ہوم << مبارک ہو بیٹی ہوئی ہے - سخاوت حسین

مبارک ہو بیٹی ہوئی ہے - سخاوت حسین

An Islamic mother enjoys raising her daughter at home

پہلا میسج
پیاری بیوی ! تمھارا پیغام ملا ۔ تم پریگنٹ ہو یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی۔ میں جلد آرہا ہوں۔ مجھے اگرچہ بچوں کی جنس سے فرق نہیں پڑتا لیکن امید ہے پہلا بچہ بیٹا ہی ہوگا۔
............
دوسرا میسج:
"پیاری بھابھی!
ہم جلد آپ کی طرف آرہے ہیں۔ جب سے یہ یہ خوش خبری سنی ہے ہم بے چین سے ہوگئے ہیں۔ بس دعا کیجئے کہ جلد آپ کے آنگن میں ایک کھلکھلاتا بچہ صحت و سلامتی سے آجائے اور بھابھی آپ کی نند کو لڑکا ہی چاہئیے۔ "
............
تیسرا میسج:
"پیاری بہو! تم ہم سے دور بہت دور امریکہ میں ہو۔ میں نے جب سے خوش خبری سنی ہے ،دیوانی ہوئی پھرتی ہوں۔ بے چین سی روح آنے والی ننھی سی جان سے ملنے کے لیے بے کل ہوئی پھرتی ہے۔ سنو بہو بیٹا ہی ہے نا!"
............
چوتھا میسج :
"دیکھو! مجھے وارث چاہئیے اور وارث بیٹے ہوتے ہیں بیٹیاں نہیں۔"
............

وہ دونوں ٹیرس پر بیٹھے باتیں کررہے تھے۔ دفعتا وہ بولا :
" پیاری مینا! میں جلد تمھارے گھر اپنے والدین کو بھیج دوں گا۔ میری امی مجھے کب سے شادی کرنے کو کہہ رہی ہیں وہ کہہ رہی ہیں بس بہت ہوگیا ۔انہیں ایک پوتا چاہئیے جس سے وہ کھیل سکیں۔ "
............
"دیکھو ساحرہ ! تم واقعی صورت میں ساحرہ ہو ۔ میں کتنا خوش ںصیب ہوں جسے تم جیسی خوب صورت بیوی ملی۔ ہم نے کتنی دیر باتیں کر لیں۔ بس جلد سے مجھے چھوٹا سے ایان دے دو جو روز گھر کے دروازے پر مجھے روکے اور دیر سے آنے پر ڈانٹے۔ "
"مگر ساحر بیٹیاں باپ کی لاڈلی ہوتی ہیں نا۔"
اس نے ہلکا سا احتجاج کیا۔
" پیاری ساحرہ ! تم صحیح کہہ رہی ہو لیکن پہلا بیٹا ہوگا تو مجھے تسلی ہوگی نا۔ دوسری بے شک بیٹی ہو۔"
............
ہاسپٹل کا منظر ہے۔ دفعتا نرس دوڑتی آتی ہے۔ سامنے ساس ، بیٹا اور نند بیٹھی ہوئی ہیں۔
"مبارک ہو" بیٹی ہوئی ہے۔
تبھی ساس کا منہ بن جاتا ہے۔ بیٹے کو جیسے گہرا صدمہ لگ جاتاہے اور نند کے منہ سے ایک دم نکلتا ہے
"پھر سے بیٹی!"
جبکہ شوہر کے ناگورا چہرے سے چھپا ہوا پیغام پڑھا جاسکتا ہے۔
"پھر سے عذاب"
............

وہ ہانپتی اور کانپتی ماں کے آنگن میں دکھ سے چڑیا کو دیکھ رہی ہے۔
"ماں ! کیا یہ بھی شرائط کے ساتھ بچے پیدا کرتے ہیں۔"”
وہ درد سے گویا ہوتی ہے۔
"نہیں میرے بچے ! ان کےہاں ایسا کچھ نہیں ہے۔ یہ تو ہم انسانوں کے معیارات ہیں جو انسانیت کے درجے سے بھی نیچے کی شے ہے۔ "
ماں اسے تسلی دیتے ہوئے کہتی ہے۔
"تو پھر ہم ایسا کیوں سوچتے ہیں۔ ہمیں کیوں ہرصورت میں لڑکا چاہیے۔"
ماں اس کے بالوں میں تیل لگاتے ہوئے سوچتی ہےکہ اسے بھی تو بہو سے بیٹا ہی چاہیے تھا۔
............

