یہ دو ہزار پانچ چھ کی بات ہے، جب میں نے پہلی بار "ٹرپل ایس پروگرام" (SSS Program) پر قلم اٹھایا تھا۔ وہ وقت اور تھا، لوگ ابھی اس عالمی سازش سے زیادہ واقف نہ تھے۔ میں نے "ضربِ طیبہ" میں لکھا تھا کہ یہ ایک ایسی جنگ ہے جو بندوقوں اور توپوں کے بغیر لڑی جا رہی ہے۔ دشمن نے ہمارے نوجوانوں کو میدانِ جنگ میں ہرانے کے بجائے ان کے اذہان کو ہی اپنی چراگاہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ آج، بیس سال بعد، جب میں اس تحریر کو نئے سرے سے دیکھتا ہوں، تو لرز کر رہ جاتا ہوں کہ جو کچھ اُس وقت ایک خدشہ تھا، وہ آج ہماری تلخ حقیقت بن چکا ہے۔
کھیل، جنس اور لادینیت (Sports, Sex, Secularism)— یہ وہ تین ستون ہیں جن پر اس پوری یلغار کو کھڑا کیا گیا۔ اس کے پیچھے کون تھا، کیوں تھا، کیسے تھا، یہ سب اُس وقت بھی واضح تھا اور آج بھی کوئی راز نہیں۔ لیکن جس انداز میں ہم نے اپنی آنکھیں بند رکھیں، جو بے حسی اور "ہمیں کیا" والی سوچ اپنائی، اس کا نتیجہ آج ہمیں اپنی نسلوں کی تباہی کی صورت میں نظر آ رہا ہے۔
پہلا مرحلہ "کھیل" (Sports) تھا۔ دشمن نے جان لیا تھا کہ نوجوانوں کو مذہب، غیرت اور جہاد سے ہٹا کر اگر کسی چیز میں الجھایا جا سکتا ہے تو وہ تفریح اور کھیل کے میدان ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے کرکٹ، فٹبال، ہاکی اور دیگر کھیلوں کو نئی شکل دی گئی۔ ورلڈ کپ، لیگ، آئی پی ایل، پی ایس ایل، چیمپئنز لیگ، یورپین کپ— نام بدلتے گئے، مقصد ایک ہی رہا: نوجوانوں کے ذہن کو اتنا مشغول کر دینا کہ وہ اپنی اصل ذمہ داری ہی بھول جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ایک فاسٹ باؤلر یا فٹبالر نوجوانوں کے لیے ہیرو بن چکا ہے، جبکہ محمد بن قاسم، طارق بن زیاد اور سلطان صلاح الدین ایوبی جیسے نام ان کے لیے محض تاریخ کے خشک ابواب بن کر رہ گئے ہیں۔ ہم نے اپنے لڑکوں کو جنگجو بنانا تھا، مگر ہم نے انہیں "فین بوائز" بنا دیا، جو جیت کے جشن میں ناچتے ہیں اور ہار پر روتے ہیں۔
دوسرا مرحلہ "جنسیت" (Sex) تھا۔ یہ ہمیشہ سے انسانی فطرت کا وہ پہلو رہا ہے جسے قابو میں رکھنا اصل امتحان ہے۔ جب کھیلوں کی دنیا میں نوجوانوں کو دھکیل دیا گیا، تو ان کی جذباتی توانائی کو ایک اور دلدل میں بہا دیا گیا— فحاشی، عریانی اور آزاد تعلقات۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ ہر بڑے کھیلوں کے ایونٹ کے ساتھ ہی طوائفوں کے دھندے بڑھ جاتے ہیں، ہوٹلوں کی بکنگ میں اضافہ ہو جاتا ہے، اور میڈیا ان "ہاٹ اسٹوریز" کو ایسے پیش کرتا ہے جیسے یہ کوئی عام معمول ہو۔ "گرل فرینڈ" کلچر عام کیا گیا، زنا آسان بنا دیا گیا، اور پھر "میرا جسم میری مرضی" جیسے نعرے ہماری نسلوں کے ذہنوں میں انڈیل دیے گئے۔ نوجوانوں کو یہی سکھایا گیا کہ نکاح قید ہے اور آزاد زندگی ہی اصل خوشی ہے۔
