ہوم << پروفیسر خورشید احمد: چند یادیں، ایک ملاقات - افتخار گیلانی

پروفیسر خورشید احمد: چند یادیں، ایک ملاقات - افتخار گیلانی

مرحوم پروفیسر خورشید احمد کے بارے میں کچھ لکھنا میرے لیے گویا "چھوٹا منہ، بڑی بات" کے مترادف ہے۔ نوے کی دہائی کے اوائل میں، جب میں دہلی میں صحافت کے ابتدائی مراحل سے گزر رہا تھا، مجھے دو ایسی شخصیات سے فیض حاصل ہوا جنہوں نے میرے فکری سفر کی بنیاد رکھی۔ ایک سے براہِ راست ملاقاتیں ہوئیں، جبکہ دوسرے سے محض فون پر رابطہ رہا—اور زندگی میں صرف ایک مرتبہ ان سے شرفِ ملاقات نصیب ہوا۔

یہ غالباً 1992 کا سال تھا۔ کشمیری قائدین جب ایک طویل اسیری کے بعد دہلی آتے، تو وہاں مقیم چند کشمیری طلبہ اور ملازمت پیشہ افراد باری باری ان کی میزبانی کا فریضہ انجام دیتے۔ ایک سینئر ساتھی باقاعدہ شیڈول بناتے، اور جس دن کسی کی "ڈیوٹی" ہوتی، وہ دفتر یا کلاس سے چھٹی لے کر ان قائدین کی خدمت پر مامور ہوتا۔ ان کے لیے ٹیکسی کی فراہمی یا کسی مقام پر رہنمائی کی ذمہ داری ہوتی۔ میرواعظ عمر فاروق اور شبیر شاہ تو لاؤ لشکر کے ساتھ سرینگر سے وارد ہوتے، مگر دیگر قائدین جیسے عبدالغنی لون، پروفیسر عبدالغنی بٹ، اور عباس انصاری وغیرہ کو مقامی معاونت درکار ہوتی تھی۔ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ سے سربراہ محمد یسین ملک تو ان دنوں ابھی انڈر گراؤنڈ لیڈر تھے، مگر بعد میں جب انہوں نے دہلی آنا شروع کیا، تو ان کےلیے بھی ایسا ہی انتظام ہوتا تھا۔

ایک بار سید علی گیلانی دہلی آ کر چانکیہ پوری کے جموں و کشمیر ہاؤس میں قیام پذیر ہوئے، تو میری اور ایک اور ساتھی کی "ڈیوٹی" ان کے ساتھ لگائی گئی۔ تب تک ان سے محض اتنا تعلق تھا کہ وہ سوپور سے ایم ایل اے اور معروف رہنما تھے، اور ہمارا خاندان بھی سوپور کا رہائشی تھا۔

اسی دوران ان کے نجی سیکریٹری، غالباً ڈاکٹر محمد سلطان نے، گیلانی صاحب کو یاد دلایا کہ معروف کالم نگار اور ماہر قانون اے جی نورانی ان سے ملاقات کے لیے آ رہے ہیں۔ جب نورانی صاحب کمرے میں داخل ہوئے، تو رسمی سلام دعا کے بعد انہوں نے سبھی، حتیٰ کہ ڈاکٹر سلطان کو بھی، باہر جانے کے لیے کہا۔ چونکہ میں اور میرا ساتھی چائے وغیرہ پیش کر رہے تھے، اس لیے ہمیں جانے کو نہیں کہا۔ چائے دینے کے بعد ہم ایک کونے میں بیٹھ گئے۔

تقریباً ایک گھنٹے بعد، رخصت ہوتے ہوئے نورانی صاحب نے گیلانی صاحب سے کہا کہ انہیں ایک ایسے شخص کی تلاش ہے جو کشمیر پر کالم لکھنے میں ان کی معاونت کرے اور مواد فراہم کرے۔ گیلانی صاحب نے فوراً مجھے آواز دی اور میرا تعارف کرایا۔ بطور کالم نگار میں پہلے ہی ان کا مداح تھا۔ ان دنوں ان کا کالم "اسٹیٹس مین" اخبار میں چھپتا تھا اور میں صرف ان کے کالم کی خاطر وہ اخبار خریدا کرتا تھا۔

