مطلقہ خواتین سے نکاح کرنا ایک پاکیزہ فعل ہے. نکاح کے ذریعے نسب بھی پاکیزہ اور محفوظ رہتے ہیں، اسی لیے اسلام نے اسے نیکی کا درجہ عطا کیا ہے. اسلام میں مطلقہ ہونا کوئی عیب نہیں، اور نہ ہی مطلقہ سے نکاح کرنا کوئی معیوب بات ہے. رسول اللہ ﷺ نے ام المؤمنین حضرت زینب سے نکاح فرمایا اور اللہ تعالی نے اس نکاح کرانے کو اپنی طرف منسوب فرمایا . واضح رہے طلاق یافتہ یا خلع یافتہ خاتون کو معیوب سمجھنا ہندوانہ سماج کی ناپسندیدہ رسم ہے، لہٰذا اسلام میں کسی مطلقہ عورت کا دوسری شادی کرنا کوئی معیوب بات نہیں، ایسی خواتین کو دوسری شادی ضرور کرنی چاہیے.
رسول اللہ ﷺ نے مطلقہ اور بیوہ سے نکاح کرکے اس نظریے کو جڑ سے ختم کردیا کہ عورت کے لیے متعلقہ ہونا کوئی عیب کی بات ہے. شریعت کے مطابق ایسی خواتین کو دوسری شادی ضرور کرنی چاہیے. بیوہ، طلاق یافتہ یا خلع یافتہ خواتین سے شادی کرنا زیادہ افضل ہے، کیونکہ یہ عورت کا تحفظ ہے اور ایسی خواتین کو معیوب سمجھنا ہمارے معاشرے کی نحوست ہے۔کسی بھی عورت کے لیے دوسری شادی کر کے اپنی زندگی کا نیا آغاز کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ یہ کوئی نئی بحث نہیں ہے۔ لیکن جب بھی کوئی عورت دوسری شادی کرتی ہے اور زندگی کو پھر سے جینے کی کوشش کرتی ہے تو ہمارے معاشرے کا دوہرا معیار نظر آتا ہے۔
بے شک آپ اپنی زندگی میں خوش ہوں، آپ کامیاب ہیں، آپ بہت سی ایسی چیزیں کر رہی ہیں، جو دوسرے نہیں کر پاتے لیکن معاشرہ آپ کو بار بار یہ بات یاد کراتا ہے تو آپ خود بھی محسوس کرنے لگتے ہیں کہ شاید مجھ میں کوئی رہ گئی ہے، اور لوگ یہی چاہتے ہیں کہ آپ اس کمی کو محسوس کریں، لوگ آپ پر ترس کھاتے ہیں کہ آپ کو طلاق ہو گئی، زیادہ تر خواتین طلاق کے بعد سمجھتی ہیں کہ اب بس سب ختم ہو گیا، لیکن ایسا نہیں ہےناکام شادی کا مطلب ناکام زندگی نہیں بلکہ زندگی کے پاس آپ کے لیے ہمیشہ کچھ نہ کچھ ہوتا ہے، آپ کو صرف اسے حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔عورت کو چاہیے کے وہ خود اپنی حوصلے افزائی کریں. ایسی ہی کچھ باہمت خواتین سے کچھ سوالات کیے جو اپنی زندگی کو پھرسےجینے کی جستجو میں مصروف عمل ہیں
طلاق کے بعد خود کو کیسے سنبھالا؟
کیسے معاشرتی رویوں کا سامنا کرنا پڑا؟
شادی شدہ زندگی میں وہ مقام کب آیا جب آپ نے فیصلہ کیا بس اب بہت ہوگیا اس سے زیادہ اور نہیں؟
کن رشتوں نے سہارا دیا کس نے چھوڑ دیا؟
پہلے اور موجودہ زندگی میں کونسی زیادہ بہترلگی؟
اپنے فیصلے پر پچھتاوا ہوا کبھی؟
وہ کون سےمسائل ہوتے ہیں جو کسی عورت کو یہ کرنے سے روکتے ہیں؟
