جامعہ کی فضا میں جدائی کی ہلکی سی اداسی تیر رہی تھی۔ ان کے درسِ نظامی کے چھ سال یوں بیت گئے جیسے کوئی خوبصورت خواب تھا، جس کی تعبیر آج ہاتھ میں تھی، مگر دل کے کسی گوشے میں ایک خالی پن تھا.کچھ کھو دینے کا، کچھ چھوٹ جانے کا احساس۔
آج ان کا آخری پرچہ تھا، مگر دل میں عجیب سی کشمکش تھی۔ پپیروں کے دنوں میں، میں ان کے پاس نہ رہ سکی، مگر دل ہر لمحہ ان کی طرف اٹکا رہا۔ آج جب میں نگرانی سے واپس جامعہ پہنچی، تو وہاں کی فضا بدلی بدلی سی لگی۔ راہداریاں خالی ہو رہی تھیں، بستے اور کتابیں سمٹ رہی تھیں، جیسے یہ جگہ خود ہماری جدائی کا نوحہ پڑھ رہی ہو۔ قدم بوجھل تھے، جیسے دل بھی ان لمحوں کو تھامے رکھنا چاہتا ہو۔ جونہی میں گول صحن میں پہنچی، میری منتظر خدیجہ اور اقرا مجھے دیکھ کر خوشی سے کھل اٹھیں۔ چمکتے چہرے، چمکتی آنکھیں، معصوم مسکراہٹیں لیے میرے سے سلام لیا پھر ہماری مختصر سے گفتگو ہوئی۔میں ان دونوں کے ساتھ ماریہ کو نہ دیکھ کر اداس ہوئی اور پوچھا تو خدیجہ نے بتایا کہ وہ ضروری کام سے گھر گئی ہے۔
عصر سے پہلے میں نے تینو ں کو اپنے پاس بلایا اور ہم ملاقات کیلیے چھت پر چلے گئے۔کھلا آسمان، نرم سی ٹھنڈی ہوا، دور پرندوں کی چہچہاہٹ اور ہم سب کی بے تکلف ہنسی... یہ ایک ایسا لمحہ تھا جو ہمیشہ کے لیے دل میں نقش ہو جانے والا تھا۔ ننھی خدیجہ پرندوں کو دیکھ کر خوش ہو رہی تھی، ہاتھ ہلا ہلا کر ان کی طرف اشارہ کر رہی تھی۔ ماریہ اور اقرا شرارتوں میں مصروف تھیں، اور میں بس یہ سب منظر دل میں قید کر رہی تھی۔ کاش! وقت تھم جائے، یہ لمحے ہمیشہ کے لیے ٹھہر جائیں۔لیکن وقت تو رکتا نہیں۔
سورج غروب ہوتا جا رہا تھا۔نماز کا آخری وقت شروع ہونے کو تھا تو میں نے کہا ہم نماز پڑھتے ہیں،باقی کی باتیں بعد میں ہوں گی۔ جیسے ہی میں نے نیچے جانے کو کہا ، ننھی خدیجہ نے ننھی آواز میں کہا،
"بس کچھ دیر اور!"
ایک لمحے کو میں اس کی آنکھوں میں دیکھتی رہ گئی.چمکتی، التجا کرتی آنکھیں—مگر میں دل پر پتھر رکھ کر نیچے آ گئی۔ان سب نے نماز پڑھی، اور میں نماز کے بعد باجیوں کے ساتھ چائے پیتے ہوۓ خوش گپیوں میں مصروف ہو گئی۔سورج غروب ہو گیا،دن ڈھل گیا اور دل میں اداسی بھرنے لگی۔
مغرب کے وقت باجی حفصہ کے گھر جانا ہوا، جہاں ایک بار پھر خدیجہ سے ملاقات ہوئی۔ اس کو میں نے چوزے دکھائے وہ چوزوں کو دیکھ کر خوشی ہو رہی تھی، مگر اس کی آنکھوں میں ایک شکوہ سا تھا۔ جب میں جانے لگی، تو اس نے وہی دل چیر دینے والے الفاظ کہہ دیے:
"ہم اب آپ کے پاس نہیں آیا کریں گے، آپ ہماری وجہ سے پریشان ہوتے ہیں۔"
(یہ شکوہ ہماری عصر والی ملاقات کے دوران ہونے والی میری ایک انہونی بات کا نتیجہ تھا) .یہ جملہ میرے دل پر بجلی بن کر گرا۔ آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے، مگر میں خاموشی سے آگے بڑھ گئی۔ خدیجہ کو شاید اندازہ ہو گیا تھا کہ میں خفا ہو چکی ہوں، اس لیے وہ بے چین ہو کر کبھی ماریہ، کبھی اقرا کے پاس جا رہی تھی، جیسے کسی طرح مجھے منالے۔
