نادیہ کو صابرہ پر کبھی ترس آجاتا کبھی غصه. غصہ اس لیے کہ وہ بہت اچھی طرح سمجھ رہی تھی کہ صابرہ کا شوہر خرم اتنا بھی برا انسان نہیں بلکہ وہ تو ایک شریف النفس انسان ہے، جو بیوی کا اتنا غصّہ اور بار بار روٹھ کر میکے چلے جانا برداشت کر لیتا ہے، لیکن بیوی کی مادی فرمائشیں پوری کرنے کی خاطر زیادہ کی لالچ میں حرام کی طرف نہیں جاتا، اور یہ بات اس نے صابرہ کو کئی بار واضح طور پر بتا دی ہے.دوسری جانب صابرہ کی ازلی سستی، گھر کے کاموں میں عدم دلچسپی اور اپنے سجنے سنورنے، گھومنے پھرنے کے شوق کو پورا کرنے کی بے لگام خواہش اس کے شوہر کی تنخواہ سے بہت بڑھ کر ہے تو بیل کیسے منڈھے چڑھے ۔
صابرہ بچپن سے اپنے ابا جی کی بہت ہی لاڈلی تھی ،جب جب اس کی ماں چاہتی کہ یہ گھر کے کام سیکھ جائے تو اس کا باپ ہمیشہ ہی اسے ان کاموں سے روک دیا کرتا تھا کہ میری بیٹی تھک جائے گی. ماں بھی میاں کے سامنے تھوڑی بہت بات ہی کرپاتی تھی کہ آگے جا کر ہماری بچی کو نباہ میں بہت مشکل ہو جائے گی تو وہ کہتا کہ آگے اللہ آسانی کرے گا۔ میری شہزادی تو کسی بڑے گھر میں ہی بیاہ کر جائے گی، جہاں اسے ان چھوٹے موٹے کاموں کو کرنا ہی نہیں پڑے ۔صابرہ اسی سوچ اور تربیت کے ساتھ بڑی ہوتی گئی، باپ اس کے نخرے اٹھاتا رہا، وہ منہ سے کوئی بات نکالتی کہ مجھے فلاں چیز چاہیے اور کبھی اپنی تنگدستی کی وجہ سے وہ پورا نہیں کر پاتا تو پھر صابرہ نیند میں اس بارے میں رونا یا بڑبڑانا شروع کر دیتی تھی. ماں کہا کرتی کہ یہ بڑبڑاتی نہیں ہے مکر کرتی ہے، اور جب اس کو ہنسانا یا جگانا چاہتی تو باپ روک دیتا کہ نہیں میری شہزادی کی نیند خراب ہو جائے گی، مگر اپنی بھوک اور نیندیں قربان کر کے اس کی فرمائش پوری کیا کرتا تھا. صابرہ کے والد اپنی بیٹی کے لاڈ کے سامنے اس کی ماں کی ایک نہیں سنتے تھے، یوں اس کی پرورش میں یہ چیزیں شامل ہوتی چلی گئیں تو وہ ہر ایک سے زور زبردستی اپنا آپ منوانا شروع ہو گئی۔
یہ سب باتیں نادیہ کو اس لیے معلوم تھیں کہ وہ ان کے قریبی رشتہ داروں میں سے تھی۔ اور اکثر صابرہ کی ماں نادیہ کی ماں سے ہی مشورے کیا کرتی تھی۔
رفتہ رفتہ صابرہ کا مزاج سخت سے سخت ہوتا چلا گیا ، زبان اس سے بھی زیادہ تیز ہوتی چلی گئی۔ جب اسے غصہ آتا تو اپنی ماں کو بھی اچھے سے باتیں سنانے سے نہ چوکتی، اور محلے پڑوس میں کبھی کسی سے کوئی بات ہوجاتی تب بھی چھوٹے بڑے کا لحاظ کیے بغیر ان سے خوب لڑا کرتی. رشتہ داروں میں سے کسی کی کوئی بات اسے بری لگتی تو گھر بیٹھے ہی ان کو برا بولتی رہتی اور باپ اس کا ساتھ دیتا رہتا کہ کیسے اپنے حق کی بات کرتی ہے میری بیٹی تو وہ اور شیر ہو جایا کر تی ۔ حتی کہ بعض دفعہ باپ سے بھی بد تمیزی کر جاتی لیکن وہ اسے لاڈ ہی مانتا۔ بہرحا ل تقدیر کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے، ایک دن صابرہ کے والد کا ہارٹ فیل ہوا اور وہ اسے روتا چھوڑ کر دنیا سے کوچ کر گۓ۔
