ہوم << پاکستان میں لینڈ منیجمنٹ میں تبدیلی کیوں ضروری ہے؟- ملک محمد فاروق خان

پاکستان میں لینڈ منیجمنٹ میں تبدیلی کیوں ضروری ہے؟- ملک محمد فاروق خان

پاکستان میں زمین کی انتظامیہ کا نظام طویل عرصے سے بدعنوانی، غیر شفافیت اور انتظامی رکاوٹوں کا شکار ہے۔ موجودہ نظام میں پٹواری خانوں کی روایتی طریقے سے زمین کے ریکارڈ سنبھالنے کے عمل میں بدعنوانی اور رشوت کا اندیشہ رہتا ہے، جس کے نتیجے میں نہ صرف زمین کے کاغذات کی اصلیت متاثر ہوتی ہے بلکہ ملکیت کی درستگی اور شفافیت بھی مجروح ہوتی ہے۔ ایک جدید، ڈیجیٹل اور شفاف نظام کی ضرورت ہے تاکہ زمین کے ریکارڈز کو بہتر طریقے سے محفوظ اور منتظم کیا جا سکے، اور عوام کو مافیا یا بدعنوانی کے شکار ہونے سے بچایا جا سکے۔

پٹواری خانوں کا غیر معیاری نظام بدعنوانی کو فروغ دیتا ہے۔ رشوت کے ذریعے زمین کے کاغذات میں تبدیلیاں اور جعلی دستاویزات تیار ہو سکتی ہیں۔
زمین کے ریکارڈز عموماً بکھرے ہوئے ہیں اور ایک مرکزی ڈیجیٹل نظام کی کمی ہے، جس کی وجہ سے منتقلی اور تصدیق کے دوران مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
زمین کی منتقلی کے عمل میں رجسٹرار کے دفتر سے مکمل تعاون نہ ہونے کی وجہ سے دستاویزات کی درستگی متاثر ہوتی ہے۔

عالمی سطح پر کئی ممالک نے زمین کے ریکارڈز کو ڈیجیٹلائز کرنے اور شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور ماڈل اپنائے ہیں۔ ان میں سے چند اہم پہلو درج ذیل ہیں:
ایسٹونیا نے ایک مکمل ڈیجیٹل لینڈ رجسٹری نظام متعارف کروایا ہے جس میں بلاک چین ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس سے ریکارڈز میں کسی قسم کی تبدیلی کو ٹریک کرنا ممکن ہوا اور شفافیت میں اضافہ ہوا۔
پاکستان میں بھی تمام زمینی ریکارڈز کو ایک مرکزی ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر منتقل کیا جائے، جس سے غیر قانونی تبدیلیاں اور جعلی دستاویزات تخلیق کرنے کی راہ بند ہو جائے گی۔
ملک ریاض بحریہ ٹاؤن جیسے جدید ماڈلز پرائیویٹ سیکٹر کے تجربے اور جدید انتظامی طریقہ کار کی بدولت کامیاب ہوئے ہیں۔
پٹواری خانوں کی خدمات کو آؤٹ سورس کر کے نجی اداروں کی شفاف اور موثر خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ اس سے نہ صرف بروکریج میں کمی آئے گی بلکہ بدعنوانی کے امکانات بھی کم ہوں گے۔
کئی ترقی یافتہ ممالک میں زمین کی منتقلی کا عمل صرف رجسٹرار کے زیر نگرانی ہوتا ہے جس سے فریقین کے درمیان تنازعات کم ہوتے ہیں.
پاکستان میں زمین کے کاغذات کو ہمیشہ زمیندار کے پاس رکھنے کے ساتھ ساتھ، ٹرانسفر کے وقت رجسٹرار کے دفتر سے مکمل تصدیق کرانا چاہیے تاکہ کسی بھی غیر قانونی عمل کا اندیشہ ختم ہو جائے۔
عالمی سطح پر ایسے نظام موجود ہیں جہاں عوام کو آن لائن اپنی زمین کی معلومات تک رسائی حاصل ہوتی ہے، جس سے شفافیت میں اضافہ ہوتا ہے اور بدعنوانی کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔
ایک ایسا پورٹل بنایا جا سکتا ہے جہاں عوام اپنی زمین کے ریکارڈز، منتقلی کی تفصیلات اور متعلقہ دستاویزات آن لائن دیکھ سکیں، جس سے شفافیت اور اعتماد میں اضافہ ہوگا۔

