اے میرے ملک کے غَیُور جوانو!
اے شہ رگ سے نزدیک رب پر ایمان رکھنے والو!
اے وحدتِ امت اور باہمی اتفاق کی تعلیم دینے والو!
یہ کیا طریقہ ہے کہ جب تمھارے بھائیوں پر کڑا وقت آیا تو تم میں سے بعض تو اس معاملے سے بالکل بے اعتنائی برتنے لگے، حالاں کہ حدیث شریف کی تعلیم تو یہ ہے کہ تمام مؤمن ایک جسم کی طرح ہیں کہ اگر سر میں تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم بخار اور رت جگے کا شکار ہو جاتا ہے۔
اس واضح نصیحت کے بعد آنکھیں بند کرنے کی جسارت کر رہے ہو تو تمھیں ایک شعر سناتا ہوں جو بچپن سے تم اپنی کتابوں میں پڑھتے آئے ہو کہ شاید وہ تمھارے ضمیر کو جھنجھوڑ سکے:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کےلیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر
اور تم میں سے بعض کا طرزِ عمل یہ ہوا کہ جب تمھارے سامنے خون میں لت پت مرد، بلکتی ہوئی خواتین اور تڑپتے ہوئے بچوں کے عکس آئے تو تمھارے دل میں کچھ ٹیسیں اٹھیں، تمھارے جگر میں ایک ہمدردی کا جذبہ متحرک ہوا، تمھاری آنکھیں بہہ پڑیں اور تم دشمن کے ملیامیٹ ہونے کی شدید تمنا کرنے لگے لیکن جب تمھارے سامنے اسی دشمن کی مصنوعات آئیں جن کا متبادل بھی تمھارے پاس موجود ہے، تو تم بے دھڑک انھیں استعمال کرنے لگے اور جب کسی نے ٹوکا تو کبھی اشیاء کے معیار کو آڑ بنانے لگے اور کبھی محض اپنے بائیکاٹ سے اسر ائی ل کے نقصان نہ ہونے کے بہانے تراشنے لگے، کیا تمھارے ساتھ کوئی بد تمیزی کرے یا تمھاری ماں کو گالی دے تو اس کی دکان پر دوبارہ جانا گوارہ کرتے ہو؟ پھر یہاں محض غیرت اور دشمن سے نفرت ہی تمھارے لیے کافی کیوں نہ ہوئی؟
اور تم میں سے بعض ایسے ہیں جن کا دل ہر وقت اپنے بھائیوں کے ساتھ معلق ہے اور اس معاملے میں عملی اقدام کیلیے بھی شدید خواہش رکھتے ہیں لیکن جب خود دعا تک کا ہی کہہ دیا جائے تو بگڑتے ہوئے اسے مسئلے کا حل ماننے سے گریز کرتے ہیں، خود کو مکمل غیر ذمہ دار اور بے پروا مانتے ہوئے سارا نزلہ کبھی علماء پر اور کبھی حکومت اور عسکری قوت پر گراتے ہیں کہ وہ اپنی قوت استعمال نہیں کر رہے، حالاں کہ جب تم خود اپنے تئیں جو بس میں ہے وہ نہیں کر رہے تو کیا بعید ہے کہ اگر تم حکومت میں ہوتے تو اسی طرح اپنی ذمہ داری سے لاپروائی برتتے !! ہر چیز کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے کہ ایسا ہونا چاہیے البتہ اس کی آڑ میں خود کو بالکلیہ دستبرداری کی سند فراہم کرنا بہت نا سمجھی کا فیصلہ ہے اور قابلِ افسوس بات ہے۔
یقیناً وہ لوگ اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں سرخ رُو ہوں گے جو اپنی ہر نفلی عبادات میں ان کیلیے تڑپتے ہیں جن کی جانیں ہی دشمن کے سامنے نفل کی حیثیت رکھتی ہیں، جو لوگ اپنی ہر دعا میں ان کو یاد رکھتے ہیں جنھیں اب تک دعا سے مایوس ہو جانا چاہیے تھا لیکن وہ عزم و استقلال کے پیکر قدم جمائے مسلسل ذکر اللہ میں مشغول ہیں اور جو لوگ حسبِ استطاعت ان کی مالی امداد کر رہے ہیں جنھیں سحری و افطاری کے دسترخوانوں پر انواع و اقسام کے کھانے میسر نہیں۔
یہ دعائیں، یہ جذبات، یہ ہمت و حوصلہ، یہ بائیکاٹ اور مالی امداد رائیگاں نہیں جائے گی۔
اللہ ہمارے بس میں تو یہی ہے سو یہی کر رہے ہیں، تُجھے تیری شانِ قہاری اور عزیزی کا واسطہ ہے کہ ایک ایک دشمن کو عبرت کا نشان بنا کر ہماری آنکھیں ٹھنڈی فرما دے اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو ذلت و پستی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکال کر حقیقی عزت و اقتدار کی روشنیاں عطا فرما دے۔
تبصرہ لکھیے