گزشتہ کچھ ایام سے ہم اہل ِسیاست کے بیچ انکی تندوتیز دلیلوں میں جکڑ کے رہ گئے اور ہماری کچھ تحریریں اور آراء بھی انہی کی نظر ہو گئی ۔ با خدا ہم نہ تو اہل ِسیاست سے اُسطرح کا شغف رکھتے ہیں اور نہ ہی وہ اور اُنکے پینترے ہمارے میزاج اور طبع ناساز پہ کبھی منکشف ہو سکے ۔
خیر اہل ِسیاست تو چھوڑئیے اِن ایام میں با وجہ تحریر و آراء بہت سے نئے نئے جمہوروں ،جیالوں ، متوالوں اورایسے ایسے بدحالوں سے واسطہ پڑا (ناقدین کو استثنیٰ ہے ) جنکی بے ہنگم و بے ربط ، عقل و فہم سے عاری ، مضحکہ خیز دلیلیں اگر شامل ِتحریر کر دیں تو اہلِ تصوف و معرفت کیا مجاذیب کی بھی ہنسی چھوٹ جائے ۔ بحر حال اِس سے تہی دامن ہوتے ہوئے ہم اصل کی طرف آتے ہیں اور ہم تحدیثِ نعمت کے طور پر تذکرہ کرنا چاہیں گے اُن شفیق و مہربان ہستیوں کا ، اُن فیوض و علوم کے سرچشموں کا ، اُن مہرو محبت ، ادب و تعظیم ، خودی وخودشناسی سکھاتے مُسافر انِ راہِ بہشت کا ، اُن بے مثل ولازوال معمارانِ امت کا ، اُن وارثانِ انبیاء علیہ السلام کا ، اُن آسمانِ علم و حکمت پہ چمکنے والے ہمسرانِ ثریا کا ، اُن صاحبانِ تصوف و معرفت کا ، اُن سفیر انِ مہرو ماہ و محبت کا ،
اُن اسیرانِ عشق ِمصطفیﷺ کا، اُن اپنے اپنے علوم و فنون میں یدِ طولیٰ رکھنے والے ناخدائوں کا ، اُن لازوال و با کمال مربیوں کا کہ جنکی ٹاٹ والی کلاس میں بیٹھنے والے کرہ ارض کے ہر شعبہ میں اپنی اپنی صلاحیتوں کا لوہامنوا کر ہزاروں معترف پیدا کر چکے اور تمام ترراستوں کی تمام تر منازل کو عبور کر کے نورِ نظر ِمنازل بن چکے۔ جی ہاں اس تحریر کے واحد مقصود و محور ہمارے معزز و محتشم اساتذہ اکرام ہیں ۔ اس سے پہلے کہ کسی بھی نام کا تذکرہ کیا کیا جائے ایک دو اِعتراف کرنا ہم نہایت ہی ضروری اور ایمانی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔
پہلا اِعتراف تو یہ کہ اس تحریر کو ہماری طبع آزمائی یا شوخی طبیعت جانیئے کیونکہ کسی بھی نام ،کسی بھی شخصیت کو صرف چند ہی جملوں میں بیان کرنا ہماری دانست میںبدیانتی نہیں بھی تو ناانصافی ضرور ہے۔اور اگر وہ نام ،وہ شخصیت پیشہ انبیاؑء کے حامل ،وارثانِ انبیاؑء،علم وحکمت کے مینار آپ کے معزز و محتشم اساتذہ اکرام ہوںتو اس جسارت کو کیا کہاجائے ہمارے پاس الفاظ نہیں۔
دوسرا اعتراف یہ کہ اس تحریرکے واقعات، حالات،مشاہدات ہماری نظر کے ہیں۔ہر ممکن لحاظ سے یہ کوشش کی گئی ہے تحریر کا حُسن برقرار رہے ۔واقعاتی لحاظ سے کوئی سقم پایا جائے تو اِسے صریحاً ہماری کم علمی سمجھا جائے اِسکا کردار سے کوئی تعلق نہیں۔ کیونکہ ہمارے جیسے کم علم اور نالائق طالبعلم کا اساتذہ اکرام پہ قلم درازی کرنا ہی ایک بہت بڑی جسارت ہے اور پھر مشفق و مہربان ہستیوں کا تذکرہ اور احاطہ تحریر نہ تو ہماری بساط ہے اور نہ ہی قلم میںاتنی ہمت و سکت۔ اس تحریر کی شکست وریخت ، ناپختگی اور لائقِ تو صیف و مرتبہ سے عاجز ہونے پر پیشگی دست بستہ معافی اور کبھی اساتذہ اکرام کی نظر سے گزرے توہماری نا لائقی ، کم علمی تصور کرتے ہوئے ہمیشہ کی طرح اصلاح ،شفقت و مہربانی کی درخواست ۔ اور اگر کوئی حرف ، کوئی لفظ ، کوئی جملہ منظور ِنظر ہو جائے تو اس میں ہمارا کوئی کمال نہیں سب آپ ہی کا عطا کردہ ہے ۔