نورانی صاحب نے مجھ سے فون نمبر مانگا۔ میرے پاس فون نہیں تھا۔ انہوں نے اپنا نمبر دیا اور کہا کہ ہر اتوار کو صبح گیارہ بجے سے سوا گیارہ بجے تک وہ میری کال کا انتظار کریں گے۔ بعد ازاں ہمارا ایسا تعلق بن گیا کہ میں نے ان کی پانچ کتابوں کے لیے بطور ریسرچر کام کیا۔ جب منموہن سنگھ اور پرویز مشرف کے کشمیر فارمولے پر ان کی گیلانی صاحب سے ناراضگی ہوئی، تو وہ کہتے تھے کہ "میں گیلانی صاحب سے خفا ہوں، مگر یہ احسان کبھی نہیں بھول سکتا کہ انہوں نے افتخار سے میرا تعارف کرایا۔"

اسی دورہ کے دوران جب ایک بار پھر میں ڈیوٹی پر تھا ۔ میں گیلانی صاحب کے کمرے کے باہر ان کے سیکریٹری کا دیا ہوا کوئی کام کر رہا تھا کہ اچانک اندر سے بلاوا آ گیا۔ گیلانی صاحب کسی سے فون پر بات کر رہے تھے۔ معلوم ہوا کہ پاکستان سے پروفیسر خورشید احمد کال پر تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ریسیور ایک برخوردار، افتخار گیلانی، کو دے رہے ہیں جو صحافت کے طالب علم ہیں اور ان کا مسئلہ حل کر سکتے ہیں۔ جب میں نے کال سنبھالی، تو میرے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ پروفیسر صاحب کی کئی کتابیں اور مقالات پہلے ہی میرے مطالعے میں آ چکے تھے۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ انہیں کشمیر پر مسلسل مواد درکار ہے۔ انہوں نے رہنمائی کی کہ ہر ہفتے کشمیر پر اخبارات میں شائع ہونے والی رپورٹس اور مضامین کی تلخیص تیار کر کے انہیں بھیجی جائے۔ دہلی میں "کشمیر ٹائمز" کا دفتر شاہجہان روڈ پر واقع تھا اور کشمیر پر اطلاعات کا واحد منبع تھا،۔ ایس کے ڈھنگرہ صاحب، جن کے تحت بعد میں، میں نے کام بھی کیا، اس کے انچارج تھے۔ وہ اسی دفتر میں رہائش پذیر تھے۔ چونکہ ان کا گھر گراؤنڈ فلور پر تھا، وہ اخبار کی کاپیاں کھڑکی کی سلاخوں کے پاس رکھ دیتے تھے۔ میں وہیں کھڑے کھڑے اخبارات پڑھ کر اہم نکات ڈائری میں نوٹ کرتا۔دفتر کے اندر وہ داخل ہونے نہیں دیتے تھے۔

چند ہفتوں بعد، پروفیسر صاحب نے مشورہ دیا کہ تلخیص ٹائپ کر کے بھیجی جائے۔ مجھے یاد ہے کہ انہوں نے دہلی میں اپنے ایک رفیق کو میرے لیے چھوٹا سا ٹائپ رائٹر خرید کر دینے کو کہا۔ کافی عرصے تک یہ ٹائپ رائٹر میرا ساتھی رہا۔ کمپیوٹر آنے کے بعد بھی میں اسے بطور تبرک سنبھالے رکھا۔ اس تمام سلسلے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ نورانی صاحب اور پروفیسر خورشید کے مضامین پڑھ کر مجھے اندازہ ہونے لگا کہ معلومات کا کس طرح استعمال اور تجزیہ کیا جاتا ہے۔ میں تو محض ابتدائی معلومات فراہم کرتا تھا۔ پروفیسر خورشید احمد سے یہ تعلق تب تک برقرار رہا جب تک 1995 میں دہلی میں حریت کا دفتر قائم نہ ہوا۔ پھر میں خود بھی مصروف ہو گیا اور یہ کمٹمنٹ نبھانا ممکن نہ رہا۔

فروری 2001ء میں، اسلام آباد میں میرے ایک کزن ذوالقرنین کی شادی تھی۔ میں کچھ دنوں کی تاخیر سے پہنچا۔ شادی ان کی بھتیجی سے طے ہوئی تھی۔ انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز میں جناب ارشاد محمود صاحب نے پروفیسر صاحب سے ملاقات کا بندوبست کرایا۔ انسٹیٹیوٹ کے دفتر میں مجھ جیسے نو آموز صحافی کا انہوں نے جس محبت سے استقبال کیا، وہ انھی کا خاصہ تھا۔ میں ان دنوں "دی نیشن" اور "نوائے وقت" کے لیے دہلی سے رپورٹنگ کرتا تھا۔ انہوں نے میری رپورٹس کی ایک باقاعدہ فائل بنا رکھی تھی۔ ملاقات سے قبل میرا ارادہ تھا کہ ان کا انٹرویو لینے کی سعادت حاصل کروں۔ میں نے سوال بھی ترتیب دیے ہوئے تھے۔ مگر اس ملاقات کے دوران انہوں نے خود میرا انٹرویو لیا۔ دو گھنٹے تک وہ بھارت کی سیاست، صحافت، کشمیر اور میری رپورٹس پر سوالات کرتے رہے۔معروف صحافیوں، قلم کاروں و سیاست دانوں کے بارے میں وہ سوالات کرتے رہے۔ دہلی شہر کو وہ بہت یاد کرتے تھے: قرول باغ، جامعہ ملیہ اسلامیہ، جامع مسجد، گلی قاسم جان، ترکمان گیٹ—سب کا ذکر چھیڑا۔

