پاکستان کے سیاسی افق پر سال گزشتہ ایک نئی سیاسی جماعت کا قیام عمل میں آیا ہے۔ ویسے تو مملکت خداداد میں سیاسی جماعتوں کی بہتات ہے اور ہم اس معاملے میں اتنے خود کفیل ہیں کہ دوسرے ممالک کی "سیاسی کفالت" کرسکتے ہیں۔ 2024 میں 6 نئی سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن سے رجسٹرڈ ہوئیں۔ جولائی 2024 میں عوام پاکستان پارٹی وجود میں آئی جسے الیکشن کمیشن کی طرف سے چھ ماہ بعد ہی 10/جنوری 2025 کو رجسٹریشن سرٹیفکیٹ دے دیا گیا جب کہ اس کے 24 دن بعد 4/فروری 2025 کو پارٹی کو "گھڑیال" کا انتخابی نشان بھی الاٹ ہو گیا۔ الیکشن کمیشن کی اس چابک دستی پر سیاسی تجزیہ کار ورطہ حیرت میں مبتلا ہیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ملک میں 251 سیاسی پارٹیاں موجود ہیں جن میں سے 168 الیکشن کمیشن سے رجسٹرڈ جب کہ دیگر نان رجسٹرڈ ہیں۔ زیادہ تر سیاسی جماعتیں اتنی مختصر الوجود ہیں کہ " تانگہ یا سائیکل پارٹی " جتنے حجم کی نظر آتی ہیں۔ وہ اپنے سیاسی وجود کو قائم و دائم رکھنے، عوام میں اثر و رسوخ بڑھانے کےلئے کوشاں رہتی ہیں۔ اس کے لئے انہیں پرنٹ و برقی ذرائع ابلاغ کا سہارا درکار ہوتا ہے۔ انہیں اخبارات و ٹی وی چینلز کے توسط سے اپنے سیاسی پروگرامز کی تشہیر کی مد میں خاصا بجٹ مختص کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اب سوشل میڈیا کی صورت میں تشہیر کا سستا ترین ذریعہ مل گیا ہے جس کی وساطت سے مذکورہ سیاسی جماعتوں کی پروپیگنڈہ مشینری خاصی فعال ہوئی ہے لیکن ان کی فعالیت منفی انداز کی ہے، جس سے ملکی سالمیت اور ملی یکجہتی کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
251 سیاسی جماعتوں میں سے کسی جماعت نے بھی ملک میں دہشت گردی، مہنگائی کے خاتمے اور عوام کو بروقت سستے اور غیر جانبدارانہ انصاف کی فراہمی کے لئے قوم کے سامنے کوئی ایجنڈا پیش نہیں کیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ملکی سیاست کے "خارزار" میں معرض وجود میں آنے والی 252 ویں سیاسی جماعت ملک و قوم کو مسائل کے گرداب سے نکالنے اور دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لئے کیا لائحہ عمل اختیار کرتی ہے۔ عوام پاکستان پارٹی، ان سیاسی رہنمائوں کے "ٹرائیکا" نے قائم کی ہے جو ملکی سیاست میں خاصا اثر رسوخ رکھتے ہیں اور وفاق و صوبوں میں اہم عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔ پارٹی کے صدر شاہد خاقان عباسی گزشتہ چالیس سال سے ملکی سیاست میں سرگرم ہیں۔ دوسرے رہنما سردار مہتاب خان عباسی 90 کی دہائی سے ملکی سیاست میں انقلاب برپا کرنے کے لئے کوشاں ہیں، اسی لئے انہوں نے شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل کے ساتھ مل کر نئی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی ہے۔ ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والے مہتاب خان عباسی، 1997 سے 1999 تک خیبر پختون خوا کی وزارت اعلی کے منصب پر فائز رہے ہیں۔ 2003 سے 2008 تک سینیٹ کے رکن تھے اور 2008 میں انہوں نے وزیر ریلوے کا عہدہ سنبھالا۔ 2016 میں خیبر پختون خوا کے گورنر بنے۔ 23 جولائی 1965 میں جنم لینے والے مفتاح اسماعیل نے ڈیو کوئسنے پرائیوٹ کیتھولک یونیورسٹی پٹسبرگ پنسلوانیا امریکا سے بی ایس کیا۔ وارتھون اسکول یونیورسٹی آف پنسلوانیا سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ سیاسی معیشت دان ہیں۔ وفاقی وزیرخزانہ رہے.
