملک کے بانی ہیں۔ وہ بھی اس ملک کو ایک اسلامی اسٹیٹ بنانا چاہتے تھے۔ ان کی تقاریر اس کی گواہ ہیں، مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اسلام دشمن لابیوں اور ملک دشمن قوتوں نے اس ملک میں شریعت اسلامی کے نفاذ کے لیے ہر دور میں رکاوٹیں پیدا کیں۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب کے دوران قائداعظم نے سودی نظام کے بخیے ادھیڑ دیے تھے اورمغرب کے سودی نظام کے سخت مخالفت کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ’’ مغرب کے سودی نظام نے انسانیت کو تباہی کے دھانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ انسانیت کی بقاء اور مسلمانوں کی بقاء اسلام کے خوبصورت اقتصادی اور تجارتی نظام میں مضمر ہے‘‘۔ لیکن آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس ملک کا پورا نظام سود پر چل رہا ہے۔ تمام بینک سودی شکنجوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ سود ی نظام کو نافذ کرنا اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے علی الاعلان جنگ کرنے کے مترادف ہے مگر ہمارے نااہل حکمران روز روز نئی نئی سودی سکیمیں اور بنکاری نظام متعارف کروا رہے ہیں اور اس پر فخر بھی کر رہے ہیں۔ آج یوم آزادی کے اس موقع پر ہم سب کی کوشش ہونی چاہیے کہ ہم دامے درمے، قدمے سخنے اس سودی نظام سے برأت کا اظہار کریں اور آئینی و قانونی راستہ اختیار کر کے پاکستان سے سودی نظام کی جڑوں کو اکھاڑ پھینکیں۔
14 اگست ہمیں دعوت فکر دے رہا ہے. ہمیں انصاف سے آج یہ جائزہ لینا ہوگا کہ کیا ہم نے قیام پاکستان کے وہ اغراض و مقاصد حاصل کیے ہیں؟ یقینا نہیں۔ تو پھر ان مقاصد جلیلہ کی نشاندہی ہونی چاہیے جو قیام پاکستان کی جدوجہد اور اس عظیم تحریک کی خاص بنیاد تھیں۔ ہم نے برطانیہ کے انگریز سے آزادی ضرور حاصل کی ہے مگر ان کے ظالمانہ قوانین اور نظام حیات سے قطعاً آزادی حاصل نہیں کرسکے۔ آج بھی اس ملک میں اسلامی قانون اور ثقافت کے بجائے انگریز کا قانون اور کلچر اور دفتری نظام متعارف ہے۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ قیام پاکستان کامقصد اصلا ایک اسلامی ریاست کا قیام تھا۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے سچے پیروکار ، ان کے احکامات و تعلیمات کی روشنی میں نظام زندگی چلائیں گے اور کامیابی حاصل کریں گے۔ اخلاقی اقدار کی بالادستی ہوگی۔ انفرادی و اجتماعی حقوق میسر ہوں گے۔ جہاں غریب و امیر اور مرد و عورت کے تمام حقوق محفوظ ہوں گے۔ جہاں مسلم امہ کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے نصاب تعلیم بنایا جائے گا اور بلاامتیاز مذہب و عقیدہ ہر فر د کو اس نصاب تعلیم سے نورہدایت حاصل کرنے کا حق ہوگا۔ اس تحریک کا سب سے اہم مقصد یہ تھا کہ یہاں اس دور کا احیاء کیا جائے گا جس کی نظیر رسول اللہ ﷺ اور ان کے جانشین خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین نے قائم کرکے دکھائی تھی۔ ہمیں اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا ہوگا کہ کیا 70 سالوں کے بعد بھی ہمیں ان مقاصد کا آدھا بھی حاصل ہوا؟ خدارا ہوش کے ناخن لیں۔
آج ہمارا ملک اندرونی و بیرونی خلفشار کا شکار ہے۔ ہمیں اپنے پیارے ملک کو اندرونی انتشار اور بیرونی مداخلت سے بچانا ہوگا۔ یہ واحد مسلم ایٹمی طاقت ہے۔ اسلام دشمن قوتیں اس ملک اور ملت کی تباہی کا کوئی موقع ضائع ہونے نہیں دیتی ہیں۔ ہمیں سنجیدگی سے اسلام اور ملک دشمن قوتوں کی چالوں کا ادارک کر نا ہوگا۔ معاشی اعتبار سے اپنا وقار بحال کرنا ہوگا، سیاست دان آپس میں دست وگربیاں ہیں۔ انہیں ملک و ملت اور اسلام سے زیادہ اپنے ذاتی مفادات عزیز ہیں۔ یہ ہم سب کا فرض ہے کہ ہم سیاسی و مذہبی خلفشار کو دور کرکے اتحاد ویکجہتی کا شاندار مظاہر ہ کریں۔ نااہل حکمرانوں اور بیوروکریسی کے غنڈوں نے اس ملک کا ہر ہر ادارہ برباد کر ڈالا ہے۔ یاد رہے کہ ہمیں اخلاقی بگاڑ سے بچ کر ملک و ملت کے تمام اداروں کو تباہی کے دھانے سے بچا کر ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہوگا۔
نوجوان اس قوم کی امید ہیں۔ اس ملک کی تعمیر وترقی کا دارومدار ان کی درست تربیت پر منحصر ہے ۔ انھیں جناب رسول اللہ ﷺ اور اس کے خلفاء راشدین کو اپنا آئیڈیل بنا کر اپنے آپ کو تیار کرنا ہے۔ یاد رہے کہ آنے والے کل میں نوجوانوں نے ہی اس ملک کی تعمیر و ترقی میں شاندار کردار ادا کرنا ہے۔ ہر نوجوان سے درمندانہ گزارش ہے کہ محنت سے پڑھ کر اور اعلی اخلاق و تربیت سے مزین ہو کر اس ملک سے سیاسی خلفشار اور معیشت کی زبوں حالی کو ختم کرنا ہے۔ اسلامی ثقافت و تمدن کو زندہ کرنا ہے۔ اور صبر و معاشرتی رواداری کا کلچر پیدا کرنا ہے، آپ نے مایوس نہیں ہونا ہے۔ یوم آزادی کے ان لمحات میں آپ تمام اہل وطن کو مبارک باد کے ساتھ یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ آپ مایوس ہرگز نہ ہوں۔ اللہ نے مایوسی سے منع فرمایا ہے۔اللہ کا فرمان ہے ’’ لاتقنظوا من رحمۃ اللہ‘‘ کہ میری رحمتوں سے ہرگز مایوس نہ ہو۔ آپ ایک عزم، ایک ارادہ لے کراٹھیں کہ آپ نے اس ملک میں اسلامی نظام رائج کرنا ہے۔ انشاء اللہ ،رب تعالیٰ کی نصرت شامل حال ہوگی۔ ہمیں حقیقی آزادی کے ثمرات سے مستفید ہونے کے لیے اسلام کے حقیقی نظام حیات کو اپنانا ہوگا۔
تبصرہ لکھیے