ہمارا تعلق پھلکوٹ ایک (دیہاتی) علاقہ سے ہے اور دیہات میں آج سے تقریباً 16سال پہلے سبھی بچوں کی رسمِ "بسم اللہ "کہیں یا ابتدا کہیں، وہ مسجد اسکول سے ہی ہوا کرتی تھی ۔ حسب ِضابطہ ہمیں بھی مسجد اسکول داخل کر ا دیا گیا ۔ جہاں ہمیں پہلے استاد محترم جنہوں نے ہماری ا ۔ ب ۔ پ سے شناسائی کروائی ، وہ مکرم و محتشم ہستی علامہ احسان الرحمان علیہ رحمہ کی صورت میں نصیب ہوئی ۔ علامہ احسان الرحمان علیہ رحمہ نہایت مشفق و مہربان اورپابندِ صوم و صلوۃ تھے ۔وہ ایک نہایت متقی اور پرہیز گار عالم ِدین ہونے کے ناطے جامع مسجد کے امام و خطیب کے فرائض کی انجام دہی بھی کرتے تھے ۔ انکی شخصیت لاتعداد خوبیوں کی حامل تھی جن میں نمایاں اور اُنکی شخصیت کا خاصہ اُنکی بزرگی اور عشق ِرسول ﷺتھا جسکے معترف انکے ناقدین اپنے پرائے سبھی تھے ۔
علامہ احسان الرحمان علیہ رحمہ کو اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے ایک عرصہ بیت چکا لیکن ان کے شاگردوں اور محبین کے دلوںمیں وہ آج بھی اسی طرح زندہ و جاوید ہیں ۔ علامہ احسان الرحمان صاحب کے بعد پرائمری اسکول میں ہماری خوش بختی کہ ہمیں محترمہ ماہ جبین صاحبہ جیسی لائق ، محنتی اور قابل مربی میسر آئیں ۔ مضمون کے لحاظ سے وہ Mathimatic پڑھاتی تھیں ۔ لیکن پورا اسکول ہی انکے مشفق و مہربان ہونے پر انکا گرویدہ تھا ۔ انکے پیارو مہربانی کا ایک خوشگوار واقعہ عرضِ خدمت ہے جو ہمارے قلب و روح پر اسطرح نقش ہے کہ آج دم تحریر کی بات ہو۔ ہوایوں کہ وہ ایک دفعہ اسکول کو اچانک خیرباد کہہ گئیں اور ہماری طرح باقی تمام طلبا و طالبات اس بات سے بے خبر تھے ۔
کچھ دن انکے اسکول نہ آنے پر جب ہمیں مہربان و مثل مادر مربی کی کمی نے بے چین کیا تو خدا کو ہماری معصومیت پر ترس آ گیا اور ہماری ملاقات ایک مشترکہ عزیز کی شادی میں کروا دی ۔ ایک تیسری کلاس کے بچے کاکیا منانا تھا اور تب کیا مناتے ہم، ہمارا رونا دھونا ہی منانا ٹھہرا اور اگلی ہی صبح 14اگست کے پروگرام میں انکی عنایت و مہربانی اور بڑے پن نے ہمیں عمر بھر کیلئے اپنا غلام کر لیا ۔ وہ واپس بھی آئیں اور آتے ہی سب طلبا میں سے صرف ہماری اسکول شرٹ پر پاکستانی جھنڈے کا ایک پھول نما بیج اپنے ہاتھوں سے ثبت کیا جو آج تک ہمارے پاس محفوظ ہے ۔ اور یہ بات کہنے میں ہمیں فخر ہے کہ ہماری پاکستان اور پاکستانی جھنڈے سے پہلی اُنسیت و محبت بھی اُن ہی کی عطا کردہ ہے ۔
