ہوم << آئی سی یو میں موت کے فرشتے - ڈاکٹر ماریہ جاوید

آئی سی یو میں موت کے فرشتے - ڈاکٹر ماریہ جاوید

موت، عالم نزع یا موت کے فرشتوں وغیرہ کے متعلق جب بھی بات ہو، انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ فوراً گفتگو کا موضوع بدل لیا جائے اور بس کسی طرح ان خوفناک موضوعات کو زیر بحث نہ ہی لایا جائے. بالکل اسی طرح جیسے کبوتر بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتا ہے حالانکہ آنکھیں بند کر لینے سے خطرہ ٹل نہیں جاتا. ہاں اگر کبوتر پوری قوت جمع کر کے اڑ جائے تو بلی اسے حسرت سے دیکھنے کے سوا کچھ نہ کر سکے گی. کچھ یہی حال ہمارا ہے کہ ہم اللہ کی محبت اور فرمانبرداری میں زندگی گزارنے، نفس امارہ سے جنگ لڑنے اور اچھی موت کی دعا کرنے کے بجائے موت سے دشمنی پال لیتے ہیں. اس سے بچنے اور بھاگنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں حتی کہ ایک دن وہ اچانک آ کر دبوچ ہی لیتی ہے.
میرا خیال ہے کہ موت کے فرشتے سے سب سے زیادہ سامنا ایک ڈاکٹر کا ہوتا ہے. ایمرجنسی کے آئی سی یو میں یکے بعد دیگرے اموات ہوتی رہتی ہیں اور موت کے فرشتوں کے شاید سب سے زیادہ چکر یہیں کے لگتے ہیں. ڈاکٹرز کی آنکھوں کے سامنے کسی بہتر ہوتے مریض کی طبیعت اچانک بگڑ جاتی ہے. وہی مریض جو چند منٹ پہلے بات چیت کر رہا ہوتا ہے، بیٹھے بیٹھے بری طرح نڈھال ہو کر بیڈ پر گر جاتا ہے. جسم ڈھیلا پڑ جاتا ہے. آنکھیں ادھ کھلی ہو جاتی ہیں. آٹھ دس ڈاکٹرز فوراً مریض کی طرف بھاگتے ہیں. مریض کے متعلقین (اٹینڈنٹس) کو پیچھے ہٹا کر بیڈ کے ارد گرد سکرین لگا دی جاتی ہے. نرس سے ایمرجنسی ٹرے منگوائی جاتی ہے. ایک ڈاکٹر سانس کی نالی ڈالتا ہے، دوسرا فوراً دل کو پمپ یعنی CPR کرنا شروع کر دیتا ہے. AMBU بیگ کے ذریعے سانس دلایا جاتا ہے. گلے میں جمع ہونے والی رطوبات کو sucker machine کے ذریعے suck کیا جاتا ہے. ایک ڈاکٹر کا ہاتھ نبض پر ہوتا ہے. چونکہ ہاتھوں کی مدد سے مردہ ہوتے دل کو پمپ کروانے یعنی CPR کے لیے بہت ساری ہمت اور طاقت درکار ہوتی ہے، اس لیے ڈاکٹرز باری بدل بدل کر دل کو پمپ کرتے ہیں. اسٹیتھو اسکوپ سے دل کی دھڑکن سننے کی کوشش کی جاتی ہے.
اتنے میں ایک ڈاکٹر مریض کے متعلقین کے پاس جا کر مریض کی بگڑتی حالت کے بارے میں آگاہ کر کے متوقع موت کے بارے میں ان کا ذہن بناتا ہے. مریض کی ECG کی جاتی ہے. ECG میں سیدھی لائنیں آنے پر یہ ساری جدوجہد ترک کر دی جاتی ہے. گہرا سکوت چھا جاتا ہے مگر صرف چند لمحات کے لیے! پھر جیسے ہی مریض کے عزیز و اقارب کو موت کی خبر دی جاتی ہے وہ بے