میری تو یہ دیکھ کر ہنسی ہی نہیں رک رہی۔
شبلی نعمانی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ کوئی نیا فکری دبستان قائم کررہے ہیں اور اگر ان سب شخصیات میں سے کوئی شخصیت شبلی کے دبستان میں ہے تو صرف سیدّ سلیمان ندوی ہیں۔ اور کوئی نہیں۔
"دبستانِ شبلی" ایسا ہی ہے جیسے احمد رضا خاں بریلوی کے نام سے پورا فرقہ چل رہا ہے حالانکہ فاضل بریلوی کا ارادہ کبھی کوئی نیا فرقہ بنانے کا نہیں تھا۔ ایک نمایاں فرق البتہ یہ ہے کہ اس فرقے کے نظریات واقعی اعلیٰ حضرت والے ہیں جبکہ دبستانِ شبلی کے نظریات شبلی سے تو کیا، آپس میں بھی نہیں ملتے۔ یہ "دبستان" نظریات سے ہی نہیں، کسی بھی قسم کے منہج یا میتھڈولوجی سے بھی محروم ہے۔
اقبال شبلی کا بے حد احترام کرتے تھے لیکن کبھی خود کو دبستانِ شبلی جیسے کسی دبستان سے منسلک نہیں کیا۔ وہ شبلی سمیت اس فہرست میں شامل دیگر تمام بزرگوں کی طرح باقاعدہ عالمِ دین بھی نہیں تھے کہ انھیں علمائے دین کے کسی دبستان کا حصہ قرار دے دیا جائے۔
ہاں البتہ شبلی میں اقبال کی طرح مِلّی غیرت اور قومی افتخار ضرور تھا۔ وہ کھرے راجپوت تھے، ان کی مسلمانیت میں بھی راجپوتی آن بان تھی۔ ان میں وہ احساسِ کمتری اور معذرت خواہانہ رویے نام کو بھی نہیں جو غامدی اور وحید الدین خان کا خاصا ہیں۔ مولانا شبلی نے، بلکہ سیدّ احمد خان نے بھی استشراق کو ردّ کیا اور مستشرقین کے تعصبات، تضادات، کم علمیوں کو ظاہر کیا۔ اصلاحی، غامدی اور وحید الدین خان انیسویں صدی کے مستشرقین کی آراء سے اختلاف وہیں تک کرتے ہیں جہاں تک مسلمان رہنے کے لیے ضروری ہو، اس سے آگے نہیں۔
شبلی نعمانی اتنے پکے حنفی تھے کہ نام کے ساتھ امام ابوحنیفہ نعمان کی نسبت سے نعمان لگا رکھا تھا، یعنی نعمانی ہونا ان کے نزدیک ان کی علمی شناخت کا بنیادی حوالہ تھا۔ اور اب "غیر مقلد" اٹھ کر کہہ رہے ہیں کہ ہم تو دبستانِ شبلی سے ہیں۔ سبحان اللٰہ!
اقبال اور مودودی کی فکر میں کچھ بڑے اختلافات ہیں، اقبال سیاسی وابستگی کے اعتبار سے ہی نہیں بلکہ سوچ کے اعتبار سے بھی سے مسلم لیگی ہیں جبکہ مودودی کو مسلم لیگی طرزِ فکر پر بڑے اعتراض تھے، مولانا مودودی اقبال سے متاثر ضرور ہوئے لیکن دونوں کو ایک دبستان کا حصہ شمار کرنا خاصا مشکل کام ہے، جبکہ غامدی اور وحید الدین خان کی فکر تو اقبال اور مودودی، دونوں کی فکر سے بالکل الٹ ہے، عین ضد ہے۔ تقریباً ہر اعتبار سے۔
اقبال عشق کی برتری کے مبلغ ہیں، غامدی اور وحید الدین عقلِ محض کے حامی ہیں اور عشق کے ناقد۔ اقبال کہتے ہیں زمانے کو دین کے مطابق ڈھالنے کے لیے اجتہاد کرو، یہ کہتے ہیں دین کو زمانے کے مطابق ڈھالنے کے لیے اجتہاد کیا جائے۔ اقبال تصورِ امت اور مزاحمت پر زور دیتے ہیں جبکہ وحید و غامدی کہتے ہیں کہ حکمران کی مخلصانہ اطاعت کرو خواہ وہ ہندوستانی قومی ریاست ہو یا مغربی سامراج یا خلیجی بادشاہت یا پاکستانی کلیپٹوکریسی۔ اقبال مولا علی کے طرزِ سیاست کو پسند کرتے ہیں، کربلا کو حق اور باطل کا معرکہ جانتے ہیں، یہ دو حضرات صفین اور کربلا کو محض سیاسی لڑائی قرار دیتے ہیں اور سیاستِ بنی امیہ کو اعلانیہ طور پر سیاستِ علی پر فوقیت دیتے اور امیرِ شام کو محسنِ امت بتاتے ہیں۔
یہ سب اختلافات دین، زندگی اور اخلاق کے حوالے سے بہت بنیادی اختلافات سے پیدا ہورہے ہیں، کوئی ضمنی، ثانوی یا فروعی اختلافات نہیں ہیں کہ انھیں "دبستان کا اندرونی فکری تنوع" قرار دیا جاسکے۔
مودودی کا یہ معاملہ ہے کہ غامدی صاحب زیتون دھرتی کی مزاحمت کے اس لیے خلاف ہیں کیونکہ وہ مزاحمت مودودی کے پولیٹکل اسلام سے نسبت رکھتی ہے (یہ سب سے بڑا اور بنیادی سبب ہے)۔ اگر یہ مزاحمت سیکولر، سوشلسٹ یا قوم پرست نوعیت کی ہوتی، اگرچہ اس کا طریقہ کار بالکل یہی ہوتا تو غامدی کا مؤقف بھی بہت مختلف ہوتا۔ وحید الدین خان کی ساری فکر کا تو محور ہی یہ ہے کہ مودودی سے 'تعبیر کی غلطی' ہوئی ہے۔ عجیب دبستان ہے!