بچوں پر کیا اثرارت مرتب ہوۓ مثبت یا منفی؟
ہمارا معاشرہ عورت کی دوسری شادی کو معیوب کیوں سمجھتا ہے جبکہ اسلام میں اس کی کوئی ممانت نہیں؟
کیا ایک خاتون کی کامیابی کے لیے اس کا شادی شدہ ہونا ضروری ہے، غیر شادی شدہ یا طلاق یافتہ خواتین کو کس قسم کے معاشرتی رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کیا سنگل خواتین خود کو کامیاب سمجھتی ہیں یا نہیں؟
کم عمری میں زندگی کے اس تلخ تجزبے سے گزرنے والی ماہر نفسیات علینہ ارشد کہتی ہیں:
کبھی بھی خاتون یہ اسٹیپ نہیں لیتی، اسے یہ اسٹیپ لینے پر مجبور کیا جاتا ہے، کسی نہ کسی وجہ سے وہ ہمیشہ خاموش ہو جاتی ہے، لیکن اگر وہ اسٹیپ لیتی ہے تو اس کے پیچھے بہت ساری موٹیویشن چاہیے ہوتی ہے، مستقبل کے بارے میں سوچتے ہوئے اگر وہ یہ فیصلہ کرے تو کبھی بھی یہ فیصلہ نہیں کرے گی، اگر اتنی ہمت جوڑتی ہے تو معاشرے کو چاہیے کہ اسے سپورٹ کرے تاکہ وہ آنے والے وقت میں ایک بہتر مستقبل اور بہترین قوم کو تشکیل دے سکے. آج کی عورت کو لگتا ہے کہ وہ ہر کام کر سکتی ہے اور بلاشبہ عورت مضبوط ہوتی ہے لیکن ہماری سوسائٹی اور ہمارا معاشرہ میل ڈومینیٹ ہے، مردوں کے اس معاشرے میں عورت کو اپنا مقام ڈھونڈنے کے لیے بہت زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے. اگر ایک عورت اپنے لیے کچھ کر رہی ہوتی ہے تو مردوں کو لگتا ہے کہ عورت تو کمزور ہے، وہ اتنی بہادر کیسے ہو گئی ہے، تو پھر یہ پورا معاشرہ مل کر اس کو خراب کرنے کی جستجو میں لگ جاتا ہے. دوسری چیز یہ کہ دیکھا گیا ہے کہ عورت ہی عورت کی سب سے بڑی دشمن ہوتی ہے، دوسری عورت جینا زیادہ حرام کرتی ہے پھر چاہے وہ بحثیت نند ہو، ساس ہو ، یا لیڈی باس کسی کمپنی میں، آپ کی کولیگ ہو یا کچھ اور، مقابلے میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے ایک دوسرے کا جینا حرام کر رہے ہوتے ہیں. ہمارے معاشرے میں طلاق اور خلع کو ایسا موضوع بنا دیا گیا ہے کہ جس پر طلاق اور خلع یافتہ لڑکیاں بات نہیں کرنا چاہتیں. مجھے لگتا ہے کہ زندگی اتنی مشکل نہیں ہےجتنی ہم نے بنادی ہے. اگر آپ اسلام کے دور کی بات کریں، نبی اکرمﷺ کے دور کی بات کریں، تو اگر میاں بیوی میں نہیں نبھ رہی تو آپس میں بات چیت کر کر الگ راستہ اختیار کر سکتے تھے، لیکن اگر موجودہ معاشرے کی بات کریں تو اتنا پریشر ہوتا ہے کہ آدھی سے زیادہ لڑکیاں اس دباؤ میں آ کر اپنے شوہر کو نہیں چھوڑ پاتیں کہ اس کے بعد ان کی زندگی کا وجود نہیں رہے گا، لوگ ہمیں تنقیدی نگاہ سے دیکھیں گے اور پھر جانے زندگی اس کے بعد ختم ہو جائے گی، جبکہ ایسا نہیں ہوتا.
