حالیہ غزہ جنگ کے تناظر میں معروف دانشور عمار خان ناصر نے مشرقِ وسطیٰ کے بدلتے ہوئے سیاسی نقشے پر ایک فکرانگیز تجزیہ پیش کیا ہے، جس میں سعودی عرب اور ایران کے مابین بڑھتی ہوئی قربت کو بنیاد بنا کر یہ نکتہ اٹھایا گیا ہے کہ خطے کی مسلم ریاستیں، داخلی سطح پر پالیسی خواہ کیسی بھی رکھتی ہوں، ان کی اصل ترجیح اقتدار کا تحفظ ہی ہوتی ہے۔ ان کے بقول، یہ ریاستیں اپنی سیاسی بقا کو یقینی بنانے کے لیے بعض اوقات باہمی کشمکش کو وقتی طور پر معطل کر کے، بین الاقوامی طاقتوں کے تقاضوں سے خود کو ہم آہنگ کر لیتی ہیں۔ عمار ناصر نے اقتدار کے تحفظ کو ایک قابلِ فہم بلکہ بعض پہلوؤں سے مثبت قدر کے طور پر پیش کیا ہے۔ ان کی بنیادی دلیل یہ ہے کہ جدید دنیا میں مسلم سیاسی طاقت کو جو تھوڑا بہت تحفظ حاصل ہے، وہ انہی 'جابر وظالم' حکمرانوں کی حکمتِ عملی کا نتیجہ ہے — چاہے اس کے لیے داخلی عدل، آزادی اور سیاسی شراکت کی قربانی ہی کیوں نہ دینا پڑے۔
لیکن سوال یہ ہے: کیا اقتدار کی یہ حفاظت واقعی کسی اجتماعی بھلائی کا سامان بنی ہے؟
اقتدار کا تحفظ جب اصولوں اور نظریات کی قربانی پر استوار ہو، تو وہ درحقیقت بقا نہیں بلکہ زوال کی مہلت ہوتی ہے — کیونکہ قومی بقا کا اصول، تحفظِ اقتدار نہیں بلکہ نظریاتی ہم آہنگی ہے۔ اور مسلمان معاشرہ کسی نسلی یا جغرافیائی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنے مذہبی نظریے پرہی ہم آہنگ ہو سکتا ہے
اصل خرابی کی جڑبھی ہی یہی ہے کہ مسلم حکمرانوں کی تمام تر پالیسیاں اجتماعی فلاح اوراسلامی نظریاتی جہتوں کی بجائے ذاتی مفادات اور اقتدار کی طوالت کو مرکزِ نگاہ بنا کر تشکیل دی جاتی ہیں۔ ریاستی فیصلوں میں "امت"، "قوم"، "مستقبل"، اور "اصول" جیسے الفاظ صرف بیانیے کا حسن بڑھانے کے لیے ہوتے ہیں، جبکہ اصل ترجیحات خاندانی بادشاہتوں یا ڈکٹیٹرشپ کے دوام، بین الاقوامی خوشنودی، اور داخلی طاقت پر یک طرفہ گرفت تک محدود ہوتی ہیں۔ یہی طرزِ فکر ہے جو اسرائیل کو علاقائی چودھری تسلیم کرنے پر مجبور کرتی ہے صرف اس لیے کہ وہ بین الاقوامی نظام میں اپنی پوزیشن محفوظ رکھ سکیں۔
سقوط خلافت کے بعد سے اب تک جو تباہی مسلم حکمرانوں نے اپنے خیرخواہوں، مخلص ناصحین، اور فکری جرأت رکھنے والوں کا قتال عام کر کے پھیلائی، وہ تباہی جلد یا بدیر انہی کے دروازے پر آ کھڑی ہوتی ہے اور بھر وہ خود اسکا شکار ہو جاتے ہیں— اور اکثر انہی ہاتھوں سے آتی ہے جن کی خوشنودی کے لیے وہ ہر قیمت پر سمجھوتے کرتے رہے۔ مصری صدر محمد مرسی کے الفاظ میں: "جو قومیں اپنے شیروں کو قتل کر دیتی ہیں، وہ جلد دشمن کے کتوں کا شکار بن جاتی ہیں۔"
