ہوم << فلسطینیوں کی نسل کشی اور وہن زدہ امت کی خاموشی! - بلال شوکت آزاد

فلسطینیوں کی نسل کشی اور وہن زدہ امت کی خاموشی! - بلال شوکت آزاد

ایک صدی پرانا قرض ابھی باقی ہے… اور ایک خواب ہے جو آنکھوں سے چھین کر، قبروں کے ساتھ دفنایا جا رہا ہے…

ہاں! میں بات کر رہا ہوں اُن بچوں کی جنہوں نے اس دنیا میں آنکھ کھولی، مگر دنیا نے ان کی آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند کر دیں۔ اُن عورتوں کی جنہوں نے اپنے شیر خوار بچوں کو سینے سے لگایا، مگر ان کے کلیجے چھلنی کر دیے گئے۔ اُن بوڑھوں کی جن کے جھریوں زدہ ہاتھوں میں کبھی تسبیح ہوا کرتی تھی، اب وہ ہاتھ اپنے جگر گوشوں کی لاشیں اٹھاتے دکھائی دیتے ہیں۔

او سنو! یہ کوئی داستانِ مغل یا غزنوی کی فتح و شکست کی کہانی نہیں، یہ ۲۰۲۳ء کی جدید دنیا کا سب سے سنگین، سب سے سیاہ، اور سب سے بےحس سانحہ ہے۔ ایک ایسا سانحہ جو نہ صرف اقوامِ متحدہ کے ضمیر کو کھا گیا بلکہ اُمتِ مسلمہ کے جسم میں وہن (بزدلی) کے ناسور کو آشکار کر گیا۔

اکتوبر 2023 سے لے کر اب تک غ زہ کی گلیوں میں نہ ہنسی باقی ہے، نہ خوشبو، نہ زندگی۔ صرف بارود کی بدبو ہے، صرف لاشوں کی نمی ہے، صرف سسکیوں کی گونج ہے۔

50,523 جانیں — ہاں، یہ وہ گنتی ہے جو شاید تمہیں ایک اسٹیٹس کی طرح لگے، مگر میں تمہیں بتاتا ہوں کہ یہ ہر ایک نام کے ساتھ جڑی ایک دنیا تھی۔ ایک ماں کا لال، ایک بچے کا باپ، ایک بہن کی ڈھال۔ اور زخمی؟ 114,638 — جسموں سے زیادہ یہاں روحیں زخمی ہوئیں، دل چھلنی ہوئے، امیدیں لٹ گئیں۔

92 فیصد عمارات نیست و نابود — ہسپتال کے بستر 1800، اور مریض لاکھوں۔ اور یہ صرف طبی اعداد و شمار نہیں، یہ اس بے بسی کی دستاویز ہے جہاں زندگی کو صرف سانس لینے کے لیے بھی رشوت دینی پڑتی ہے۔

یہ غ زہ ہے، میری جان! یہاں موت روزِ قیامت کی طرح نہیں آتی، روز آتی ہے — کبھی بم کی شکل میں، کبھی بھوک کی، اور کبھی خاموشی کی۔

جب دنیا اوپر سے تماشا دیکھ رہی تھی، نیچے زمین پر 39,000 بچے یتیم ہو چکے۔ 17,000 وہ جن کے ماں باپ دونوں شہید ہو چکے۔ 17,954 بچوں کو شہید کر دیا گیا۔ اور ہاں، یہ وہ بچے ہیں جنہوں نے ابھی "ماما" کہنا بھی نہیں سیکھا تھا۔

274 بچے پیدا ہوتے ہی زندگی سے نکال دیے گئے۔ 876 تو سال بھر کے بھی نہ ہوئے تھے۔ 52 بچے بھوک سے مرے اور 60,000 مزید موت کی دہلیز پر کھڑے ہیں — صرف اس لیے کہ ان کے حصے کا ایک گھونٹ دودھ، ایک چمچ دلیہ، ایک بوند پانی بھی چھین لیا گیا۔

یہ نسل کشی ہے… اور ہم ہیں کہ ایک انچ زمین کی بات پر ریاستیں بنا لیتے ہیں، لیکن بچوں کی قبروں پر خاموش کھڑے ہیں۔