پاکستان کے لینڈ منیجمنٹ کے نظام میں بنیادی تبدیلیاں لانا ناگزیر ہے۔ جدید ڈیجیٹل رجسٹری، نجی شعبے کی شراکت، مضبوط رجسٹری کا کردار اور عوامی رسائی کے ذریعے نہ صرف زمین کے ریکارڈز کی درستگی اور شفافیت ممکن ہو سکے گی بلکہ بدعنوانی اور رشوت جیسے مسائل کا خاتمہ بھی یقینی بنایا جا سکے گا۔ عالمی ماڈلز سے رہنمائی حاصل کر کے، پاکستان ایک ایسے نظام کی جانب گامزن ہو سکتا ہے جہاں ہر شہری کو اپنی زمین کی مکمل اور صحیح معلومات دستیاب ہوں اور کوئی بھی فرد مافیا یا بدعنوانی کے شکار نہ ہو۔

پاکستان کے موجودہ لینڈ منیجمنٹ نظام میں شفافیت،اصلاحات، عوامی سہولت اور اخراجات کی کمی کے لیے عالمی معیار کی مثالیں اپنانا ضروری ہے۔ ذیل میں کچھ ممالک کی آؤٹ سورسنگ کی مثالیں اور ٹیکنالوجی کے کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے:
ایسٹونیا نے اپنی ڈیجیٹل سرکاری خدمات میں بہت زیادہ آؤٹ سورسنگ کی ہے۔ انہوں نے سرکاری لینڈ رجسٹری کو ایک ڈیجیٹل نظام میں منتقل کر دیا ہے جس میں نجی شعبے کے ماہرین کی خدمات بھی شامل ہیں۔ اس سے نہ صرف ریکارڈز کی درستگی میں اضافہ ہوا بلکہ عوامی سہولت اور حکومتی اخراجات میں بھی نمایاں کمی آئی۔
برطانیہ میں HM Land Registry نے جدید ڈیجیٹل سسٹمز اور نجی اداروں کے تعاون سے زمین کے ریکارڈز کی دیکھ بھال اور اپڈیٹ کرنے کے عمل کو بہتر بنایا ہے۔ اس آؤٹ سورسنگ ماڈل نے سرکاری بوجھ کو کم کیا اور عوام کو آن لائن آسان رسائی فراہم کی۔
آسٹریلیا میں بھی کچھ ریاستی حکومتیں لینڈ رجسٹری کی ڈیجیٹلائزیشن کے لیے نجی اداروں کے ساتھ شراکت کرتی ہیں۔ اس عمل نے نہ صرف انتظامی عمل کو جدید بنایا بلکہ بجٹ میں بچت اور خدمات کی تیز تر فراہمی ممکن ہوئی۔
ڈیٹا ویریفیکیشن اور فراڈ ڈٹیکشن کے لیئے مشین لرننگ کے استعمال سے زمین کے ریکارڈز میں موجود ڈیٹا کو حقیقی وقت میں ویریفائی کیا جا سکتا ہے۔ ان الگورتھمز کی مدد سے مشتبہ لین دین اور ممکنہ فراڈ کا پتہ چلانا آسان ہوتا ہے، جس سے بدعنوانی کم ہوتی ہے۔
ٹیکنالوجی کے ذریعے لینڈ ویلیو میں تبدیلیوں اور مارکیٹ کے رحجانات کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے۔ یہ ڈیٹا حکومت اور نجی شعبے دونوں کے لیے اہم فیصلہ سازی کا ذریعہ بن سکتا ہے، جس سے مستقبل میں زمین کی قیمتوں اور استعمال کے متعلق بہتر منصوبہ بندی ممکن ہو گی۔
لینڈ منیجمنٹ کے مختلف مراحل جیسے کہ منتقلی، رجسٹریشن اور اپڈیٹ کے عمل کو ٹیکنالوجی کی مدد سے خودکار بنایا جا سکتا ہے۔ جس سے نہ صرف انسانی غلطیوں میں کمی آئے گی بلکہ عوام کو بھی تیز اور شفاف خدمات فراہم کی جائیں گی۔
سٹیٹیلائٹ امیجز اور ڈرون فوٹیج کے ساتھ ضم کر کے زمین کے استعمال، تعمیرات اور ترقیاتی منصوبوں کی مانیٹرنگ بھی بہتر طریقے سے کی جا سکتی ہے۔ یہ عمل رئیل ٹائم ڈیٹا فراہم کرتا ہے جس سے زمین کی حالت اور اس کے استعمال کے بارے میں جامع معلومات حاصل ہوتی ہیں۔
ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کے انضمام سے آنے والے سالوں میں لینڈ منیجمنٹ کا نظام مکمل طور پر شفاف اور خودکار ہو سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف سرکاری اخراجات میں نمایاں کمی آئے گی بلکہ عوامی سہولت میں بھی اضافہ ہو گا۔

