دنیا کے نقشے پر ایک چھوٹا سا خطہ — غزہ — اس وقت انسانیت کا سب سے بڑا امتحان بن چکا ہے۔ نہتے بچوں کی لاشیں، ماں باپ کی آہیں، شہیدوں کے جنازوں پر بچھے سجدے، اور ملبے تلے دبے خواب... ہر منظر پکار پکار کر کہہ رہا ہے:
"کیا کوئی ہے جو ہماری مدد کرے؟" کاش ہم سن پاتے۔
غزہ اس وقت آگ و خون میں ڈوبا ہوا ہے۔ مگر اس سے بڑھ کر المیہ یہ ہے کہ پوری امت مسلمہ اس ظلم و ستم کے منظر کو خاموشی سے دیکھ رہی ہے۔ کہیں رسمی بیانات، کہیں مذمتی قراردادیں، اور کہیں سرد تاثرات۔ گویا بیت المقدس کا لہو ارزاں ہو چکا ہو اور غیرتِ مسلم کا چراغ بجھ چکا ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ امتِ مسلمہ صرف دعاؤں یا جذباتی تقاریر سے اپنے فرض سے سبکدوش نہیں ہو سکتی۔ آج غزہ جل رہا ہے، کل دمشق، کابل، بغداد اور شاید... ہمارے اپنے شہر بھی۔
یہ وقت ہے کہ ہم خوابِ غفلت سے جاگیں۔ ہمیں اپنی اجتماعی اور انفرادی ذمہ داریوں کا ادراک کرنا ہوگا۔ چند اہم نکات درج ذیل ہیں:
1. دعائیں اور استغفار:
ہمیں اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ کر مظلومینِ فلسطین کے لیے اخلاص سے دعائیں کرنی ہوں گی۔
2. سیاسی و سفارتی اقدام:
مسلم حکمرانوں پر عوامی دباؤ ڈالنا ہوگا تاکہ وہ بین الاقوامی سطح پر فلسطین کا مقدمہ سنجیدگی سے لڑیں۔
3. مالی امداد:
رفاہی اداروں کے ذریعے خوراک، دوائیں اور دیگر ضروری اشیاء فوری طور پر غزہ تک پہنچانا ہماری فرضی ذمہ داری ہے۔
4. سوشل میڈیا کی جنگ:
ہر فرد سوشل میڈیا پر غزہ کے حق میں آواز بلند کرے، حقائق شیئر کرے، اور اسرائیلی مظالم کو دنیا کے سامنے بےنقاب کرے۔
5. بائیکاٹ کی مہم:
ان تمام کمپنیوں اور مصنوعات کا بائیکاٹ ضروری ہے جو اسرائیلی حکومت یا اس کے حمایتیوں کو فائدہ پہنچاتی ہیں۔
6. نئی نسل کی تربیت:
فلسطین کی تاریخ، مسجد اقصیٰ کی اہمیت، اور امت کے اتحاد کا شعور ہمارے بچوں کو دینا ہوگا تاکہ کل وہ اس مشن کو زندہ رکھ سکیں۔
آج اگر ایک فلسطینی بچہ پتھر اٹھا کر ظلم کے سامنے کھڑا ہے، تو یہ ہمارے لیے سوال ہے۔ ہم اس کے ساتھ کیا کھڑے ہیں؟
اگر نہیں، تو یاد رکھیں...
تاریخ خاموش نہیں رہتی۔
اور اللہ کا عدل بھی!
تبصرہ لکھیے