کیونکہ تاریخ کا ایک مسلم اصول ہے کہ کوئی معاشرہ حقیقی عروج تک اس وقت تک پہنچ ہی نہیں سکتا جب تک وہ اپنے صاحبِ عزیمت افراد کو داخلی خطرہ سمجھنے کے بجائے، ان کی جرات و بصیرت کو خارجی فتنوں کے مقابلے میں منظم طریقے سے استعمال نہ کرے۔ لہذا ہر عروج یافتہ معاشرہ اس حقیقت کو بخوبی سمجھتا ہے کہ بہادروں کو دشمن نہیں بنایا جاتا، بلکہ ان کی طاقت کو دشمنوں کے خلاف مربوط طریقے سے استعمال کیا جاتا ہے
اسی لیے امریکہ نے اپنے مذہبی سیاسی طبقے کو ہمیشہ اقتدار میں شامل رکھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہاں کا حکمران طبقہ اپنے نظام کی تشکیل میں اجتماعی مفاد کو مرکزِ نگاہ رکھتا ہے، اور ان کے مذہبی بلکہ انتہا پسند طبقات کی شمولیت نظام کی بقا اور سماجی توازن کے لیے معاون ثابت ہوتی ہے۔ وہاں طاقت اور مذہبی سیاست ایک دوسرے کی حریف نہیں بلکہ ایک مربوط حکمتِ عملی کا حصہ ہیں۔ اور آج تو یہ واضح طور پر نظر آتا ہے کہ طاقت کی تمام ڈائنامکس انھی "انتہا پسندوں"کے ہاتھ میں منتقل ہو چکی ہیں۔ ہمارے ہاں لیکن معاملہ بالکل الٹ ہے — یہاں طاقت کے تمام مراکز مذہب کو یا تو بےدھار کر دینے پر تلے ہوتے ہیں، یا اسے محض ایک جذباتی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں، تاکہ وہ کبھی حقیقتاً کوئی نظامی یا فکری چیلنج نہ بن سکے۔
اسی کشمکش میں "مصلحت زدہ مصلحین " کا ایک ایسا طبقہ ہمارے ہاں پیدا ہو گیا ہے وہ جو خود کو مصلح، مفاہمت پسند، اور عقل و دانش کا نمائندہ سمجھتا ہے، لیکن درحقیقت وہ ہمیشہ طاقت ور کے بیانیے کو تقویت دیتا ہےاور طاقت کو مطمئن کرنے کی کوشش میں مذہب کی اصل روح کو بھی گروی رکھ دیتا ہے۔ یہ سب کچھ نرمی، حکمت، اور تدبر کے لبادے میں اس یوٹوپیائی تصورسے ہوتا ہے کہ طاقت کو نرم گفتاری، مصلحت پسندی، یا دلیل سے رام کیا جا سکتا ہے. حالانکہ طاقت صرف طاقت کی زبان سمجھتی ہے۔ اور جب طاقت کو یقین ہو جائے کہ سامنے ایک ایسی بھیڑ ہے جس کے پاس نہ سینگ ہیں، نہ گھاس چبانے کے دانت، تو وہ اسے بغیر کسی تردد کے ذبح کر دیتی ہے۔ اور پھر نہ کوئی بیانیہ بچتا ہے، نہ کوئی مصلحت، نہ کوئی عزت۔
جب تک مسلم قیادت بقا کے اصول کو محض اقتدار کی حفاظت سے تعبیر کرتی رہے گی، وہ حقیقی عروج سے محروم ہی رہے گی — کیونکہ بقا کا اصول تحفظِ اقتدار نہیں، نظریاتی ہم آہنگی ہے.
تبصرہ لکھیے