پہلی جنگِ عظیم اور تحریکِ خلافت کے زمانے کے مولانا آزاد کی تحریروں میں تو فکرِ اقبال اور فکرِ مودودی سے اشتراک صاف نظر آتا ہے لیکن بعد میں نہرو جی کے دوست، گاندھی جی کے بھگت، کانگرس کے صدر اور بھارت کے پہلے وزیر تعلیم کی فکر کی نسبت شبلی، اقبال اور مودودی ۔۔۔ تینوں سے اپنی اپنی جگہہ آگ اور پانی، دن اور رات، مشرق اور مغرب کی ہے۔ یہ تینوں بزرگ مسلم قومیت کے قائل بلکہ پرزور حامی تھے۔ مولانا آزاد مسلمانوں کو ہندوؤں سے الگ قوم ہی نہیں سمجھتے تھے۔ اتنے بنیادی بلکہ وجودی اختلاف کے بعد کون سا دبستان رہ جاتا ہے؟
مولانا فراہی کا نظمِ قرآن کا میتھڈ کسی حد تک اصلاحی اور غامدی نے استعمال کیا ہے، لیکن اس میتھڈ کو استعمال کرکے جو نتائج اخذ کیے ہیں، وہ مولانا فراہی کے خیالات سے بہت مختلف ہیں کیونکہ اصلاحی و غامدی نے فراہی میتھڈ پر اچھا خاصا استشراق چھڑکا ہے۔
بہت سوچنے کے بعد مجھے ان سب بزرگوں میں واحد قدرِ مشترک یہ نظر آئی کہ یہ سب بزرگ دیوبندی اور بریلوی کی اس تقسیم میں کسی ایک طرف نہیں ڈالے جاسکتے کہ جس تقسیم کا شکار روایتی علماء ہوچکے ہیں۔ دبستان اپنے کسی مشترک اصولوں، منہاج یا میتھڈولوجی کی بنیاد پر قائم ہوتے ہیں، کسی اور گروہ یا گروہوں کا حصہ نہ ہونے کی بنا پر نہیں۔ اس بنا پر تو برصغیر سے باہر سب سنّی اور خود برصغیر کے اندر بے شمار لوگوں کو "دبستان شبلی" شمار کرنا پڑے گا جو بریلوی دیوبندی بکھیڑے سے دور رہے ہیں۔ سب سے بڑی ستم ظریفی یہ کہ جن بزرگوں نے اسلام اور تسنن کے بعد کسی تیسرے ٹائٹل یا گروپنگ سے گریز کیا، انھیں زبردستی ایک جعلی دبستان کا حصہ بنایا جارہا ہے، حالانکہ ان شخصیات میں سے تقریباً ہر شخصیت اپنے طور پر ایک دبستان ہے۔
سب سے مزاحیہ بات یہ کہ جس کے نام پر نام نہاد "دبستان" ہے اسے نکڑے لایا ہوا ہے اور اپنے بابے کو درمیان میں بٹھایا ہے ۔۔۔ !
مسئلہ یہ ہے کہ اصلاحی صاحب کے سوا غامدی صاحب کا کوئی استاد، کوئی فکری پیش رو، کوئی علمی شجرہ نہیں۔ وہ کسی روایت کی نمائندگی ہی نہیں کرتے۔ اس لیے 'دبستانِ شبلی' اور 'مکتبِ فراہی' جیسے نام گھڑ کر علمی نام و نسب پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
تبصرہ لکھیے