وہ دھیرے دھیرے ہاسپیٹل کی چھت کی جانب جارہی ہے۔ اس کا دل زخم سے پھٹ رہا ہے۔ آنکھیں کب سے جھیل بن چکی ہیں۔ تبھی بچیوں کی صورتیں سامنے آتی ہیں اور وہ مزید مستحکم قدموں سے آگے بڑھتی ہے۔
"رکو! یہ قدم صحییح نہیں ہے۔ تم ایک ماں ہو۔ "
اندر سے جیسے آواز آتی ہے۔
"ماں!"
وہ چلاتے ہوئے خود سے کہتی ہے۔
" ماں ! نہیں بیٹیوں کی ماں ہوں۔ وہی بیٹیاں ! جو بوجھ ہوتی ہیں۔ جنہیں میں دنیا میں لانے کی ذمہ دار ہوں۔ وہ کہتا ہے اس سے بہترتھا کہ میں بانجھ ہوتی۔ اس نے کہا ہے میں اس کائنات کی سب سے منحوس انسان ہوں اور مجھے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ہے کیوں کہ میرے ہاں صرف بیٹیاں پیدا ہوتی ہیں۔ "
............

وہ آج کل بہت خوش رہتی تھی۔ اس کی پسند کی شادی ہوئی تھی۔ اس کا محبوب شوہر اسے دل کی گہرائیوں سے پیار کرتا تھا۔ وہ اکثر کہتا تھا کہ:
" میں چاہتا ہوں کہ میری بیٹی بھی تم جیسی پیاری ہو۔ روز گھر کے آنگن میں بابا کے ساتھ کھیلے۔ لاڈ کرے۔"
اس کی بات سن کر وہ بے قرار ہوجاتی ۔ خوشی سے اس کا دامن مہک جاتا۔
تیسری بیٹی کی پیدائش کے بعد جیسے سب کچھ بدل گیا تھا۔ باپ کے آنگن میں کھیلنے والی بچیوں کو جیسے چپ لگ گئی تھی۔
"وہ دوسری شادی کررہا ہے۔ اسے بیٹا چاہئیے۔"
ایک دن اس نے خبر سنی تو جیسے اندر سے سب کچھ ٹوٹ گیا۔
مزید دو سالوں بعد ہی گھر کے آنگن میں ایک ماں ، اس کی تین بیٹیاں اور صرف تنہائی تھی ۔ شوہر انہیں چھوڑ کر کب سے دوسری بیوی کے ساتھ دوسرے ملک شفٹ ہوچکا تھا۔
............

"بیٹی ! اس دور کا فخر ہے۔ ہماری نگاہوں کا نور ہے۔ بیٹی کیا کچھ نہیں کرسکتی۔ وہ باپ کے آنگن کی کل کائنات ہے۔ وہ معمار ہے۔ وہ اپنی محبت سے منفی قوتوں کو مسمار کرتی ہے۔ عورت ہر روپ میں خوب صورت ہے۔ ماں کا روپ اسے عظمت عطاکرتا ہے۔ وہ بہن بن کر بھائی کے گھر کی چاند بنتی ہے۔ بہو بن کر ساس کے آنگن کی جان بنتی ہے اور بیوی بن کر شوہر کی پہچان بنتی ہے۔ "
تالیوں سے پورا ہال گونج اٹھا۔ عورت کے بارے میں کہے گئے یہ الفاظ بلاشبہ لاجواب تھے۔
محفل برخاست ہونے کے بعد اس خاتون نے کہیں فون گھمایا۔
" دیکھو کاشف ! میں اسے دوبارہ گھر نہیں بلاؤں گی۔ اس نے میرے بیٹے کی جان عذاب کردی ہے۔ اس بانجھ نے الزام لگایا ہے کہ میرے بیٹے میں کوئی مسئلہ ہے۔ میں جلد بیٹے کی دوسری شادی کروں گی اور اسے طلاق بھجوادوں گی۔ "
............

پھر ایک دن یہ بچی بہن ، بیٹی ، بہو اور ساس بن جاتی ہے اور پھر مردوں سے زیادہ اسے اپنی نسل کے ہونے کا دکھ ہوتا ہے۔ یہ بہو کی خوشیاں چراتی ہے۔ اسے بس بیٹا چاہئیے ہوتا ہے۔ اسے خود علم نہیں ہوتا کہ اسے کیوں ہرصورت میں بیٹا ہی چاہئیے۔ جب بیٹا ہوجاتا ہے اور ایک دن وہ اسے چھوڑ کر بہو کے ساتھ کہیں اور جاتا ہے تو وہی بیٹی جسے یہ بوجھ کہتی تھی اس کے بڑھاپے کا سہارا بنتی ہے تب یہ اس کے ماتھے کو چومتی ہوئی کہتی ہے۔
"مبارک ہو بیٹی ! تم میری طاقت بنی ہو۔ " اور اس عورت کے اندر ہی کوئی عورت خوشی سے چلاتے ہوئے کہتی ہے
"مبارک ہو بی بی ! تمھارے ہاں بیٹی ہوئی ہے۔"

Comments

Avatar photo

سخاوت حسین

سخاوت حسین ہے تعلق لاہور سے ہے۔ ایک کافی عرصے سے اخبارات اور جرائد میں کالم، بلاگ، افسانچے اور افسانے لکھ رہے ہیں۔ ادب سے خاص شغف ہے۔ افسانہ نگاری پسندیدہ صنف ہے۔

Click here to post a comment