ہوم << ہم دیوانے اردو کے- ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم

ہم دیوانے اردو کے- ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم

ہم دیوانے اردو کے، کیونکہ
1۔اردو ۔۔۔۔عربی ،ہندی اور فارسی زبانوں کا مجموعہ ہے جس میں عربی کے الفاظ ستر فیصد موجود ہیں ۔
2۔اردو۔۔۔۔ میں دیگر زبانوں کو اختیار کرنے اور اپنے اندر سمونے کی صلاحیت موجود ہے ۔
3۔یہ دنیا کے گیارہ کروڑ افراد کی مادری اور دنیا بھر کی ایشیائی،یورپی اور عرب ممالک میں موجود کروڑوں لوگوں میں پڑھی اور سمجھی جاتی ہے۔
4۔بھارت کی چھٹی اور پاکستان کی پانچویں بڑی زبان ہے۔
5۔ اسے برصغیر کی انتہائی اعلیٰ تہذیبی زبان کا مقام حاصل ہے۔
6۔اس کا نثری اور شعری ادب دنیا بھر میں پڑھا اور اس کی شستگی،شائستگی اور جملہ ادبی محاسن کے طور پر بلند ترین درجے پر رکھا جاتا ہے۔
7۔ادب کی تمام اصناف۔۔شعر،نظم،ناول،افسانہ،داستان گوئی،انشاء،سفرنامہ،سوانح حیات،مکتوب نگاری،نوحہ و مرثیہ،تنقید نگاری میں اردو بلند معیارات کی حامل اور ادب معلّٰی کے مقام پر فائز ہے۔
8۔غزل اس کی منفرد شناخت و وجہ پہچان ہے۔
9۔اردو زبان وادب نے عوام کے درمیان یک جہتی اور ہم آہنگی کو فروغ دیا ہے ۔
10۔پاکستان کی علاقائی زبانوں پر اس کے اثرات گہرے اور ہمہ پہلو ہیں ۔تمام علاقائ زبانوں کی اصطلاحات،تعبیرات اور نثری و نظمی اصول و ضوابط بشمول الفاظ و تراکیب اور قواعد بڑی حد تک یکساں ہیں۔
11۔اسے صوبائی اور علاقائی زبانوں کا نکتۂ وحدت قرار دیا جاسکتا ہے۔
12۔یہ تمام اہل ادب و دانش،عوام کے تمام طبقوں کے باہمی رابطے،تعلق اور مافی الضمیر کے اظہار اور فہم کی زبان ہے۔
13۔اردو زبان وادب۔۔محض ایک زبان ہی نہیں،بلکہ شخصیت کے وقار اور تہذیب و شائستگی کی دلکش و دلآویز محرک و منبع ہے۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا:
بات کرنے کا حسیں طور طریقہ سیکھا
ہم  نے اردو  کے  بہانے سلیقہ   سیکھا

14۔یہ بات مسلمہ حقیقت کے طور پر معروف ہے کہ وہ قوم جس کی اپنی قومی زبان نہ ہو،یا وہ دوسروں کے لفظ  بولنے اور لہجوں کی غلامی کرنے کی عادی اور اسے باعث فخر اور ترقی سمجھتی اور تہذیب کا نشان گردانتی ہو،وہ  ذہنی غلام اور گونگی کہلائے جانے کی مستحق ہے۔دنیا کی جدید اور مہذب و ترقی یافتہ قوموں نے ترقی اور عروج کا سفر اپنی قومی زبانوں میں ہی طے کیا۔

15۔اردو زبان و ادب نے نہ صرف علاقائی زبانوں کو تحفظ دیا،بلکہ ان کے درمیان باہمی مشترکات کے ذریعے یکجائی،توسع اور نکھار پیدا کیا۔ان کے لفظی ذخیروں اور مصطلحات کو جہاں اپنے اندر سمویا،وہیں اپنے دامن کےبےشمار لفظی،لغوی،معنوی،اصطلاحی،اسلوبی اور لہجاتی ہیرے موتی منتقل کیے۔