شاہد خاقان عباسی ایک فوجی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ 27/دسمبر 1958کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم کراچی کے حبیب پبلک اسکول سے حاصل کی جس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے جارج واشنگٹن یونیورسٹی، کیلیفورنیا یونیورسٹی لاس اینجلیس میں داخلہ لیا اور اپنی تعلیم مکمل کی۔ 1988 میں والد کی شہادت کے بعد وہ ملکی سیاست میں وارد ہوئے، جب سے آج تک وہ چھ مرتبہ الیکشن جیت کر قومی اسمبلی کی رکنیت کی ڈبل ہیٹ ٹرک مکمل کرچکے ہیں۔ ان کے والد محمد خاقان عباسی پاکستان ائیر فورس میں ائیر کموڈور تھے۔ 1978 میں ائیر فورس سے ریٹائرمنٹ کے بعد اردن چلے گئے۔ وہاں کے بادشاہ، شاہ حسین کی طرف سے پذیرائی ملنے کے بعد اردن کی شاہی فضائیہ کے مشیر بنادئیے گئے۔ اردن سے ملازمت چھوڑ کر وہ سعودی عرب میں مقیم ہوگئے جہاں انہوں نے متعدد تعمیراتی منصوبے شروع کئے جو کامیابی سے ہم کنار ہوئے اور ان کا شمار پاکستان کی ارب پتی شخصیات میں ہونے لگا۔ 1980 کے اوائل میں وہ پاکستان واپس آگئے اور ملکی سیاست میں حصہ لینے لگے۔ 1985 میں این اے 36 سے غیر جماعتی انتخابات میں راجہ ظفر الحق کو شکست دے کر نہ صرف قومی اسمبلی کی رکنیت حاصل کی بلکہ جنرل ضیا الحق سے ذاتی وابستگی کی وجہ سے انہیں وزیراعظم محمد خان جونیجو کی کابینہ میں وزیر پیداوار کا عہدہ دے دیا گیا۔ 10/اپریل 1988 کو وہ اوجڑی کیمپ کے سانحے میں میزائل کی زد میں آکر شہید ہوگئے۔
شاہد خاقان عباسی نے وطن واپس آکر اپنے والد کے نقوش پا، پر چلتے ہوئے ملکی سیاست میں بھرپور حصہ لیا۔ 1988 سے شروع ہونے والا ان کا سیاسی سفر ہنوز جاری ہے۔ 1997 سے 1999 تک پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائنز میں چیئرمین کے عہدے پر فائز رہے۔ 2003 کے انتخابات میں شکست کے بعد انہوں نے پی آئی اے کی ملازمت کے تجربے سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی ذاتی ہوائی کمپنی "ائیر بلیو" بنائی۔ 2008 کے انتخابات میں دوبارہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے کے بعد وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں وزیر تجارت کے عہدے پر فائز ہوئے۔ 2013 سے 2017 تک میاں نواز شریف کے دور حکومت میں وزیر پٹرولیم رہے۔ یکم اگست 2017 سے 31/مئی 2018 تک میاں نواز شریف کی معزولی کے بعد وہ ملک کے چیف ایگزیکٹو کی مسند پر فائز رہے۔
