ہوم << موبائل کے استعمال کا الہامی انداز - ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

موبائل کے استعمال کا الہامی انداز - ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

"ذرا ٹھہرو، میں ابھی پتا کر لیتا ہوں۔" یہ کہہ کر چچا محفوظ خان نے اپنے ممبر پارلیمنٹ کو فون کیا جو نہیں سنا گیا بولے: "وہ خود فون کر ے گا". یخ بستہ چنگھاڑتی ہواؤں کے تھپیڑے کھڑکیوں پر دستک دے رہے تھے۔ برطانیہ میں چچا کے گھر ہم دونوں رات گئے ایک گرماگرم سیاسی بحث میں اتنا الجھ چکے تھے کہ آتشدان دھیمہ ہونے کے باوجود سردی بے بس ہو گئی تھی۔ساڑھے گیارہ بجے رات ممبر پارلیمنٹ کا فون آیا:" مسٹر خان! آپ نے یاد کیا تھا۔ معاف کیجئے، ہمارا مقامی اجلاس تھا، فون نہیں سن سکا۔ میں آپ کے کس کام آسکتا ہوں؟"

آج اگر غیر مسلم ممالک دنیاپر حکمران ہیں تو وجہ محض ان کی سائنسی ترقی نہیں ہے۔ سائنسی ترقی اور ٹیکنالوجی پر اگر ان کی آہنی گرفت ہے تو وہ آہنی گرفت دراصل وہ اخلاقی نظام ہے جو تمام بنی نوع انسان کی مشترکہ ملکیت ہے۔ اسے ہم مسلمان بھی اپنا سکتے ہیں۔1981 میں مجھے کہیں سے امریکی دستور نہیں مل سکا۔ میں نے امریکی سفارتخانے کو خط لکھ مارا. صرف دو دن بعد سفارتخانے کا ہرکارہ دستور اور ڈون جونز کے خط کے ساتھ مجھے یونیورسٹی میں تلاش کر رہا تھا۔خط میرے پاس محفوظ ہے۔ادھر اپنے مرزا کہتے ہیں کہ ہمارا مقامی کونسلر میرا خالہ زاد ہے۔ ہم عمر ہونے کے باعث ابتدائی 20 سال ہم نے اکٹھے گزارے۔ ایک جیسا خاندانی پس منظر ہے۔ لیکن وہ مجھ سے ذرا آگے ہے کہ ایک دینی جماعت کا رکن ہے۔ ”صاحب! زندگی بھر حسرت رہے گی کہ وہ میرا فون بھلے نہ سنے، مصروف ہو سکتا ہے۔ لیکن فارغ ہو کر کم از کم یہ تو پوچھ لے کہ بھائی! خیریت تو ہے؟ زندہ ہو یا مر چکے ہو؟ ارے صاحب! فون تو آج کل کم و بیش مفت سے بھی سستے ہیں“۔

فون مفت سے کیسے سستے ہیں، اسے واضح کرنے کی میری درخواست پر مرزا برافروختہ ہوگئے: ”میاں! تم مسئلہ زیر بحث چھوڑ کر ضمنی باتوں میں کیوں پڑ جاتے ہو“۔

خبر نہیں، شہر، بستیاں، کوچے، قریے، آبادیاں اور حیات انسانی کا ثبوت مہیا کرنے والی یہ تمام علامتیں مرگھٹ اور بھوت بنگلوں کی نمائندہ کیوں بن گئی ہیں۔ سال ہا سال کے تجربے، مشاہدے کے بعد ذہن میں ایک خیال پختہ تر ہو گیا۔ چند دیگر احباب سے بات کی تو انہوں نے میرے خیال سے مکمل اتفاق کیا۔چنانچہ گزشتہ سات دن اسی معاشرتی مطالعہ میں گزارے جن میں سے تین دن شہر سے باہر گزرے۔ کافی عرصے بعد جانا ہوا تھا۔ سوچا احباب سے فون پر بات ہو جائے۔ ان 7 دنوں میں 20 افراد وہ نکلے جنہیں فون کیا تو وہ نہ سن سکے.

