ہوم << یومِ پاکستان - ثمرعباس لنگاہ

یومِ پاکستان - ثمرعباس لنگاہ

تاریخ کے صفحات پر کچھ دن ایسے ثبت ہو جاتے ہیں جو وقت کی گرد میں کبھی گم نہیں ہوتے۔ 23 مارچ 1940ء ایسا ہی ایک دن تھا ۔۔۔ ایک عہد، ایک فیصلہ، ایک ارادہ ۔۔۔ یہ محض ایک قرارداد نہ تھی، بلکہ ایک عظیم خواب کا سنگِ بنیاد تھی، ایک ایسی دستاویز جس نے برصغیر کے مسلمانوں کی قسمت کا رخ موڑ دیا۔ لاہور کے منٹو پارک میں، ہزاروں چہروں پر امید کی روشنی تھی، ہر دل میں آزادی کی تڑپ تھی اور ہر زبان پر ایک ہی نعرہ تھا ۔۔۔ الگ وطن، اپنی پہچان، اپنا پاکستان ۔

یہ دن محض ایک رسمی اجتماع نہ تھا بلکہ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک نئے باب کا آغاز تھا۔ برطانوی سامراج کی غلامی اور ہندو اکثریت کے جبر میں پسے ہوئے مسلمان اس حقیقت کو پا چکے تھے کہ اب صرف ایک ہی راستہ بچا ہے ۔۔۔ اپنا علیحدہ وطن۔ وہ نظریہ جو علامہ اقبال نے 1930ء میں الہ آباد کے خطبے میں پیش کیا تھا، وہ 1940ء میں ایک باقاعدہ تحریک کی صورت میں ڈھل چکا تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے دوٹوک الفاظ میں واضح کر دیا تھا کہ مسلمان اور ہندو دو الگ قومیں ہیں، جن کا مذہب، ثقافت، تاریخ اور طرزِ زندگی ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو اپنے مذہب، اپنی تہذیب اور اپنی معاشرتی اقدار کے مطابق جینے کے لیے ایک علیحدہ ریاست درکار ہے۔

یہ قرارداد صرف ایک سیاسی مطالبہ نہ تھا بلکہ ایک تہذیبی اعلانِ بغاوت تھا ۔۔۔ ایک نئی قوم کی شناخت کا اعلان۔ مسلمانوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب وہ کسی کے تابع نہیں رہیں گے، وہ اپنی قسمت خود لکھیں گے۔ قراردادِ لاہور نے تحریکِ پاکستان کو ایک واضح سمت دے دی، اور یہی سمت سات سال بعد 14 اگست 1947ء کو پاکستان کی صورت میں حقیقت بن کر دنیا کے نقشے پر ابھری۔

مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اس خواب کی لاج رکھی؟ کیا ہم نے ان اصولوں کو اپنایا جن کی بنیاد پر یہ ملک حاصل کیا گیا تھا؟ آج جب ہم یومِ پاکستان مناتے ہیں، تو کیا یہ صرف ایک تعطیل کا دن ہے یا ہمیں اس کے اصل مقصد کی سمجھ بھی ہے؟ کیا ہم نے اس ریاست کو ایک اسلامی، فلاحی اور خودمختار ملک بنایا جس کا وعدہ 23 مارچ 1940ء کو کیا گیا تھا؟

یہ دن ہمیں محض جشن منانے کا نہیں، بلکہ خود احتسابی کا موقع فراہم کرتا ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ جس مقصد کے لیے ہمارے آبا و اجداد نے قربانیاں دیں، کیا ہم اس پر قائم ہیں؟ کیا ہم نے اپنے اسلاف کے خوابوں کی تعبیر کی یا ہم نے اس نظریے کو پس پشت ڈال دیا؟

یاد رکھیے، قومیں اسی وقت ترقی کرتی ہیں جب وہ اپنے ماضی سے سبق سیکھتی ہیں اور اپنی اقدار کو زندہ رکھتی ہیں۔ قراردادِ پاکستان ایک عہد تھا، اور یہ عہد آج بھی ہم سے وفا مانگتا ہے۔ اور ہاں، یاد رکھیے، تبدیلی راتوں رات نہیں آتی بلکہ وقت لگتا ہے۔۔۔

Comments

Avatar photo

ثمر عباس لنگاہ

ثمر عباس لنگاہ نویں جماعت کے طالب علم ہیں۔ مختلف اخبارات اور جرائد میں کالم اور مضامین شائع ہوتے ہیں۔ "ماہنامہ مرقع اردو ادب" کے چیف ایڈیٹر ہیں۔ صحافت اور ادب کے ذریعے معاشرتی اصلاح اور فکری بیداری کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی ایوارڈ، اثاثہ ادب ایوارڈ، پہچان پاکستان ایوارڈ سمیت کئی اعزازات مل چکے ہیں۔

Click here to post a comment