2001ء میں میری ملازمت اسلام آباد کے معروف ہسپتال شفاء انٹرنیشنل میں ہو گئی۔ میں کراچی سے یہاں منتقل ہوا اور اسلام آباد کے سیکٹر G-11 میں رہائش اختیار کی۔ اس وقت یہ اسلام آباد کا ایک دور دراز سیکٹر سمجھا جاتا تھا۔ یہاں کے اکثر گھر اسلام آباد کے دوسرے سیکٹرز کی نسبت چھوٹے ہوتے تھے۔ ایک ہی گلی میں ایک طرف بڑے بنگلے ہوتے تھے تو دوسری طرف چھوٹے چھوٹے کوارٹر ٹائپ مکان بھی تھے جن میں عام طور پر چھوٹے سرکاری ملازمین، چوکیدار، چپراسی، الیکٹریشن اور پلمبر وغیرہ رہتے تھے۔ یہاں میں نے اپنے بچوں کو جس اسکول میں داخل کیا، وہاں ہمارے سامنے کے چھوٹے گھروں والے کچھ بچے بھی پڑھتے تھے کیونکہ اس اسکول کی فیس بہت مناسب تھی۔ میں جب اپنے بچوں کو اسکول چھوڑنے نکلتا تھا تو اسی وقت سامنے کے گھروں والے تین بچے بھی اسکول کیلئے نکلتے تھے۔ ایک دن میں نے نوٹ کیا کہ چند دن سے ان میں سے کوئی بھی اسکول نہیں جا رہا۔ میں نے اپنی اہلیہ پوچھا :
”یہ بچے اسکول کیوں نہیں جا رہے؟… خدانخواستہ بیمار تو نہیں؟“
”نہیں وہ بیمار تو نہیں“ بیگم بولی۔”بس والدین نے انہیں اسکول سے اٹھا لیا ہے“
”کیوں؟“ میں حیران ہوا۔
”کیا کریں بیچارے ۔۔۔ مالی حالات ٹھیک نہیں۔ اب تک تو کسی نہ کسی طرح اسکول کی فیس دے رہے تھے، لیکن اب ایسی حیثیت نہیں کہ فیس دے سکیں.“
مجھے یہ سن کر بڑا افسوس ہوا۔ پڑوسیوں کے ان تین بچوں کی جو فیس بنتی تھی میں تو وہ دے نہیں سکتا تھا۔ بس دکھ اور افسوس ہی کر سکتا تھا۔
اگلے دن جب میں آفس گیا تو ہسپتال میں اپنے چند ڈاکٹر دوستوں کے ساتھ گفتگو کے دوران ان بچوں کا بھی سرسری ذکر ہوا۔ میں نے بتایا کہ میرے بچے تو اسکول جا رہے ہیں لیکن وہ نہیں جا رہے۔
دوسرے دن جب میں آفس گیا تو میرے دوست ڈاکٹر شاہد مصطفیٰ میرے کمرے میں آئے اور کہنے لگے :
”یار کتنی فیس ہے ان بچوں کی؟“
میں نے بتایا کہ اتنی ہے، تو بولے میں نے کل کچھ اور ڈاکٹرز کے ساتھ اس بات کا تذکرہ کیا تھا۔ وہ ان تینوں بچوں کی سال بھر کی فیس دینا چاہتے ہیں۔ میں تو حیران ہی رہ گیا۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ اس طرح سوچیں گے۔ بہرحال میں بڑا خوش ہوا۔ ان ڈاکٹرز نے مل کر ان تینوں بچوں کی سال بھر کی فیس اسکول میں جمع کروا دی۔ جب ہم نے اسکول والوں سے بات کی تو انہوں نے بھی فیس میں خاصی رعایت کردی اور جتنے مہینوں کی فیس ہم لے کر گئے تھے انہوں نے اسے زیادہ مہینوں پر پھیلا دیا۔
میں نے اپنی اہلیہ کے ذریعے ان گھروں میں پیغام بھجوا دیا کہ ان کے بچوں کی سال بھر کی فیس جمع کروا دی گئی ہے اس لئے اب وہ بے فکری سے اپنے بچوں کو اسکول بھیج سکتے ہیں۔ وہ بیچارے بڑ ے خوش اور ممنون ہوئے، کیونکہ وہ تو یہ بالکل نہیں چاہتے تھے کہ ان کے بچے اسکول نہ جائیں۔ تینوں بچے دوبارہ اسکول جانا شروع ہوگئے۔ ہم ایک دو سال مزید اس علاقے میں رہے۔ پھر ہم واپس کراچی شفٹ ہوگئے۔ ہمیں پتہ نہیں چلا کہ ان بچوں نے آگے کہاں تک پڑھا اور ان کا کیا مستقبل بنا۔
2016ء میں جب میں دوبارہ اسلام آباد منتقل ہوا تو ایک دن ہم اپنے اسی پرانے محلے میں گئے۔ ہمارے اکثر پرانے پڑوسی اب وہاں سے جا چکے تھے۔ وہ گھرانے بھی اب وہاں نہیں تھے کہ جن کے بچوں کو ہم نے دوبارہ اسکول میں داخل کروایا تھا۔ ایک دو پرانے پڑوسیوں سے بہرحال ملاقات ہو ہی گئی۔ وہ لوگ بھی کئی سال بعد ہم سے مل کر بڑے خوش ہوئے۔ باتوں باتوں میں پتہ چلا کہ ان تین بچوں میں سے ایک بچی پڑھنے میں بڑی ہوشیار نکلی۔ اس نے ہر امتحان میں اچھے نمبر لئے اور اب وہ میڈیکل کالج میں ڈاکٹر بن رہی ہے۔
یہ سن کر ہمیں ایسی خوشی ہوئی کہ بیان سے باہر ہے۔ اس وقت کسی کو کیا پتہ تھا کہ وہ بچی کہ جس کے والدین نے فیس نہ ہونے کی وجہ سے اسے اسکول سے اٹھا لیا تھا، وہ آگے چل کر ڈاکٹر بنے گی اور پاکستان کا ایک کارآمد فرد بن جائے گی۔ تو جناب ہمیں ہر وقت اپنے اطراف کا جائزہ لیتے رہنا چاہئے، لوگوں کے حالات پر نظر رکھنی چاہئے اور ضرورت کے وقت ان کی فوراً مدد کرنی چاہئے۔ خدا جانے کب ہمارا کوئی معمولی سا عمل ملک و ملت کیلئے بہترین ہوجائے۔ جو بچے پیسے نہ ہونے کے باعث اسکول نہیں جاتے، خدا جانے ان کے اندر کیا کیا ٹیلنٹ دب کر رہ جاتے ہیں۔ اگر ان کو بر وقت سہارا مل جائے تو وہ ملک کا بہترین فرد اور قوم کا سرمایہ بن سکتے ہیں۔
تبصرہ لکھیے