دسمبر آنے کو تھا اور میں اس خوف سے مرا جارہا تھا کہ پھرمیری دنیا لٹے گی اور میں کسی کام کا نہیں رہ جاوں گا۔ حساسیت کی اوڑھنی اوڑھے دنیا و مافیھا کا خیالی ازدہام میری رگوں میں خون سے بھی زیادہ ضروری ادراکِ ہست و بود پہ حملہ آور ہو گا۔ دسمبر، ہاں دسمبر میری گردن پہ خنجر لگائے گا، میری آنکھوں پہ نیلگوں روشنائی ڈال مجھے یاد داشتوں کے عہد یخ میں ڈھکیل زور زور سے پیچھے کھڑے ہو کر تالیاں بجائے گا۔ دسمبر سے میرا رشتہ انتہائی غمناک ہے اور مزید غم اس بات کا ہے کہ مجھے نہیں معلوم دسمبر میں میرے اوسان خطا کیوں ہو جاتے ہیں، مرا ذہن افیونی مغلظات کا جما ہوا ملغوبہ کیوں بن جاتا ہے۔ میری سوچنے کی تمام تر قوتیں دھراشائی کیوں ہو پڑتی ہیں۔ دسمبر کے دنوں میں میرے سامنے ناسٹیلجیائیت کی بانسری نہ جانے کون بجاتا ہے۔
نہیں یہ نفسیاتی مسئلہ قطعی نہیں، میں نے بارہا یہ بھی سوچا شاید یہ جینیاتی مسئلہ ہو ، مگر یہ معلوم ہوا ، نہیں ایسا بھی نہیں۔ طبیبوں کی بد کہی پر اگر دھیان دیں تو شاید سوداوی مزاجی ایسے ہی ہوتے ہیں۔صوفیوں کی ہدایات پر کان دھروں تو شاید میرے مراتب بلندی کی طرف جاتے جاتے معلق ہو جاتے ہیں۔ حروفیوں اور متن کے کوہان پہ سوار شپرکوں کی کہنا نہیں چاہتا۔ استعاراتی تعبیرات اور فلسفیانہ جال جھنکاڑ میں پھنس کر بھی کسی کو کیا ملنا ہے۔ حسین مناظر یا حسین صورت صرف چہرے کے تاثرات بدل سکتے ہیں، دل میں منقش خوبصورت اور لطیف احساسات کی کشیدہ کاری پر اپنے اثرسے کبھی دوہرانکھار نہیں لا پاتے۔ پچھلے کئی سالوں سے دسمبر یوں ہی گذرتے رہے ۔ میں دسمبر میں کہیں بھی رہوں، سردی والی جگہوں میں یا گرمی والی سر زمین پر اگرسڑکیں نہ ناپوں، گلیوں اور کوچوں میں نہ پھروں تو شاید مر جاوں۔ دشت ادراک میں بارہا روشنی کی ایک پَو پھوٹتی کہ شاید اس مرتبہ کوئی معجزہ ہوجائے اور میں دسمبر کو ڈاج دے سکوں۔ معجزہ کا انتظار کرنے والوں کی آنکھ پھوٹتی نہیں کہ واقعات اور حادثات کی کلیاں چٹک پڑتی ہیں۔
پچھلے چند سالوں میں میری زندگی میں پے در پے سینکڑوں واقعات ہوئے۔ واقعات کی ژالہ باری میں روپوش حادثات کا تانتا بندھنے لگا۔ مجھے معلوم تھا؛دونوں کے پس پردہ مادیت کی دسیسہ کاری گھنگرو پہن کر مجھے جُل دینا چاہتی ہے۔ ہاں، مری جان،مادی حقیقت اگر خیالات اور نظریات سے نہ ٹکرائیں تو دنیا ایک جبری کا ویرانہ نظر آئے وگرنہ اگر آپ کو آپ کا شاہنامہ کھنڈر نظر آتا ہے تو یقینا آپ اپنی نعل کی قدر کے تحت قدریت کی پھسلن پر پیر ضرور رکھ چکے ہیں۔ ہوا یوں، پچھلے سال دسمبر سے ذرا پہلے ایک کمسن بچے سے یونیورسٹی جاتے ہوئے روز سابقہ پڑتا۔ وہ نہ جانے کون سے ترانے گنگناتا رہتا۔ میں نے کئی مرتبہ سننے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ ایک دن مجھے اس بچے کے پاس دیکھ اس کے ماں باپ قریب آئے، میری ان سے ملاقات ہوئی اور استفسار پہ علم ہوا کہ بچے کی والدہ نہیں ہیں، ماں نظر آنے والی اس کی خالہ ہیں۔ میں نے بھی موقعہ مناسب سمجھا اور بچے کے ساتھ کھیلنے لگا، دریں اثناء، اس سے پوچھتا رہا کہ تم کیا پڑھتے رہتے ہو۔ اسنے پڑھ کر سنایا۔ اس کا سنايا ہوا فارسی میں تھا۔ اس نے مزید کہا کہ مری ماں اسے پڑھا کرتی تھی، اور جب بھی میں نغمے دھراتا ہوں ایسا لگتا کہ امی پیچھے کھڑی ہیں۔ مگر اب میری ماں مرچکی ہیں اور میں ان کے پاس جانا چاتا ہوں ۔ میں نے پوچھا کیوں؟
اس نے کہا تاکہ ان سے شکایت کرسکوں تیرے امانت دار گھور خائن نکلے، جنہیں تو نے محبتوں کا قدردان سمجھا تھا وہ محبتوں کے ریاضی داں نکلے۔ میں نے اس سے کہا، ارے ارے، میرے بچے، اچھا جو تم پڑھ رہے تھے مجھے بھی گنگنا کر سناو۔ اس نے پڑھنا شروع کیا۔
اخترم، گوہرم ، یاورم، جان مادرم
غم برم، شھپرم، مادرم جاں مادرم
بہترین دنیا ی من تویی ،
برتر از رویای من تویی،
ای طلوع من زندگانی ام کوثر و طوبی من تویی
دردم و درمان ندارم
روی گلبرگ امیدم
شبنم و باران ندارم
من صدای خاک پایت
صفحه پند و دعایت
در فراز و شیب عمرم
تو همان باشی کفایت
بهترین دنیای من تویی
برتر از رویای من تویی
ای طلوع زندگانیام
کوثر و طوبی من تویی
بال پروازم تویی
قبله رازم تویی
آه، می بالم همه روز
که شب و روزم تویی
بهترین دنیای من تویی
برتر از رویای من تویی
ای طلوع زندگانیام
کوثر و طوبی من تویی
مادرم جاں ،مادرم۔
مجھے تو جیسے اکسیر مل گیا۔ میں نے قدریت کے شیش محل میں پوری قوت سے شور مچانا شروع کردیا۔ آپ نے پتھر پر ایڑیاں رگڑی ہوں گی، میں نے شیشے پہ ایڑیاں رگڑنی شروع کردی۔ اور تقدیر کی مضراب پہ ہولے ہولے لگتی ہوئی چوٹ اپنا اثر آپ دکھانے لگیں۔ماں کی یادداشتوں کو میں نے عید گمان کیا اور خصوصی اوقات اور خصوصی انداز میں ان یادوں کو بھی منانے لگا۔ واہ پھر کیا تھا، ماں کی یادوں کی اوٹ میں دسمبر اپنی تمام تر رگوں کو شل کرنے والی قوتوں کے ساتھ مجھ سے نالاں رہنے لگا۔ مجھے بھی کیا پڑی تھی، میں کوئی عاشق تھوڑی تھا کہ اس کی جدائی میں کھڑے نرخ کا بکرا بنا پھرتا۔ میں نے بھی کہا، سرگے جا۔
