کہا جاتا ہے
پرانے وقتوں میں
جب قافلے نکلتے تھے طویل سفر پر
تو ایک شخص ہمیشہ پیچھے رہتا تھا
نرم قدموں سے، خاموشی سے
وہ وہیں چلتا
جہاں زمین پر وقت کے نشان پڑتے
جہاں تھکن کی گواہی بکھری ہوتی
جہاں کچھ نہ کچھ چھوٹ جایا کرتا
وہ ہاتھ بڑھا کر
راستوں پر گرے خواب چن لیتا
جلدی میں گرائی گئی امیدیں سمیٹ لیتا
خود غرضی کی ہوا میں اڑتے
خلوص کے بوسیدہ ٹکڑے تھام لیتا
وہ ہر پڑاؤ پر
ان لوگوں کو یہ سب لوٹانے کی کوشش کرتا
جو اپنی ہی جلد بازی میں
زندگی کے کچھ انمول لمحے پیچھے چھوڑ چکے تھے
میں سوچتی ہوں
کہ شاید میں بھی
اسی قافلے کا وہی آخری مسافر ہوں
جس کے مقدر میں
بچھڑی ہوئی مہربانیاں چننا لکھا گیا ہے
راستوں پر بکھرے الفاظ،
جو کبھی محبت کی زبان تھے
زمین پر پڑے جذبات،
جو کبھی کسی دل کی دھڑکن تھے
مگر جب میں کسی پڑاؤ پر پہنچتی ہوں
اور ان سب کو لوٹانے کی کوشش کرتی ہوں
تو دیکھتی ہوں، لوگ آگے بڑھ چکے ہیں
انہیں اب ان گمشدہ چیزوں کی طلب نہیں رہی
یا شاید
انہیں احساس ہی نہیں
کہ انہوں نے کچھ کھو دیا تھا
اور میں
ہاتھ میں تھامی انمول چیزوں کو دیکھ کر سوچتی ہوں
کہ شاید
یہ سب کبھی لوٹایا نہیں جا سکے گا
شاید یہ سب
اب صرف میرے سفر کا بوجھ ہیں
یا میرے دل کا سرمایہ
جو مجھے ہمیشہ پیچھے رکھے گا۔
قافلے کے پیچھے چلنے والے - رخسانہ افضل

تبصرہ لکھیے