موبائل کی الگ دنیا ہے۔ ہاتھ شوربے میں لتھڑے ہو سکتے ہیں۔ بندہ غسل کر رہا ہوتا ہے، کسی اجلاس میں ہو سکتا ہے۔ لیکن کافی غور کے بعد بھی میں کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا کہ جب ان کے موبائل پر میرا نمبر آگیا تو بیس میں سے صرف تین افراد نے مجھے کیوں درخور اعتنا سمجھا۔ ان تین میں سے ایک اورینٹل کالج کے سابق پرنسپل اور ادارہ ثقافت اسلامیہ کے موجودہ ڈائریکٹر مظہر معین تھے۔ ان کے پاس میرا نمبر نہیں تھا۔ ہماری پہلی اور آخری ملاقات بھی زمانہ طالب علمی میں ہوئی تھی، ہم انجان تھے۔ پھر بھی ان کا فون آیا: "مظہر معین عرض کر رہا ہوں، جی فرمائیے؟……ایک ریٹائرڈ پروفیسر ڈاکٹر اور اب نام نہاد "بین الاقوامی" اسکول کے موجودہ ڈائریکٹر سے میرا چالیس سالہ بھائی چارہ ہے. یہ جانتے ہوئے کہ وہ فون نہیں سنیں گے, میں نے انہیں مختلف اوقات میں دو دفعہ فون کیا جو نہیں سنا گیا۔ سوچا کہیں مصروف ہوں گے، کوئی مسئلہ ہو گا۔ لہٰذا بذریعہ فون پیغام بھیج دیا کہ آپ کے دفتر کے پاس ہی پیدل مسافت پر میرا قیام ہے۔ بس سلام دعا پیش نظر تھی۔ تیسرا دن ہے کوئی جواب نہیں۔ ایک برخوردار کو فون کیا۔ تیسری گھنٹی پر شاید مصروف ہونے پر انہوں نے فون کاٹ لیا۔ ہرگز توقع نہیں تھی کہ وہ فون کریں گے اور واقعی نہیں کیا۔ لیکن بعد میں سامنے آتے ہی یہ فرمائش کردی کہ میں اپنی تحریروں کا رخ امت مسلمہ کے اجتماعی مسائل کی طرف کروں۔ ایک اور برخوردار سے ایک معمولی استفسار کیا۔آج تیسرا دن ہے، کوئی جواب نہیں۔

یوں 17 لوگ وہ ہیں جنہوں نے مجھ سے کوئی جوابی رابطہ نہیں کیا۔یہ بھی نہیں ہے کہ یہ معززین بہت بڑے عہدوں پر فائز ہیں یا ارب پتی مصروف کاروباری لوگ ہیں یا ان سے میرا کوئی عناد ہے، یا میں ان کے مقابلے میں کوئی کمتر مخلوق ہوں، نہیں صاحب! یہ اپنے جاننے والے میرے اپنے پیارے، میرے جیسے اور معاشرے کے عام فرد ہیں۔ آئندہ بھی ہم ملتے رہیں گے۔ پر نہیں سمجھ سکا کہ ایسے کیوں ہے۔ یہ کم و بیش تمام وہ لوگ ہیں جن کا اوڑھنا بچھونا اسلام، اسلامی تعلیمات اور اسلامی نظام حیات ہے۔ میں معروف کمیونسٹ صاحب طرز ادیب سید سبط حسن کو اپنے زمانہ طالب علمی میں خط لکھتا، تو وہ فورا جواب دیتے تھے۔ دو ایک خط اب بھی کہیں موجود ہیں۔ انہی مذکورہ غیر معروف چچا نے 1969 میں سید ابوالاعلی مودودی رحمتہ اللہ علیہ کو خط لکھا تو انہوں نے بلاتاخیر جواب دیا جو میرے پاس محفوظ ہے۔ مسئلہ اسلام یا کمیونزم کا نہیں، میرے ناپختہ سے خیال میں یہ وہ پیچیدہ نفسانی یا نفسیاتی گرہیں ہیں جنہوں نے انسانی قلوب و اذہان کو مفلوج کر رکھا ہے۔ امید ہے ماہرین نفسیات اس طرف توجہ کر کے کوئی حل تجویز کریں گے۔

یہ دنیا عالم اسباب ہے۔اللہ کریم آسمانوں سے اتر کر لوگوں کی مشکلات دور نہیں کرتا۔ وہ کسی غیر حسی اور نادیدہ طریقے سے مشکل کے شکار انسان کو کسی اور کے پاس بھیج دیتا ہے۔ مشکل کا شکار شخص اس دوسرے انسان کو کبھی میری طرح فون کرے تو وہ شخص اللہ کی نمائندگی کر رہا ہوتا ہے۔ اب اگر اللہ کا وہ نمائندہ فون نہ سنے تو کیا اس نے نمائندگی کا حق ادا کیا؟ ہو سکتا ہے وہ لاپرواہ ہو، ہو سکتا ہے اسے ہم تکبر سے موسوم کریں، ممکن ہے یہ عدم توجہی ہو، ذوقی مسئلہ ہے لہذا کوئی اسے فرعونیت کا نام بھی دے سکتا ہے۔ تو اس لاپرواہی، عدم توجہی، متکبرانہ رویے اور فرعونیت کا تعلق کیا نعوذباللہ، اللہ کریم سے ہے؟ نہ صاحب! اللہ نے ایک مجبور بندے کو آپ جیسے اپنے نمائندے کے پاس بھیجا۔ اور آپ نے اپنی کسی نفسانی گرہ کے باعث خود کو الہامی اعزاز سے محروم کر لیا۔ ان الانسان لفی خسر۔ امید ہے، اللہ کے یہ مفروضہ نمائندے اپنے رویے پر ذرا غور کریں گے۔