والد کی وفات کے بعد گھر کا سارا بوجھ شوکت کے کاندھوں پر آ گیا۔ وہ ابھی کالج میں ہی تھا، ساتھ ہی سارے گھر کا ذمہ اٹھانا پڑا، اس نے خود سے عہد کر لیا تھا کہ وہ صابرہ کو کبھی بھی باپ کی کمی محسوس نہ ہونے دے گا۔تو باپ کی جگہ شوکت نے لے لی، یعنی ماں جو سمجھتی تھی کہ اب بھی صابرہ کو راہ راست پر لایا جا سکتا ہے، اس کی بیٹے کے سامنے کچھ نہ چل سکی۔ شادی کی عمر ہوئے تک صابرہ کی بدمزاجیوں کے جوہر محلے اور رشته داروں پر اتنے کھل چکے تھے کہ اس سے لوگ رشتہ کرنا تو دور اس کے لیے رشتہ لانے سے بھی ڈرا کرتے. جس قسم کےرشتے خالہ رشتے والی لا رہی تھیں وہ صابرہ کو بالکل بھی پسند نہیں آرہے تھے. پھر جب اس کی عمر تھوڑی بڑھنی شروع ہوئی اور دو چارقریبی لوگوں نے بھی اسے سمجھایا کہ انسان کو اپنے ہی جیسے لوگ ملتے ہیں، تم جس طرح کے خواب سجا کے بیٹھی ہو، ایسا رشتہ مشکل سے ہی ملتا ہے،صبر سے کام لیتے ہوئے اللہ سےامید رکھو کہ شادی کے بعد جیسے جیسے تمھارے شوہر کی ترقی ہوگی تو تم سارے خواب پورے کر لینا، لیکن صابرہ میں کمی صبر ہی کی توتھی۔
صابرہ کو اپنے ہونے والے شوہر کا سوشل اسٹیٹس بالکل بھی پسند نہیں آیا تھا. ہاں اسے شادی کرلینے کا آئیڈیا اس لیے پسند آ گیا تھا کہ پھر اماں جو کہتی تھیں کہ ابھی لپسٹک نہ لگاؤ، ابھی تیار ہو کے باہر نہ جاؤ ،بال نہ کھولو، ان سب باتوں کی آزادی اسے شادی شدہ ہونے کے بعد مل جانی تھی، اسے جہیز کے لیے بہت ساری چیزوں کا شوق تھا، یہ ساری خواہشات اس کے بھائی نے پوری کیں تاکہ صابرہ کو باپ سے محرومی کا احساس نہ ہو . اپنے بہت سے خرچے نظر انداز کر کےاور کئی خواہشات پس پشت ڈال کر شوکت نے بہن کے لیے جہیز تیار کیا ،اس سے بھی صابرہ میں ایک احساس تکبر پیدا ہو گیا تھا. شادی کے دن سے ہی صابرہ نے بہت زیادہ سخت مزاجی اور ترش روی کا مظاہرہ کیا۔ اس کے سسرال سے جب جوڑا آیا تو اس نے غصے میں اس کو اٹھا کے پٹخ دیا اور زیور ایک طرف ڈال دیے کہ یہ کوئی چڑھاوے پہنانے کی چیز ہے،ایسے ہلکے زیور پہنوں گی میں! کم از کم میرے سسرال والوں کو اتنا اور اتنا تو کرنا ہی چاہیے تھا ،معیار اس نے اپنے ذہن میں اتنا زیادہ بلند کر کے رکھا تھا کہ وہ چیز پوری ہو کر نہیں دے رہی تھی۔
صابرہ کو سسرال کی ذمہ داریاں بھی اپنے سر نہیں لینی تھیں۔ اس نے چند ہی دنوں میں الگ گھر لینے کا مطالبہ کر دیا اور اس بات پر روٹھ کر میکے آ گئی، اور تب سے یہ روٹھنا منانا شروع ہوا جو شادی کے دو سال بعد تک بھی جاری رہا، لیکن اس کا شوہر کیونکہ جانتا ہےکہ اس لڑکی کا باپ بھی نہیں ہے، اور یہ غریب گھر کے لڑکی ہے تو وہ جس حد تک رعایت کر سکتا تھا کرتا رہا لیکن اب یوں محسوس ہونے لگا تھا کہ جیسےوہ بھی تھک چکا ہو .