16۔اردو زبان و ادب نے ابنائے قوم کے درمیان اتحاد و اتفاق پیدا کیا ۔اس کے شعر،نثر،غزل ،نظم،گیت،افسانے،ناول،نغمے،انشائیے، لوک گیت اور کہانیا،طنزومزاح پر مبنی تحریروں نے، اور ڈرامے،مضامین،الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے ابنائے وطن کے ذوق جمال ،ذخیرۂ لفظی،اسلوب کلام ،آہنگِ اصوات، اور جمالِ فکر کو سنوارا،نکھارا اور وقار بخشا ۔

17۔اردو زبان وادب نے اپنے وسیع اور دلکش لغوی وادبی محاسن اور سرمائے کے ذریعے نہ صرف پاکستانی قوم کو  بین الاقوامی زبانوں میں سربلند کیا،بلکہ دیگر عالمی آداب و ألسنہ سے مربوط کیا اور اپنا نہایت معزز و محترم مقام حاصل کیا۔ اب یہ 22 کروڑ پاکستانیوں کی قومی زبان اور نکتۂ وحدت ہونے کے ساتھ  دنیا بھر کے اہل علم ودانش کی محبوب،قابل فہم اور رابطے کی زبان بھی قرار پائی۔

18۔برّ صغیر میں اردو کے فروغ و استحکام میں درج ذیل عناصر مؤثر رہے:
(الف) ہر سطح کے لکھاری۔شعراء،ادباء، افسانہ،ناول نگار اور ہر صنف ادب کے قلم کار ،محققین اور ماہرین لسانیات و ادبیات۔ان کی انفرادی اور قدرے اجتماعی کوششوں سے ہر صنف کا ادب تخلیق پایا۔
(ب) برصغیر کے طول وعرض میں منعقد ہونے والے مشاعرے۔
(ج) برصغیر کے علماء دین کی علمی تصنیفات اور واعظانہ خطبات
(د)  تحریک پاکستان کے قائدین۔۔مسلم راہنماؤں بالخصوص سرسید،قائد اعظم،شبلی نعمانی،حسرت موہانی اور عبد المجید سندھی وغیرہ کے سیاسی خطبات اور بیانات۔
(و) تحریک پاکستان کے دوران شائع ہونے والے اخبارات۔
(ہ)حضرت علامہ اقبال کی آفاقی شاعری اور خطبات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔علامہ رح کی مادری زبان اگرچہ پنجابی تھی،،تاہم انہوں نے 16 سال کی عمر سے اردو سیکھنا اور استعمال کرنا شروع کی۔1900 تک وہ اردو میں پختہ ہوگئے اس کے لیئے انہوں نے حضرت داغ کی شاگردی اختیار کی اور اسے اپنے لیے  باعث فخر گردانا۔۔ مجھے بھی فخر ہے شاگردیٔ داغ ،سخن داں کا

علامہ اقبال کے افکار و نظریات سے محبت کرنے والے ایشیا،یورپ اور عرب ممالک سمیت دنیا بھر میں موجود تھے،وہ ان کی نظم و نثر سے دیوانہ وار محبت کرتے،پڑھتے اور ترجمہ کے ذریعے سمجھتے۔اقبال کے اردو خطبات اور  چھ ہزار سے زائد اشعار نے اردو کو اس وقت دنیا میں پھیلایا جب یہ اپنے ارتقاء کی منزلیں طے کر رہی تھی۔ علامہ اقبال نے 1929میں مدراس میں اپنے خطبہ کے دوران اردو کو۔۔
1۔معاشرتی،تمدنی اور تعلیمی مشکلات کا واحد حل قرار دیا۔
2۔ہندوستان کی سب سے بڑی رابطہ زبان بالیقین اردو ہے۔
3۔مسلمانوں کی واحد عالمگیر زبان اردو ہے ۔
علامہ کی اپنی زبان گرچہ پنجابی تھی ،مگر انہوں نے اردو کی خدمت کو ایک مقدس فرض قرار دیا اور خود کو اس کے خادم کے طور پر متعارف کرایا۔ بعض اہل دانش اور ماہرین لسانیات کی رائے میں بابائے اردو مولوی عبدالحق کے بعد علامہ اقبال نے گیسوئے اردو کو سنوارا اور نکھارا ۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے 1936 میں علی گڑھ میں اردو کانفرنس منعقد کی،جس میں حضرت اقبال کو شرکت اور خطاب۔ کی دعوت دی۔علامہ نے اس پر بپناہ مسرت کا اظہار کرتے ہوئے خرابئ طبیعت کے باعث شرکت سے معذوری ظاہر کی۔