کافی دیر بعد، جب میں اسٹاف روم سے نکلی، تو سامنے وہی ہنستی مسکراتی طالبات تھیں، جیسے جگنو کسی سنسان رات میں روشنی بکھیر رہے ہوں۔ میری نظر ننھی خدیجہ پر پڑی، جو جھولے میں لیٹی مزے سے جھولا جھول رہی تھی اور ہنس رہی تھی۔ میں نے شرارت سے رباب کو اشارہ کیا، اور اس نے جھولا چھوڑا اور میں نے جھلانا شروع کر دیا۔ خدیجہ کی کھنکتی ہنسی دلربا باتیں اور باقی سب کے قہقہے میرے دل کی تمام رنجشوں کو بہا لے گئے۔پھر رات کے اس وقت میں جب چاندنی ہر سو پھیلی ہوئی تھی، ہلکی ٹھنڈی ہوا روح کو چھو رہی تھی، اور ہم سب تیسری منزل پر جا پہنچے۔ پھر وہی ہنسی، وہی محبت کے لمحے، وہی بے ساختہ قہقہے۔ وقت جیسے رک سا گیا تھا۔
لیکن اچانک، باجی صدیقہ کی ناراضگی کی خبر ملی کہ ہماری آوازیں نیچے تک جا رہی ہیں۔ سب طالبات اپنے کمروں کی طرف لوٹ گئیں، مگر میں اور میری تین عزیز ترین طالبات دوسری منزل پر رک گئے۔ وہاں پھر وہی محبت بھری باتیں، شرارتیں، اور خدیجہ کی معصوم شرارت کہ اس نے میرے بالوں میں پونی لگائی۔کچھ دیر بعد، باجی فاطمہ آئیں اور یہ لوگ کمرے میں چلی گیں۔رات کا آخری پہر، محبت کی آخری ساعتیں .... آخر کار، سب اپنے بستروں میں چلے گئے۔ میں بھی اسٹاف روم میں جا لیٹی، مگر دل کہہ رہا تھا کہ یہ ملاقات ابھی مکمل نہیں ہوئی۔ میں نے رباب سے کہا کہ چپکے سے خدیجہ، ماریہ اور اقرا کو بلائے۔
رات کے گیارہ بجے، ہماری آخری ملاقات ہوئی. خاصہ اول کے کمرے کے باہر چارپائی بچھی تھی، اور ہم سب اسی پر سمٹ کر بیٹھ گئے۔ ٹھنڈی ہوا سرسرانے لگی، رات کے سناٹے میں ہماری سرگوشیاں گونجنے لگیں۔ اقرا نے میرے بالوں میں نرم نرم ہاتھوں سے مالش کی، جیسے تھکن اتار رہی ہو۔ ماریہ اور خدیجہ قریب آ کر بیٹھ گئیں، تیل لگوانے کے بعد ہم نے رشین سیلڈ کھاتے ہوئے خوب شرارتیں اور خوب باتیں کی۔ ہمارے پاس ایک ہی فلیس تھا، ٹھنڈ شدید تھی، اس لیے سب ایک دوسرے سے لپٹ کر بیٹھے رہے۔ شرارتیں، چٹکیاں، ہنسی مذاق—یہ رات، یہ لمحات جیسے ہمیشہ کے لیے ہمارے دلوں میں نقش ہونے والے ہوں۔
وقت گزرتا جا رہا تھا لیکن دل کہہ رہا تھا کہ وقت تھم جائے۔ لیکن وقت تو چلنا تھا، چل پڑا۔ یہ ہماری محبتوں اور خلوص کی آخری رات تھی، جسے ہم نے یادگار بنا دیا۔ یہ رات، یہ لمحے، یہ محبت بھری یادیں—یہ سب ہمیشہ میرے دل میں زندہ رہیں گی۔ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی ہوں کہ میری یہ تین معصوم کلیاں ہمیشہ کھلکھلاتی رہیں، ان کے علم و عمل میں برکت ہو، اور یہ محبتیں کبھی ماند نہ پڑیں۔ آمین۔
یہ لمحے یہ راتیں، یہ خوابوں کی باتیں
یہ بچھڑنے کی ساعت، یہ روتی نگاہیں
زمانہ ہمیں پھر ملائے نہ ملائے
یہ یادیں رہیں گی، یہ باتیں رہیں گی
تبصرہ لکھیے