نادیہ سوچ رہی تھی کہ عجیب انتہاؤں پر ہوتے ہیں لوگ، میرے میکے میں بیٹیاں کتنی ہی لائق فائق ہوں، ان کی قدر ہی نہیں، لیکن لڑکا کتنا ہی نکما ہو اسے سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں، جبکہ صابرہ کے کیس میں بیٹی کو سر پر بٹھا کر اسے اپنے ہی گھر میں ٹک کر بیٹھے رہنے کے قابل نہیں چھوڑا۔ کیا میں اپنی ہونے والی بیٹی کو اعتدال سے پال سکوں گی ؟
----------
منیبہ پہروں بیٹھی سوچا کرتی تھی کہ اس کے شوہر نے کتنی محنت سے یہ گھر بنایا، لیکن ساتھ ہی امریکہ کی ایمیگریشن کے لیے بھی کاغذات جمع کروا دیے تھے. وہ بھرا پرا میکہ خاص کر بڑھاپے کو پہنچنے والے والدین کو چھوڑ کر کیسے رہ سکے گی؟ کتنا مزہ آئے کہ ان کے پیپر ریجیکٹ ہو جائیں، اگر ویزہ مل گیا تو کیا وہ عین وقت پر اپنے شوہر کو پاکستان چھوڑ کر نہ جانے کے لیے منا سکے گی؟ کیا کریں گے فیملی کے بغیر ؟ اسے تو سسرال میں بھی مزہ ہی آتا تھا، بس کبھی کبھی دونوں نندوں کی ناسمجھی سے بیزار سی ہو جایا کرتی تھی، وہ بھی اپنے لیے نہیں ان ہی کے بچوں کی تربیت کے لیے.
منیبه نے دبے لفظوں میں پہلے بھی اپنی دونوں ہی نندوں کو الگ الگ یہ بات سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ بلا شبہ ان میں مثالی محبت ہے، اور ان کے شوہر بھی ایک دوسرے کے اچھے دوست ہیں، لیکن آمنے سامنے اپارٹمینٹس میں مزید رہتے رہنا دانش مندی ہرگز نہیں. ایک تو یہ کہ آپا کے بیٹے بڑے ہو رہے ہیں، خالہ کے گھر بلا جھجک پہنچ جانے کی عادت پر ہی کم از کم پابندی ہونی چاہیے، دوسرا یہ کہ نگہت کی بیٹی گو کہ چار پانچ سال کی کمسن بچی ہے لیکن کزنز کے ساتھ سودا سلف لینے تنہا بھیج دیا کرنا دونوں کی اولادوں کے لیے ٹھیک نہیں، لفٹ میں ننھی نادان بچی کزنز کے ساتھ جائے یہ مناسب نہیں.جس پر نہ صرف دونوں بہنیں اس کی ذہنی آلودگی پر برس پڑی تھیں، بلکہ بھائی سے بھی اس کی بیگم کی اس گھٹیا سوچ پر شکایت لگادی تھی، جس پر وقاص منیبه پر بہت برہم ہوا تھا، اور منیبه نے ان بھائی بہنوں کی بے عقلی پر ماتم کرکے اس معاملے سے خود کو الگ کرلینے کا پکا فیصلہ کر لیا تھا، البتہ ساس سسر جو آج کل نگہت کے گھر ہی رہنے گۓ ہوئے تھے، ان تک غالبا یہ ان بن والی باتیں نہیں پہنچائی گئی تھیں، تبھی انھوں نے اس کی پیشی طلب نہیں کی تھی، لیکن ! آج ساس کی طبعیت کی خرابی کا سن کر اس سے رہا نہ گیا،جلدی جلدی پرہیزی کھانا تیار کیا کہ بچوں کے سکول سے واپس لوٹنے سے پہلے ہو آۓ گی.
سرپرائز دینے کی غرض سے بغیر اطلاع دیے منیبہ وہاں پہنچ گئی، لیکن اوپر آکر سوچا کہ اس سے پہلے کہ کوئی کڑوی بات سنائی جائے، خود ہی بڑی آپا کو سلام کرتے ہوئے نگہت کی طرف جانا چاہیے،لیکن دستک کے بعد دروازہ کھلنے پر اسے اپنے غصے پر قابو پانا مشکل لگ رہا تھا.پہلے اسے صرف خدشہ تھا کہ آپا کا بڑا بیٹا راشد کسی فتنے کا شکار ہو چکا ہے، اسی لیے نگہت کی معصوم حنا کو اس کی پہنچ سے دور رکھنا چاہیے، لیکن اس وقت تو اس کے پیروں تلے زمین نکل گئی جب راشد نے بتایا کہ مما تو خالہ جانی کے گھر ہیں، نانو کی خدمت کرنے گئی ہیں. اس نے ڈانٹ کر پوچھا کہ حنا یہاں کیوں ہے؟ تم سکول میں کیوں نہیں؟ تو بڑے سکون سے جواب دیا کہ مامی سکول میں تو پڑھائی ہوتی ہی نہیں، میں گھر پر ٹیسٹ کی تیاری کے لیے رک گیا تھا ….اور یہ حنا موٹلو اپنے گھر میں رہتی کہاں ہے؟ کبھی بلو اسے لے آتا ہے کبھی سنی، کبھی مما بابا بلا لیتے ہیں، سارا دن کبھی کینڈیز کھاتی ہے، کبھی چاکلیٹ، وہاں گھر پر تو خالو جان اسے یہ کھانے سے منع کرتے ہیں نا ….منیبه کو دال میں کالا نہیں دال ہی کالی دکھائی دے رہی تھی، لیکن کس سے کہتی ….شاہد بھائی، ہاں وہ باپ ہیں حنا کے، ان کی غیرت کو جگانا پڑے گا. وہ اپنے ماتھے پر پڑی تیوریوں سے راشد کو باور کروا چکی تھی کہ اسے یوں اکیلے گھر میں حنا کو ساتھ رکھنا سخت ناگوار گزرا ہے. اس نے حنا کا ہاتھ تھامے بہ مشکل ایک قدم ہی پیچھے کیا ہوگا تو خود کو نگہت کے گھر کے سامنے پایا.راشد ساتھ ہی آگیا تھا اور اس سے پہلے ہی بغیر دستک دیے سیدھا گھر کے اندر جاکر بتایا کہ بڑی مامی آئی ہیں.