ریئل ٹائم مانیٹرنگ اور ڈیٹا اینالیسس:
مستقبل میں ٹیکنالوجی کی بدولت رئیل ٹائم مانیٹرنگ ممکن ہو جائے گی جس سے زمین کی حالت، استعمال اور تبدیلیوں کا فوری پتہ چلایا جا سکے گا۔ اس سے نہ صرف انتظامیہ بہتر فیصلے کر سکے گی بلکہ ممکنہ تنازعات اور فراڈ کو بھی کم کیا جا سکے گا۔
ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے بین الحکومتی سطح پر معیاری نظام متعارف کرائے جانے کی توقع ہے جس میں نجی شعبے کا کردار مزید مضبوط ہو گا۔ اس سے مختلف ممالک میں لینڈ منیجمنٹ کے عمل کو ایک عالمی معیار پر پہنچایا جا سکے گا۔
دنیا بھر کے مختلف ممالک میں آؤٹ سورسنگ اور ٹیکنالوجی کے استعمال سے لینڈ منیجمنٹ کے نظام کو جدید، شفاف اور عوام دوست بنایا جا رہا ہے۔ پاکستان کے لیے بھی یہی راستہ اختیار کرنا فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ نجی شعبے کے تجربات اور ٹیکنالوجی کے جدید استعمال کے ذریعے نہ صرف ریکارڈز کی درستگی اور فراڈ کی روک تھام ممکن ہوگی بلکہ عوامی سہولت میں بھی اضافہ اور حکومتی اخراجات میں کمی آئے گی، جس سے ملک کی مجموعی ترقی میں مدد ملے
پاکستان میں پٹواری نظام سے عوام کی بڑی تعداد شکایت کرتی ہے کیونکہ یہ نظام کرپشن، تاخیری حربوں، اور غیر شفافیت کا شکار ہے۔ عوامی مسائل کا بنیادی مسئلہ ہے۔
زمینوں کے انتقال، فرد کے حصول، اور ریکارڈ کی درستگی کے لیے رشوت طلب کی جاتی ہے جس سے بد عنوانی کا کلچر فروغ پاتا ہے۔
جعلی ریکارڈ کے ذریعے زمینوں پر قبضہ سے پٹواری بعض اوقات زمین کے جعلی کاغذات بنا کر ناجائز قابضین کی مدد کرتے ہیں۔
سست روی اور پیچیدہ طریقہ کار سے معمولی زمینی معاملات حل کروانے میں مہینوں یا سال لگ سکتے ہیں۔
سیاسی دباؤ اور اختیارات کے ناجائز استعمال سے طاقتور افراد پٹواریوں کے ذریعے اپنے مخالفین کو زمینوں کے معاملات میں نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

پاکستان میں پٹواری سسٹم میں اصلاحات کے لیے کئی اقدامات کیے جا سکتے ہیں:
ڈیجیٹل لینڈ ریکارڈ کے ذریعے تمام زمینی ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کرنا تاکہ رشوت اور جعلسازی ختم ہو۔ پنجاب، سندھ، اور خیبرپختونخوا میں جزوی طور پر یہ عمل شروع ہو چکا ہے۔
فرد، انتقال، اور دیگر زمین سے متعلق دستاویزات کو آن لائن دستیاب کرنا تاکہ لوگوں کو پٹواری کے پاس نہ جانا پڑے۔
شفافیت اور مانیٹرنگ کے لیئے پٹواریوں کی کارکردگی کو ایک مرکزی ڈیجیٹل نظام سے مانیٹر کیا جائے۔
پٹواری کا کردار محدود کرنے اور زمین کے معاملات کے لیئے ریونیو ڈیپارٹمنٹ میں الگ شاخیں بنائی جائیں تاکہ ایک شخص (پٹواری) کے پاس زیادہ اختیارات نہ ہوں۔
عوامی آگاہی کے ذریعے لوگوں کو بتایا جائے کہ وہ بغیر رشوت کے بھی اپنے مسائل حل کروا سکتے ہیں، اور اگر کسی سے رشوت مانگی جائے تو وہ کہاں شکایت کر سکتے ہیں۔

پٹواری کا روایتی کردار ختم کرکے ایک جدید اور شفاف نظام متعارف کروایا جا سکتا ہے۔ کئی ممالک نے اپنے زمینی نظام کو ڈیجیٹل اور خودکار بنا لیا ہے، جیسے کہ:
سنگاپور جہاں زمین کا پورا ریکارڈ آن لائن موجود ہے۔
برطانیہ جہاں زمین کی ملکیت کا ایک واضح اور آسان ریکارڈ سسٹم موجود ہے۔
پاکستان میں بھی "لینڈ ریونیو مینجمنٹ سسٹم" جیسے منصوبے متعارف کروائے جا رہے ہیں، لیکن ان پر مکمل عمل درآمد ضروری ہے تاکہ کرپشن اور مسائل ختم ہوں۔