شاہد خاقان عباسی کی سربراہی میں بننے والی عوام دوست پارٹی نے اپنے قیام کے ایک ماہ بعد ہی 40 صفحات پر مشتمل پارٹی منشور جاری کردیا جو انگریزی زبان میں شائع کیا گیا ہے۔ اس میں پارٹی رہنمائوں نے اہم عوامی مسائل سے نمٹنے کے لئے اپنا "ویژن" پیش کیا ہے۔ "بدلیں گے نظام، خوش حال ہوگا پاکستان" کا نعرہ پارٹی منشور کا موٹو ہے جس کے تحت مفاد عامہ کے لئے جدو جہد کے عزائم کا اظہار کیا گیا ہے۔ نئی جماعت کے صدر شاہد خاقان عباسی نے اپنی پارٹی میں شفاف ماضی، اچھی صلاحیتوں کے حامل افراد اور سیاسی رہنمائوں کو پارٹی میں شامل کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہماری جماعت کا منشور، کرسیوں کی جنگ اور اقتدار کی بندر بانٹ سے بالاتر ہے۔ شاہد خاقان عباسی ملک کے موجودہ نظام حکومت سے مطمئن نہیں ہیں حالانکہ کئی دہائیوں تک وہ خود نہ صرف اس نظام کا حصہ بنے رہے بلکہ وزیراعظم کی مسند پر براجمان ہونے کے بعد وہ خود اسی نظام کے تحت ملک کا نظم و نسق چلاتے رہے۔ حالانکہ اپنی وزارت عظمٰی کے دور میں وہ ملکی نظام کو آئین کی رو سے تبدیل کرنے کا آئینی استحقاق رکھتے تھے لیکن سیاسی مصلحت آڑے آنے کی وجہ سے انہوں نے کسی بھی اقدام سے گریز کیا۔
عوام پاکستان پارٹی کے قیام کو ابھی صرف آٹھ ماہ ہوئے ہیں لیکن اس کی عوامی پذیرائی قابل دید اور سیاسی حریفوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ 15/مارچ 2025 کو پارٹی کے صدر و سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور جنرل سکریٹری مفتاح اسماعیل نے کراچی میں پارٹی کے ضلعی دفتر کا افتتاح کیا جس میں حاضرین کی کثیر تعداد دیکھ کر کسی بڑے سیاسی جلسے کا گمان ہورہا تھا۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے جلسوں کے انعقاد پر کروڑوں روپے صرف تشہیر کی مد میں خرچ کئے جاتے ہیں، اس کے باوجود جلسہ گاہ میں بچھی 60 فیصد نشستیں خالی نظر آتی ہیں لیکن نوزائیدہ سیاسی جماعت کے ضلعی سکریٹریٹ کے افتتاح کی تقریب میں حاضرین کی تعداد دیکھ کسی بڑی جماعت کے سیاسی جلسے کا سماں تھا۔
نوزائیدہ جماعت کے اجتماعات میں عوام کی بڑی تعداد میں شرکت کی وجہ اس کے صدر شاہد خاقان عباسی کی سحر انگیز اور طلسماتی شخصیت ہے لیکن اس سے بھی زیادہ فائدہ انہیں "عباسی برادری" سے وابستہ ہونے کی بنا پر پہنچا ہے اور کراچی کی جلسہ گاہ میں حاضرین کی زیادہ تعداد عباسی برادری کے افراد پر مشتمل تھی جو اپنے قائد ڈاکٹر شفقت حسین عباسی کی ہدایت پر نصف شب کو تقریب میں شرکت کے لئے حاضر ہوئے تھے۔ شاہد خاقان عباسی اور سردار مہتاب خان عباسی کی برادری کے لوگ ملک کے طول و عرض میں آباد ہیں اور پاکستان میں ان کی مجموعی آبادی کئی کروڑ نفوس پر مشتمل ہے۔ یہ سندھ، پنجاب، ہزارہ، مری کہوٹہ، کشمیر، کے پی کے، بلوچستان، سرائیکی بیلٹ اور بہاولپور کے ہر علاقے میں موجود ہیں۔ عباسی برادری کی کثیر تعداد انجمن اتحاد عباسیہ کے پلیٹ فارم پر اکٹھا ہے جس کے سربراہ سابق بیوروکریٹ اور ممتاز سماجی شخصیت ڈاکٹر شفقت حسین عباسی ہیں۔ انجمن اتحاد عباسیہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کا ہر اجتماع ہزاروں لوگوں کے مجمع کے ساتھ ایک بڑے جلسے کی صورت اختیار کرلیتا ہے، جس کا تذکرہ روزنامہ "عوام" کے سابق چیف رپورٹر خورشید عباسی اور آغا خالد نے روزنامہ عوام اور جنگ میں شائع ہونے والی اپنی رپورٹس میں بھی کیا تھا۔ شاہد خاقان عباسی، سردار مہتاب عباسی سمیت متعدد حکومتی و سیاسی شخصیات کا تعلق بھی اسی برادری سے ہے اور وہ ڈاکٹر شفقت حسین عباسی کی تنظیم کا حصہ ہیں۔ سابق وزیر اعظم تو خود انجمن اتحاد عباسیہ کی تقریبات میں شرکت کرتے ہیں۔
ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کی رائے کے مطابق شاہد خاقان عباسی کی حالیہ تقاریر اور بیانات میں تند و تیز لہجہ پایا جاتا ہے۔ وہ موجودہ نظام حکومت کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہتے ہیں کہ "ریاست کا نظام مکمل طور سے ناکام ہوچکا ہے، 26 ویں آئینی ترمیم کے اطلاق کے بعد عدالتوں سے انصاف ملنا ناممکن ہوگیا ہے، آج نہ تو عدلیہ آزاد ہے، نہ ذرائع ابلاغ، سیاسی معاملات میں عدم برداشت کی تمام حدیں عبور ہوچکی ہیں". حکمراں جماعتوں کے بارے میں ان کا بیانیہ ہے کہ "ملک کی تین جماعتیں گزشتہ دہائیوں سے صوبائی اور وفاقی سطح پر حکمرانی کررہی ہیں، لیکن ریاست کا ہر شعبہ زوال پذیر ہے". ملک میں امن و امان کی مخدوش صورتحال کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ " 2025 کے ابتدائی تین ماہ کے دوران تسلسل کے ساتھ دہشت گردی کے ان گنت واقعات اور بم دھماکوں میں سکیورٹی فورسز کے جوانوں سمیت درجنوں شہری شہید ہوچکے ہیں۔ جعفر ایکسپریس کے سانحے کو دیکھتے ہوئے ہمیں اپنے ملک میں امن و امان کی مخدوش صورتحال کا بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے "۔ دریائے سندھ سے چھ نہریں نکالنے کے منصوبے کو انہوں نے وفاقی و صوبائی حکومتوں کا غیر دانش مندانہ اقدام قرار دیتے ہوئے کہا کہ "اس منصوبے کو چھیڑ کر ملی یکجہتی کا شیرازہ بکھیرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تقسیم آب کے معاملات آئین کے مطابق طے کئے جائیں۔ آئین میں ہر مسئلے کا حل موجود ہے۔ سندھ کے پانی پر کسی کو بھی ڈاکہ ڈالنے کی اجازت نہیں دیں گے، چھ نہروں کی تعمیر کا منصوبہ ملکی وحدت کے خلاف سازش ہے".
عوام پاکستان جماعت کے سربراہ کا کراچی سے پیدائشی تعلق ہے اس لئے وہ شہر قائد اور اس کے شہریوں کے مسائل سے بخوبی واقف ہیں۔ انہوں نے بعض بیانات و تقاریر میں اہل کراچی کے لئے بھی تسلی بخش کلمات ادا کئے ہیں۔ کراچی کے حوالے سے اپنے بیانات میں انہوں نے کہا کہ "پیپلز پارٹی گزشتہ 17 سال سے سندھ پر حکم رانی کررہی ہے۔ طویل عرصے سے حکومت میں ہونے کے باوجود اس نے میگا سٹی، کراچی کو مسلسل نظر انداز کیا ہوا ہے۔ اس شہر کا انفرااسٹرکچر تباہی و بربادی کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے، شہر کی کثیر آبادی کو پانی کی عدم فراہمی حکومتی نااہلی کا بین ثبوت ہے".