کہا جاتا ہے کہ فانی ایک ایسا درجہ ہے جس میں عاشق الہی مبتلا رہتا ہے۔ اس کی چاہ ہوتی ہے کہ مجھ پر دنیا کے عذاب مسلط کردو مگر اس عذاب سے اسے نجات نہ دو جسمیں وہ مبتلا ہے۔ خیر خیر، ماں تو مان ہوتی ہے، ہر کسی کی ماں اس مزعومہ حقیقت کے باوجود کہ عورت عقل و شماریات کے سانچے میں فٹ نہیں ہوتی، وہ بہترین حساب داں ہوتی ہے، ہاں جذبات کے حساب وہ اس انداز سے لگاتی ہے کہ فصلیں جوان ہو جائیں اور جنگلی درندوں کو خبر تک نہ ہو۔ کمالات، فضائل اور کرشموں کے شدھ بدھ کے بغیر ، ہا ہا۔۔۔۔ہاہا۔۔۔ وہ اگورا کی ریاضی داں، قرطبہ کی لبنی، مغرب کی الفہری اور مکے کی فاطمہ الفضیلیہ بن جاتی ہے۔ ۔۔۔نہیں نہیں ، میری ماں کسی بھی طور سے علوم و فنون کی اِن مہان وِبھوتیوں سے کوئی تعلق نہیں رکھتیں۔
ماں، بشرٹ میں بٹن لگواتے ہوئے میں کوئی حرکت کروں تو میری شرارتوں پر خواہ مخواہ دل گیر ہو جاتیں۔ بسا اوقات یوں بھی ہوتا اگر میں ان کو کبھی بھی پریشان کروں تو تجاہل عارفانہ کا اظہار ایسے کرتیں گویا انہیں کوئی فکر ہی نہیں۔ میرے کھانا نہ کھانے پہ مچھلی کی طرح تڑپتی رہتیں۔ جب کبھی وہ رنجیدہ ہوتیں تو انہیں میں کرِومِک؛دو چیونٹیوں کی داستان سناتا اور وہ ہنس پڑتیں۔ یہ عمل تواب بھی جاري ہے مگر کردار بدلا ہوا سا ہے۔ بشرٹ میں بٹن لگواتے ہوائے میں اب بھی شرارتیں کرتا ہوں مگر کوئی پریشان نہیں ہوتا بسا اوقات وجودی رومانس پریشانیون کی جگہ لے لیتا ہے۔ میرے پریشان کرنے پر مجھے روتے بلبلاتے ہوئے اونٹنی کے بچے کو چپ کرانا پڑتا ہے۔ ہاں ایک واقعہ ہو بہو ایسا ہی ہوتا ہے جیسے ماں کے زمانے میں میرے ساتھ ہوتا تھا۔ میرے کھانا نہ کھانے پہ سرمئی پاگل ہوئی پھرتی ہے۔ ماں کی طرح مجھے متنجن تو نہیں دیا جاتا مگر کچھ اچھا بننے پر مجھےبالا خانےپہ چھپنا پڑتا ہے تاکہ مجھ اکیلے کو تین افراد کے برابر شڑاپ نہ کرنا پڑے۔ ماں کی نعمت خانے میں میرے لئے نت نئی چیزیں ہوا کرتیں، اب ان سے متعلق یادداشتیں ہی میرے لئے نعمت خانہ ہے۔ اب رنجیدگی واقع ہو تو کِرومِک کی داستان سے کام نہیں چلتا، مجھے بہروپیا بن کر چاند کی بوڑھیا کی کہانی گڑھنی پڑتی ہے وہ بھی ہر بار نئے خاکوں اور نئے کینوس کے ساتھ۔اب میرے ایام حد سے زیادہ لدے پھندے ہیں۔ دسمبر میرے کمرے کے ایک کونے میں خشمگیں آنکھوں سے مجھے تکتا رہتا ہے۔ یاد ماضی کے عذاب پر جان مادرم کی یاد مکمل حاوی ہو چکی ہے۔ حادثات، واقعات، ابتلاء، رویے، سرخ و سپید ہوتا ہوا خون، باتیں، صلواتیں، ہدایات اور معاشرے کی کرو نہ کرو کی شعبدہ بازی یہ سب گلی کوچوں میں کھلیتے ہوئے بچوں کی طرح میرے گھر کو اپنا ٹھکانہ بنا چکے ہیں۔ مجھے ان کی عادت لگ چکی ہے۔ ہاں، جبر و قدر کاشیش محل بھی میرے احاطے میں چکنا چور ہو کر بکھرے پڑے ہیں۔ میری میز پر چائے صبح آٹھ بجے ہی رکھ دی گئی ہےجو ابھی تک ختم نہیں ہوئی ہے۔ میں سوچ رہا ہوں ، باقی بچے ہوئے تلچھٹ میں آج کس قماش کی بلا گھول کر پیوں۔۔۔۔۔میرے ہاتھوں ایسا نسخہ لگ چکا ہے جو گہرے سے گہرے زخم کو چٹکیوں میں مندمل کردیتا ہے۔
تبصرہ لکھیے