اسی طرح 1993 میں سید علی گیلانی کی جیل ڈائری "رودادِ قفس" کے نام سے شائع ہونی تھی۔ مرحوم الطاف احمد شاہ اس کا مسودہ دہلی لائے اور اگلے روز اسے پریس میں دینا تھا۔ ایک ساتھی، جو اب معروف ٹی وی پروڈیوسر ہیں، نے جب مسودہ دیکھا تو کہا کہ اس پر کسی بڑی شخصیت کا مقدمہ ہونا چاہیے۔ طے پایا کہ پروفیسر خورشید احمد سے رابطہ کیا جائے۔ پروفیسر صاحب سے جب الطاف شاہ نے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ مکمل مسودہ پہنچنے میں وقت لگے گا، لہٰذا اس کی ایک تلخیص بھیج دی جائے۔ ہم نے پوری رات جاگ کر تلخیص تیار کی اور اگلے دن انہیں فیکس کر دی۔ انہوں نے مکمل کتاب بعد میں پڑھی، مگر مقدمہ انہوں نے پہلے ہی تحریر کیا تھا۔

منموہن سنگھ اور پرویز مشرف کے کشمیر فارمولے پر کشمیر میں سیدعلی گیلانی کے بغیر بقیہ سیاسی طبقوں میں اتفاق رائے تھا۔ بھارتی حکومت اس وقت کسی طرح گیلانی کو بھی کشتی میں سوار کروانا چاہتی تھی۔ اس کےلئے وہ ایسے افراد کی تلاش میٰں تھے، جو بزرگ حریت لیڈر پر اثر و رسوخ استعمال کرنے کی پوزیشن میں ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ قرعہ فال پروفیسر خورشید احمد صاحب کے نام پڑا تھا۔ وزیر اعظم من موہن سنگھ کی ایما پرایک بااثر شخصیت نے ان سے ملاقا ت کرکے ان کو گیلانی صاحب کو مشرف فارمولہ پر آمادہ کرنے کی گذارش بھی کی تھی۔ مگر انہوں نے حریت کی اندرونی سیاست میں مداخلت کرنے سے انکار کردیا، اور معذرت ظاہر کی تھی کہ وہ کوئی بات منوانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ پاکستان حکومت کی طرف سے بھی ان دنوں انھیں اس سلسلے میں خاصے دباؤکا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔

علی گیلانی کی جیل ڈائری روداد قفس کے مقدمہ میں انہوں نے لکھا تھا : ’’جب میں سید علی گیلانی کی پرآشوب اور ہنگاموں سے بھری زندگی پر نظر ڈالتا ہوں، اور ان کی شخصیت کے وہ نقوش ذہن میں لاتا ہوں، جو دل و دماغ پر نقش ہو چکے ہیں، تو میرے سامنے اقبال کا مردِ مومن اُبھر آتا ہے۔ ‘‘

وہ خود بھی اسی مرد مؤمن کی عملی تفسیر تھے۔۔

Comments

Avatar photo

افتخار گیلانی

افتخار گیلانی برصغیر کے معروف صحافی ہیں۔ سیاست اور خارجہ پالیسی جیسے موضوعات کی رپورٹنگ کرنے کا تین دہائیوں کا تجربہ ہے۔ ہندوستان کے بہت سے صحافتی اداروں میں ادارتی ذمہ داریوں کے علاوہ ترکی کی نیوزایجنسی انادولو اور جرمن ادارے ڈوئچے ویلے کےلیے کام کر چکے ہیں۔ ان کے کالم پاکستان اور ہندوستان کے کئی اخبارات میں چھپتے ہیں اور بڑے پیمانے پر سراہے جاتے ہیں۔ کئی میڈیا ایوارڈ حاصل کیے ہیں۔ تہاڑ کے شب و روز نامی کتاب کے مصنف ہیں۔

Click here to post a comment