یہ بات زمینی حقائق پر مبنی ہے کہ عوام پاکستان پارٹی کے تینوں بانی رہنما امیر و کبیر گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن سادہ زندگی کو انہوں نے اپنا شعار بنایا ہوا ہے۔ وہ محنت پر یقین رکھتے ہیں اور اصولوں پر ڈٹ جانے والے سیاست دان ہیں۔ سردار مہتاب عباسی جب خیبر پختون خوا کے وزیر اعلی تھے تو اس زمانے میں بعض امور پر ان کے وزیر اعظم سے اختلافات ہوگئے اور انہوں نے تمام سرد و گرم حالات کا بے خوفی سے مقابلہ کیا۔ شاہد خاقان عباسی نے ملک کے چیف ایگزیکٹو ہوتے ہوئے بھی وزیر اعظم ہائوس میں قیام سے گریز کیا۔
انتہائی قلیل عرصے میں عوام پاکستان پارٹی کی عوامی پذیرائی اور مقتدر حلقوں میں مقبولیت دیکھتے ہوئے بعض اخبار نویس اس کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ روابط کا کھوج نکالنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس پارٹی کا ظہور غیب سے ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عوام پاکستان پارٹی، استحکام پاکستان پارٹی اور پاک سر زمین پارٹی کے قبیلے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس گھٹے ہوئے سیاسی ماحول میں جب ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کو جلسہ کرنے کی اجازت نہیں ملتی، ایک نوزائیدہ جماعت کا بے باکانہ انداز میں پورے ملکی نظام کو چیلنج کرتے ہوئے تبدیلی کے نعرے پر ملکی ادارے خاموش ہیں۔ ان کے تجزئیے کے مطابق یہ جماعت ایسے وقت میں وجود میں آئی ہے جب مختلف سیاسی جماعتیں مقتدر حلقوں پر وسط مدتی انتخابات کے انعقاد کے لئے دبائو ڈال رہی ہیں۔ ملک کے عوام بھی موجودہ حکومت کے مستقبل سے مایوس ہیں۔ لیکن عوام پاکستان کے اکابرین روایتی موضوعات سے ہٹ کر رائے عامہ کی توجہ تعلیم، معیشت اور گورننس کی جانب مبذول کرانا چاہتے ہیں جو عوام کا بنیادی مسئلہ بھی ہے۔ ایک تجزیہ کار نے اس خیال کا اظہار بھی کیا ہے کہ بہت ممکنات میں سے ہے کہ عوام پاکستان پارٹی کو مستقبل قریب میں ملکی سیاست میں کوئی اہم رول تفویض کردیا جائے۔ یہ بھی ممکنات میں سے ہے کہ اس کی قیادت اسٹیبلشمنٹ کے لئے "نیکسٹ چوائس" ہو۔ لیکن پارٹی کے سربراہ شاہد خاقان عباسی اپنی پارٹی کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کسی بھی قسم کے روابط کے مفروضوں کی تردید کرچکے ہیں۔ ہمارے تجزئیے کے مطابق فی الوقت اس پارٹی کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات پر ابہام ہے، عوام پاکستان پارٹی کا ملکی کردار محض تھنک ٹینک جیسا ہے۔ ابھی یہ صرف کراچی یا لاہور میں ہی متعارف ہوئی ہے۔ ملک بھر کے عوام میں اس کا سیاسی پروگرام پھیلانے کے لئے کارکنان کی بڑی ٹیم اور سخت محنت کی ضرورت ہے۔
تبصرہ لکھیے