پرائمری اسکول میں ہی ہمیںمحترم محمد ساجد صاحب اورمحترم اکمل حسین صاحب جیسے بہترین ، ذہین اور اپنے طلباکے ساتھ مخلصیت میں بے مثال و لاجواب اساتذہ اکرام بھی میسر آئے ۔ محمد ساجد صاحب ہماری کلاس کو باقاعدہ تو کوئی مضمون نہیں پڑھاتے تھے لیکن اُنکی اپنے کام سے لگن ، معتدل مزاجی ، دھیمے اور پر شگفتہ لہجے سے تو سب ہی متاثر تھے ۔ حالات و واقعات کا بہتر بروقت اور مثبت تجزیہ اور اسکے مثبت نتائج حاصل کرنا اُنکی شخصیت کی شباہت ہے ۔جہاں تک محترم اکمل حسین صاحب کا تعلق ہے تو وہ اپنی شخصیت کی آپ ہی مثال ہیں۔ نہایت معتدل و مدبّرانہ رویہ اور کبھی کبھی بے پناہ ہنس مکھ مزاج ، نہایت لائق، قابل اور محنتی اپنے کام سے کام رکھنے والی شخصیت کے حامل ہیں ۔ اسی دور میں انکی قابلیت اپنے کام سے مخلصیت اور لگن کے سبب انکا تبادلہ پرائمری سے ہائی اسکول میں کر دیا گیا تھا ۔
اِک یادِخوشگوار کے طور پر عرضِ خدمت ہے اکمل حسین صاحب کے ہاتھ سے ماری گئی اک چھڑی کا نشان آج بھی ہمارے داہنے ہاتھ پر موجود ہے جو ہمیں اپنا کام مکمل کرنے کے بعد اپنی اسانمنٹ دیگر ہم جماعت دوستوں کو دینے پر جھیلنا پڑی ۔ ہمارے اساتذہ اکرام میںمحترم چوہدری خادم حسین صاحب ایک ایسا نام ہے جو ہمارے حواس ،ہماری شخصیت ، ہمارے طرز ِتحریر اور ہمارے طرزِ تکلم پر حاوی ہے ۔ محترم خادم حسین صاحب دبلے پتلے جسم کے ساتھ ایک مکمل ،جامع اور دلکش و پرکشش شخصیت کے مالک ہیں ۔ نہایت خوش مزاج و خوش لباس ،اپنے طلباکے ساتھ دوستانہ رویہ انکا خاصہ ہے ۔
اپنے کام کے اعتبار سے ان میں پائی جانے والی خوبیاں اور نت نئے انداز میں وہ یدِ طولیٰ رکھتے ہیں ۔کسی طالب علم کو اس کی کسی خامی پر سمجھانا مقصود ہوتا تو الگ بلا کر اس طرح راز دانہ انداز سے تربیت کرتے تھے یاد نہیں پڑتا دوبارہ وہ خامی اس طالب علم کے پاس سے بھی گزری ہو ۔ مثلِ پدر اپنے طلباکیساتھ انکی بے مثال شفقت و مہربانی کا اندازہ صرف اسی بات سے کر لیں کہ بشمول ہمارے ہر کسی کو اپنے ایمان کی حد تک یقین تھا کہ سر خادم حسین صاحب سب سے زیادہ پیار اسی سے کرتے ہیں ۔
محترم خادم حسین صاحب کے ساتھ ساتھ ہمیں محترم راجہ غلام عربی صاحب ، محترم وقار حسین بلوچ صاحب ، محترم دلشاد علی صاحب ،محترم زاہد نواز صاحب ، محترم محمد عاصم صاحب ، محترم سجاد اکبر صاحب ، محترم نفیس احمد صاحب ، محترم منور حسین صاحب ،محترم علامہ بشیر جان قادری صاحب اورمحترم علامہ نورالزمان نوری صاحب جیسے عظیم المرتبت اور بلند پایہ اساتذہ اکرام کی شفقت و محبت نصیب ہوئی اور انکے زیر سایہ تعلیم و تربیت کا حصول ہمارا مقدر بنا ۔ ان ناموں میں سے ہر ایک نام اپنے آپ میں ایک مکمل ضابطہ حیات اور مکمل یونیورسٹی کی حیثیت رکھتا ہے ۔
