ہوم << قوم مذہب سے ہے. کامران امین

قوم مذہب سے ہے. کامران امین

کامران امین نیشنلزم کےنام پر لوگوں کو دیے جانے والے دھوکوں میں سب سے اہم دھوکہ یہ نعرہ ہے کہ قومیں وطن سے تشکیل پاتی ہیں۔ لیکن تقدیر نے ان لوگوں کے منہ پر طمانچہ مارنےکے لیے روز اول سے ہی الٹا کھیل کھیلا ہے۔ انسان کی 5 ہزار سالہ معلوم تاریخ میں یہ رشتہ اتنا کمزور رہا ہے کہ جب زمین کے ایک ٹکرے نے چارہ اگلنا بند کیا تو انسانوں نے اپنی اس ماں کو خیرباد کہا، بوریا بستر اٹھایا اور نیا وطن بنا لیا۔
حالیہ تاریخ میں قیام پاکستان قومیت پر مذہب کی برتری کا پہلاثبوت تھا جب ایک ہی وطن کے رہنے والے لوگوں نے جن کا اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا اور اوڑھنا بچھونا تقریباً ایک ہی جیسا تھا لیکن صرف مذہب کی بنا پر انہوں نے کہا کہ ہم ساتھ نہیں رہ سکتے اور 2 نئے ملک منصہ شہود پر آئے۔ اس کے ایک سال بعد ہی مذہب کے نام پر ایک اور ریاست اسرائیل نے جنم لیا۔ دنیا بھر میں یہودی کہیں بھی ہو وہ اسرائیل کا شہری ہے، اس کی ساری ہمدردیاں اور سرمایہ اسرائیل کے نام پر وقف ہوتا ہے۔ جدید دنیا میں کئی ایسے ممالک ہیں جن کی تشکیل میں مذہب نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ مقرقی تیمور اور جنوبی سوڈان اس کی واضح مثال ہے جہاں ایک ہی جغرافیائی محل وقوع اور ایک زبان، ایک جیسے رسوم و رواج رکھنے والوں نے ایک وطن میں رہنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ چونکہ تم مسلمان اور ہم عیسائی ہیں، اس لیے ہم ایک ملک میں نہیں رہ سکتے، ہمیں الگ وطن چاہیے۔
برما میں ایک ہی وطن کے رہنے والے مسلمان محض اس لیے شہریت سے محروم ہیں کہ وہ مسلمان ہیں اور حکمران بودھ۔ یہ تو مذہب کی بات تھی، اب تو دنیا میں مسلک کے نام پر بھی ملک بننے لگے ہیں۔ آئرلینڈ صرف اس لیے منصہ شہود پر آیا کہ ان کا مسلک برطانیہ کے سرکاری مسلک سے مختلف تھا۔ عراق میں دولت اسلامیہ کا ظہور اس کی نئی کڑی ہے۔ ان سارے ثبوتوں کے ہوتے ہوئے کون نادان اس بات سے انکاری ہے کہ مذہب قوم کی تشکیل نہیں کرتا؟
سیکولر حضرات قیام بنگلہ دیش کو نیشنلزم کے ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں، اگر بنگلہ دیش کا قیام مذہب کی ہار تھی تو مغربی بنگال اور مشرقی بنگال ایک کیوں نہ ہوگئے؟ صرف اس لیے کہ دونوں خطوں میں لوگ الگ الگ مذہب کے پیروکار ہیں اس لیے باوجود ایک جغرافیائی محل وقع اور ایک ہی زبان ہونے کے دونوں خطے الگ الگ وطن ہیں۔ کیا یہ مثالیں آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی نہیں ہیں؟