منیبہ غصے پر قابو پاتے ہوئے سب سے اچھے سے ملی، ساس سے مسکرا کر پوچھا کہ سچ بتائیں کیا بدپرہیزی کی تھی، تو سسر نے ہنستے ہوئے بتایا کہ سب آئسکریم کھا رہے تھے تو ہماری بیگم سے رہا نہیں گیا، اب دیکھو ذرا کتنی تکلیف اٹھا رہی ہیں. منیبه نے پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "امی آپ کو لاسٹ ٹائم ڈاکٹر نے کتنی تاکید کی تھی نا کہ آپ کا جسم بہت کمزور ہو گیا ہے، ٹھنڈی میٹھی کسی چیز کی لالچ میں نہیں آنا، ورنہ صرف شوگر نہیں بڑھے گی بلکہ نمونیہ بھی ہو سکتا ہے " دونوں نندوں نے بہ یک زبان بھاوج کی بات کاٹی بلکہ آپا نے تو قدرے سخت لہجے میں کہا کہ "اللہ کی بندی بات تو اچھی کیا کرو"، جبکہ نگہت نے منمناتے ہوئے کہا "بھابھی برا نہیں مانیے گا لیکن جب سے نیا گھر لیا ہے نا آپ نے، لگتا ہے جیسے سب کو شرمندہ کرنے کا علم اٹھالیا ہے." منیبه ہکا بکا رہ گئی ،نگہت کا شکوہ جاری تھا "میں اکیلے ہی محسوس نہیں کرتی کہ آپ کہیں کہ میں اپنے بھائی کی ترقی سے جلنے لگی ہوں، نقاش بھائی بھی کہہ رہے تھے کہ اب وہ بات نہیں رہی بھابھی کے رویے میں." منیبه کی حیرت میں مزید اضافه ہو گیا تھا کہ اس کے پیٹھ پیچھے وہ نند اور دیور جن کا ہر بھلے برے وقت میں جی جان سے ساتھ دیا، اس کے بارے میں کیا کیا باتیں کرتے ہیں ،مگر شادی کے اتنے عرصے بعد وہ یہ بھی جان چکی تھی کہ ان سب کو صفائی دینے پر یہ مل جل کر کوئی دوسرا الزام اس کے سر ڈال دیں گے، لہذا وہ اس بات کو اگنور کر کے دھیمے سے اٹھ کر ساس کی سائیڈ ٹیبل پر رکھی دواؤں کا جائزہ لینے لگی …پھر ٹھٹھک کر مڑی اور آپا سے پوچھا، "ان دونوں دواؤں کی ایکسپائری ڈیٹ تو بہت نزدیک کی ہے، کس میڈیکل سٹور سے لی ہیں ؟ وقاص تو امی ابا کی دوائیں ہمیشہ اچھے سٹورز سے لیتے ہیں ،ختم ہو رہی تھیں دوائیں تو انہیں فون کر دیتے "- آپا نے چونک کر راشد کی طرف دیکھا کہ اس نے پھر پیسوں میں ڈنڈی مار لی ہے، لیکن بھاوج کے سامنے بہانہ بنادیا کہ ارے یہ تو راشد جلد بازی میں نیچے والی دکان سے پورا پتہ لے آیا، میں ابھی تم سے یہی تو کہنے والی تھی کہ وقاص کو کہہ دینا دفتر سے آتے وقت امی کی دوائیں لیتا آئے. تم بیٹھو چاۓ تو پیو. راشد ماں کی آنکھوں میں قہر دیکھ کر واپس اپنے گھر ٹیسٹ کی تیاری کرنے چلا گیا .
(جاری ہے)
تبصرہ لکھیے