پھر آیا تیسرا اور آخری مرحلہ— سیکولرازم (Secularism) ۔ جب ایک نوجوان کھیلوں میں اپنا دل لگا چکا ہو، جب اس کا دماغ جنسی ہوس کی دلدل میں دھنس چکا ہو، تو پھر اس کے اندر مذہب کے خلاف نفرت پیدا کرنا کوئی مشکل کام نہیں رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمیں اپنے اردگرد ایسے نوجوان بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں جو مذہب کے بارے میں بات کرتے ہوئے تمسخر اڑاتے ہیں، جو "سائنس اور عقل" کے نام پر دین کو دقیانوسی قرار دیتے ہیں، اور جو سمجھتے ہیں کہ اسلام ایک پرانی اور بیکار چیز ہے۔
بیس سال پہلے میں نے خبردار کیا تھا کہ اگر اس سازش کو نہ روکا گیا تو ہماری نسلیں اپنی پہچان کھو دیں گی۔ آج میں دیکھ رہا ہوں کہ وہی خدشات حقیقت بن چکے ہیں۔ کیا آج کا مسلمان نوجوان وہی ہے جو بیس سال پہلے تھا؟ کیا آج کے لڑکے اور لڑکیاں وہی اقدار رکھتے ہیں جو ہمارے اسلاف کے ورثے میں تھیں؟ نہیں، ہرگز نہیں! آج ہماری نئی نسل کو محمد بن قاسم کے بارے میں کچھ معلوم نہیں، لیکن انہیں ہر بالی ووڈ اور ہالی ووڈ اداکار کا بایوڈیٹا ازبر ہے۔ انہیں قرونِ اولیٰ کے مجاہدین کے کارنامے یاد نہیں، لیکن انہیں فٹبالرز اور ماڈلز کے سکنڈلز تک کی خبر ہے۔
یہ سب ایک سازش تھی، اور ہم نے اسے اپنی خوشی سے قبول کر لیا۔ ہماری یونیورسٹیوں میں نکاح ایک مذاق بن چکا ہے، لیکن "ریلیشن شپ" فخر کی بات سمجھی جاتی ہے۔ ہمارے گھروں میں بچوں کو دین سکھانے کے بجائے انہیں نیٹ فلیکس کے "جدید تصورات" پر چلنے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ مغرب نے جو پلان بنایا تھا، وہ مکمل طور پر کامیاب ہو چکا ہے، اور ہم نے خود کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا کچھ بدلا جا سکتا ہے؟ کیا بیس سال کے اس نقصان کی تلافی ممکن ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اگر آج بھی ہم نے آنکھیں نہ کھولیں، اگر آج بھی ہم نے اپنی نسلوں کو واپس ان کے اصل مقام کی طرف نہ لوٹایا، تو آئندہ بیس سال میں ہم مزید تباہ ہو چکے ہوں گے۔
یہ جنگ بندوق سے نہیں جیتی جا سکتی۔ یہ جنگ میڈیا کے ذریعے، تعلیمی اداروں کے ذریعے، اور خاندانی اقدار کو بحال کر کے ہی جیتی جا سکتی ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کو دوبارہ اسلامی تاریخ سکھانی ہوگی، انہیں کھیل اور تفریح کی آڑ میں بہکنے سے روکنا ہوگا، اور سب سے بڑھ کر انہیں دوبارہ ایمان کی روشنی سے منور کرنا ہوگا۔
بیس سال پہلے میں نے لکھا تھا کہ "یہ جنگ ذہنوں کی جنگ ہے، اور جو اس جنگ میں ہار گیا، وہی اصل غلام ہوگا۔" آج یہ غلامی ہمارے گھروں، ہماری گلیوں، اور ہمارے دماغوں میں گھر کر چکی ہے۔ اگر ہم نے ابھی بھی اس سے بچنے کا فیصلہ نہ کیا، تو اگلی نسلوں میں شاید کوئی بچا ہی نہ ہو جو "غلامی سے آزادی" کا خواب بھی دیکھ سکے۔
تبصرہ لکھیے