ارے میرے بھائی! بات صرف اسرائیل کے ظلم کی نہیں، بات اُس امت کی بے حسی کی بھی ہے جو ہر جمعہ کو خطبہ سنتی ہے، اور پھر شاپنگ مال چلی جاتی ہے۔ وہ امت جس کے لیڈر غیرت کے جنازے پر بھی تصویریں بنواتے ہیں۔

کیا تمہیں پتہ ہے کہ وہ نبی، جس کے امتی ہونے پر تم فخر کرتے ہو، اُس کے ایک ادنی سے مجاہد نے لشکرِ مختصر کے ساتھ صرف ایک عورت کی آواز پر میلوں کا سفر طے کیا تھا۔ اور تم؟ تم اپنی بیٹی کے ساتھ یہی کہانی سن کر بس آنکھ پونچھتے ہو، اور پھر واٹس ایپ پر فاروَڈ کر دیتے ہو۔

یہ وہن ہے — بزدلی، کم ہمتی، اور خود غرضی کا ناسور! اور یہ امت اُس نبی کی امت ہے جس نے کہا تھا: ’’مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں‘‘۔ اور تمہیں خبر بھی نہیں کہ جسم کا آدھا حصہ کاٹ دیا گیا ہے۔

آج کا فرعون نیلے رنگ کی وردی نہیں پہنتا، آج کا فرعون ٹائی لگا کر اقوامِ متحدہ کی کانفرنسز میں امن کے لیکچر دیتا ہے۔ وہ بچوں کو بموں سے مارتا ہے، اور تمہارے لیڈرز اس کے ساتھ اسمارٹ فون پر سیلفی لیتے ہیں۔

دنیا کہتی ہے کہ "ہم نیو ورلڈ آرڈر کی طرف جا رہے ہیں"، مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم اسفل السافلین کی طرف جا رہے ہیں — ایک ایسی پستی جہاں لاشوں پر سیاست، خون پر معیشت، اور یتیموں پر سفارتکاری کی جاتی ہے۔

کہاں ہے تمہاری وہ اسلامی فوج؟ کہاں ہے تمہارا OIC؟ کہاں ہے وہ 57 ریاستوں کا غیرت نامہ؟ سب کے سب اپنی تیل شیل کی قیمت پر خاموش ہیں، اور فلس طینیوں کا خون نیلام ہو رہا ہے۔

میری اس تحریر کا اختتام سوالات پر نہیں ہو سکتا۔ لیکن کچھ سوالات تمہارے ضمیر کے کانوں میں ضرور گونجیں گے:

کیا ہم اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ بچوں کی لاشیں بھی ہمیں نہیں جھنجھوڑتیں؟

کیا ہماری مساجد صرف جمعے کے خطبوں تک محدود ہو گئی ہیں؟

کیا ہماری دعائیں بس سوشل میڈیا کے ہیش ٹیگز ہیں؟

اور سب سے بڑھ کر… کیا ہم واقعی زندہ قوم ہیں؟

یہ بلاگ لکھتے ہوئے میرے دل پر چھریاں چل رہی ہیں، لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ اگر ہم نے ابھی بھی آنکھیں نہ کھولیں تو شاید کل ہمیں کسی فل سطینی کا بچہ نہیں، ہمارا اپنا بچہ ملبے کے نیچے ملے۔

تو اٹھو… آنکھ کھولو… آواز بلند کرو… ورنہ تاریخ ہمیں وہی لکھے گی جو آج غ زہ کے بارے میں لکھ رہی ہے: ”اور جب ظلم آیا، تو سب خاموش تھے۔“

Comments

Avatar photo

بلال شوکت آزاد

بلال شوکت آزاد تجزیاتی و فکری طور پر بیدار اور بے باک، مصنف، کالم نگار اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ ہیں۔ ان کی تحاریر معاشرتی، سیاسی اور عالمی امور پر گہری تحقیق، منطقی استدلال اور طنزیہ انداز کے امتزاج سے مزین ہوتی ہیں۔ اپنے قلم کو ہمیشہ سچائی، انصاف اور فکری آزادی کا علمبردار سمجھتے ہیں

Click here to post a comment