19۔وقت کے ساتھ ساتھ زبانوں میں شکست و ریخت اور لغوی و اسلوبیاتی تبدیلیاں واقع ہونا کچھ نیا نہیں ،البتہ زبانوں کا اپنے تشکیلی نظام پر مصر رہنا کچھ اچھے نتائج پیدا نہیں کرتا ۔وہ زبانیں جو وقت کے ساتھ ابلاغ کی قوت اور صلاحیت سے محروم ہوجائیں،بالآخر کتابوں کی زینت بن کر رہ جاتی اور بالآخر معدوم یا متروک ہو جاتی ہیں۔۔

اردو اس خدشے اور اندیشے سے  دو وجوہ کی بناء پر محفوظ ہے ۔ ایک اس کے ماہرین،محققین،ادباء و شعراء کا عصری تقاضوں سے آگاہ ہونا اور انہیں پورا کرنے میں مسلسل و مربوط کردار ادا کرنا۔ دوسرا قرآن کریم۔۔جس کی زبان عربی کے کلمات و مشتقات کا بڑا حصہ اردو میں نمایاں ہے ۔اب قرآن تو خدائی مخصوص انتظامات و اعلانات کے باعث لازوال ہے۔اس کی زبان کو بھی اسی نسبت سے دوام و بقاء حاصل ہے۔۔اور اس پارس کے ساتھ تعلق رکھنے کے باعث اردو بھی سدا آباد رہے گی۔ان شاءاللہ۔

20۔موجودہ جہومت کے سیاسی نظریات و اقدامات سے قطع نظر۔۔اس کے سربراہ کے اردو کے اختیار اور غلامانہ ذہنی رویوں کی مخالفت خوش آئند ہے،تاہم اصل مطلوب عملی اور کلیدی اقدامات ہیں،جن کے ذریعے پاکستانی قوم کو ذہنی غلامی اور گونگے پن سے نکال کر باوقار قوم بنانے کے ساتھ اردوئے معلیٰ کے ذریعے تہذیب و شائستگی سے بہرہ مند کیا جاسکتا ہے۔

وضاحت
۔۔۔۔یہ تحریر اردو سے محبت کرنے والے ایک ادنیٰ سے طالب علم کے سطحی احساسات پر مبنی ہے،جو اردو کی اہمیت کے اسباب و دلائل کا احاطہ ہرگز نہیں کرتی
۔۔۔۔یہ اردو سے محبت کرنے والے عام اہل پاکستان کے لیئے ہے،اسے تحقیق اور دانش کے ساتھ لسانی اصولوں اور مسلّمات کی کسوٹی پر نہ پرکھا جائے۔۔
۔۔۔۔کسی نادانستہ غلطی یا خلاف حقیقت نکتہ پر اردو کے اساتذہ اور ماہرین کے حضور دست بستہ معذرت خواہی پیش ہے۔

Comments

Avatar photo

ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم

ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم سابق چیئرمین تعلیمی بورڈ فیصل آباد ہیں۔ ڈائریکٹر کالجز، گورنمنٹ کالج سمن آباد کے ریٹائرڈ پرنسل اور جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے سابق چیئرمین شعبہ عربی ہیں۔ ریڈیو پاکستان سے 30 سال کا تعلق ہے۔ بطور مقرر قومی پروگرام ۔۔حی علی الفلاح۔ سلسلہ "قر ان حکیم اور ہماری زندگی۔ نشری تقاریر پر مشتمل چھ کتب ''قول حسن، قول سدید، قول مبین، قول مجید، قول کریم اور قول حکیم شائع ہو چکی ہیں۔ دو کتب قول فصل اور قول کریم زیر ترتیب ہیں۔ ترکی جو میں نے دیکھا کے نام سے سفرنامہ شائع ہو چکا ہے۔ خود نوشت ''یادوں کا دریچہ'' زیرقلم ہے

Click here to post a comment