وہ محترم دلشاد علی صاحب ہوں دھیمہ، شائستہ اور راز دانہ لہجہ ، اپنے آپ میں گم اک بہر بے کراں ، علم و فن میں اپنی مثال آپ یا نہایت شوخ و پر کشش انداز تکلم والے محترم زاہد نواز صاحب ، جو ہماری فزکس کے Lawsمیں معمولی ردوبدل پر ایسی کی تیسی پھیرنے میں چند ہی لمحے لگاتے اور ہمیں آئن سٹائن و نیوٹن کے خیالی ہمنوائوں میں سے نکال باہر کرتے ۔ محترم وقار حسین بلوچ صاحب کے تذکرہ کے بغیر ہماری اس تحریر پر کا مکمل ہونا تو ممکن ہی نہیں ۔ دوران ِکلاس انتہائی سخت رعب و دبدبہ سے لبر یز لہجہ اور کلاس ختم ہوتے ہی وہ دوستانہ شفقت و مہربانی کہ لفظوں میں بیاں ممکن ہی نہیں ۔ انکی خصوصی شفقت و مہربانی ہمارا کیمسٹری میں Toperہونے کے ساتھ ساتھ "تنویر "نام ہونے کے سبب بھی تھی ۔
جب سے وقار کھو دیا ہم نے
دل کا چین و قرار کھو دیا ہم نے
ہمارے اساتذہ اکرام میں احسان الرحمن صاحب کے بعد علم و فن کے ساتھ ساتھ تصوف و معرفت ، تقویٰ و پرہیز گاری ، صبر و شکر ، قناعت و فکر کی مرقع شخصیات علامہ بشیر جان قادری اور علامہ نورالزمان نوری علیہ رحمہ کی ہیں ۔ ایک تو دونوں احباب براہ راست حضور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مد ظلہ کے منظورِ نظر اور فیض یافتہ شاگردوں میں سے ہیں اور اس پر خوب یہ کہ علم کے ساتھ ساتھ عمل ِصالح کی کثرت سے دونوں شخصیات میں روحانیت بھی درجہ کمال میں ہے ۔
پروفیسر علامہ نورالزمان نوری صاحب متعدد کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بُلند پایہ ،نامور عالم دین بھی ہیں۔ انتہائی مہذب ، سحر انگیز اور علم و آگہی، عشق ِمصطفیﷺ سے لبریز گفتگو انکا امتیازی وصف ہے ۔اور اس پر سادگی توـ بس بنارس کی صبح ہی کہہ لیں ۔ محترم بشیر جان قادری صاحب اپنے کام اور مشن سے لگائو رکھنے والے ہمدرد ، ملنسار ، مہمان نواز اور انتہائی مد بّرودانا شخصیت کے مالک ہیں ۔ اُصول پسندی اور مردم شناسی انکی طینت کا خمیر ہیں . ہمارے اساتذہ اکرام میں ایک بہت ہی پیارا نام محترم رانا محمد سلیم صاحب کا ہے ۔ انگلش کے پروفیسر ہونے کے ساتھ ساتھ لٹریچر سے بے پناہ لگن کے حامل ، کم گو ، باذوق اور نہایت پر خلوص لہجے والی شخصیت کے مالک ہیں ۔
ہمارے انگلش میں ازلی کمزور ہونے کے باوجود سر محمد سلیم صاحب اور سر دلشاد علی صاحب کی ہمارے ساتھ خصوصی شفقت و محبت کار از آج تک ہم پہ آشکار نہ ہو سکا ۔ محمد سلیم صاحب کے ساتھ ساتھ محترم سجاد اکبر صاحب ، محترم نفیس احمد صاحب ، محترم منور حسین صاحب جیسے شفیق و مہربان اساتذہ اکرام سے فیض یاب ہونا بھی ہمارے لئے کسی اعزاز سے کم نہیں ہے ۔ ان صد ہا لائق ِ عزت و تکریم ہستیوں کے علاوہ ہمارے اساتذہ اکرام میں کئی اور معروف نام شامل ہیں لیکن اِسے ہماری محرومی سعادت کہیے کہ ہم اُن ناموں کا تذکرہ نہیں کر پائے ۔ آخر میں زبان و بیاں سے عاری ہم وصی شاہ کے اس شعرپہ اتفاق کرتے ہیںکہ۔
یہ کامیابیاں،یہ عزت یہ نام تم سے ہے
خدا نے جو بھی دیا ہے مقام تم سے ہے
تبصرہ لکھیے