چارے روتے دھوتے اپنے گھر اطلاع دینے اور ایمبولینس کا انتظام کرنے لگتے ہیں. آئی سی یو کے ملازمین میت کی آنکھیں بند کر کے پہلے سے تیار شدہ پٹیوں کی مدد سے اس کے پاؤں کے انگوٹھے آپس میں ملا کر باندھ دیتے ہیں. کھلے منہ کو بھی اسی طرح سر سے پٹی گزارتے ہوئے بند کرتے ہیں اور پھر میت پر چادر ڈال کر اسے اسٹریچر پر شفٹ کر دیا جاتا ہے. اسی اثنا میں اگلے مریض کو لا کر اسی بیڈ پر لٹا دیا جاتا ہے.
میں سوچتی ہوں کہ جب ڈاکٹرز مریض کی جان بچانے کی آخری کوشش کر رہے ہوتے ہیں اور موت بالکل قریب ہی کہیں ہوتی ہے، اس وقت مریض کو تو یقیناً موت کے فرشتے نظر آ رہے ہوتے ہوں گے. اور وہ ہم ڈاکٹرز کے آس پاس کھڑے ہو کر ہی جان نکالتے ہوں گے نا. کس مریض کے لیے کون سے فرشتے آتے ہوں گے؟ خوب صورت شکل والے یا بدصورت و خوفناک شکل والے؟ ڈاکٹرز کی بھاگ دوڑ کی آوازیں سنتے ہوئے اور فرشتوں کو دیکھتے ہوئے مریض کے محسوسات کیا ہوتے ہوں گے؟ یقیناً مومن مریض کا دل پرسکون ہوتا ہوگا. فرشتے اسے خوش خبری دیتے ہوں گے.
’’(ارشاد ہوگا) اے نفس مطمئن! چل اپنے رب کی طرف، اس حال میں کہ تو (اپنے انجام نیک سے) خوش (اور اپنے رب کے نزدیک) پسندیدہ ہے. شامل ہو جا میرے (نیک) بندوں میں. اور داخل ہوجا میری جنت میں.‘‘ (الفجر 27 تا 30)
اور اگر وہ فاجر و فاسق ہو تو خوفناک شکل کے فرشتوں کو دیکھ کر اس کی مایوسی اور بے بسی کا کیا عالم ہوتا ہوگا؟ جیسے سورہ القیامۃ میں ایسی موت کی منظر کشی کی گئی ہے.
’’ہرگز نہیں، جب جان حلق تک پہنچ جائے گی اور کہا جائے گا کہ ہے کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا اور آدمی سمجھ لے گا کہ یہ دنیا سے جدائی کا وقت ہے. اور پنڈلی سے پنڈلی جڑ جائے گی. وہ دن ہوگا تیرے رب کی طرف روانگی کا. مگر اُس نے نہ سچ مانا، اور نہ نماز پڑھی. بلکہ جھٹلایا اور پلٹ گیا. پھر اکڑتا ہوا اپنے گھر والوں کی طرف چل دیا. یہ روش تیرے ہی لیے سزاوار ہے اور تجھی کو زیب دیتی ہے. ہاں یہ روش تیرے ہی لیے سزاوار ہے اور تجھی کو زیب دیتی ہے. کیا انسان نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ یونہی مہمل چھوڑ دیا جائے گا؟‘‘ (القیامہ 26 تا 36)
پھر یہ بھی تو ہے نا کہ فرشتے آس پاس موجود، فی الوقت زندگی جیتے، ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل اسٹاف، مریضوں اور ان کے متعلقین کو دیکھ کر دل ہی دل میں کہتے ہوں گے کہ جلد ہی ہم تمہارے پاس بھی آئیں گے، کہ کوئی ذی نفس ہم سے بھاگ نہیں سکتا، نیک انجام چاہتے ہو تو ابھی وقت ہے، سدھر جاؤ..!

Comments

Click here to post a comment