معاشرتی رویے بہت تکلیف دیتے ہیں، اکثر لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ افسوسناک ہے کہ تمھیں طلاق ہوگئی، تمھاری عمر ہی کتنی ہے، تم نے ابھی دیکھا ہی کیا ہے، پوری زندگی پڑی ہے، اتنا لمبا سفر ہے، اب تمھاری شادی کیسے ہوگی، کون تم سے شادی کرے گا؟ ایسی بہت سی باتیں تھیں، جن سے میں یہ سوچنے پر مجبور ہوئی کہ جانے خلع لیکر مجھ سے کون سا گناہ اور جرم ہوگیا؟ جہاں تک شادی کا تعلق ہے تو جب آپ کسی کے ساتھ اپنی زندگی اور اوقات شیئر کرتے ہیں تو اس شخص کی زندگی کا پتہ چلتا ہے، میری زندگی میں وہ مقام بہت کم عرصے کے لیے آیا، ساتھ وقت صرف نہیں کیا، لیکن پھر بھی کچھ باتوں سے مجھے پتہ لگنا شروع ہو گیا اور جب باتیں عزت نفس سے دور چلی گئیں، اور اس شخص نے میری عزت اور توقیر کو پیچھے رکھنا شروع کر دیا تو پھر مجھے لگا کہ اب وقت آگیا ہے کہ راستوں کو الگ کر لینا چاہیے. والدین نے سہارا دیا، میری فیملی نے بہت سہارا دیا، الحمدللہ چھوڑا کسی نے بھی نہیں، کیونکہ سب کو معلوم تھا کہ کیا ہوا ہے، کس طرح ہوا ہے اور کس کی غلطی تھی؟ سب نے سپورٹ کیا. پہلے اور موجودہ کی زندگی میں مجھے اب کی زندگی زیادہ بہتر لگتی ہے کیونکہ میں نے حالات سے گھبرا کر ڈپریشن میں جانے والی فیز کو بہت پیچھے چھوڑ دیا. ایک وقت آیا تھا کچھ عرصے کے لیے، لیکن اللہ نے ہمت و حوصلہ دیا، اس سے نکلنے کی کوشش کی اور الحمدللہ آج میں نے خود پر کام کرنا شروع کیا ہے، اپنی خود کی گرومنگ پر کام کرنا شروع کیا ہے پرسنلی بھی اور پروفیشنلی بھی، پھر اللہ کے کرم سے اس کو زیادہ کرتی جا رہی ہوں. اللہ آپ سے کوئی ایک چیز لیتا ہے تو اس کے بدلے میں آپ کو کوئی بہتر چیز دیتا ہے، تو وہ یہی بہتر چیز ہے جو اب اللہ پاک نے مجھے دی ہے، اس کے بدلے میں مجھے اتنی کامیابیاں دی ہیں کہ اس کا شکر ادا نہیں کرسکتی .
مجھے اپنے فیصلے پر پچھتاوا کبھی نہیں ہوا ، نہ ہی میں کبھی پچھتاؤں گی، ان شاء اللہ ایسا موڑ نہیں آئے گا کہ مجھے اس پر پچھتانا پڑے . بہت سے مسائل ہیں جو خاتون کویہ فیصلہ لینے سے روکتے ہیں، جس میں سب سے پہلے ہماری سوسائٹی کا پریشر ہے، والدین کا پریشر بھی ہوتا ہے، خاص طور پر جب بچے ہوں تو بچوں کا پریشر بہت ہوتا ہے کہ ان کا کیا ہوگا، ان کے مستقبل کا کیا ہوگا ؟ والدین کو لیکر انسان سوچتا ہے کہ والدین نے مشکل سے شادی کی ہے، جب وہ یہ سنیں گے تو ان پر کیا گزرے گی اور کس طرح سے گزرے گی؟ وہ یہ صدمہ برداشت کر پائیں گے یا نہیں؟ میرے اس فیصلے کا میرے چھوٹے بہن بھائیوں کی زندگی پر کیا اثر ہوگا؟ خاندان والے مجھے کیسے سمجھیں گے؟ میرے گھر والوں کو میرے والدین کو کیسے سمجھیں گے؟ تو یہ عوامل ایک خاتون کو اتنا بڑا قدم اٹھانے سے روکنے پر مجبور کرتے ہیں.
ہمارے معاشرے میں دوسری شادی اس لیے بھی معیوب سمجھی جاتی ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر لڑکی نے خلع لی ہے تو بس پھر وہ بہت ہی کوئی پہنچی ہوئی چیز تھی، اپنے آپ کو پتا نہیں کیا سمجھتی تھی کہ اس نے لڑکے کو دبا کے رکھنا چاہا، وہ نہیں دبا تو بس پھر اس نے سوچا کہ میں خلع لے لیتی ہوں. اگر لڑکی کو طلاق ہو جائے تو پھر بھی لڑکی غلط ہوتی ہے، یا تو اس کے کردار میں نقص نکل آتے ہیں، یا اور بہت ساری خامیاں ہیں. لوگوں کو لگتا ہے کہ ہر حال میں غلطی عورت کی ہوتی ہے، کیونکہ عورت چاہے تو گھر بنا سکتی ہے اور چاہے تو گھر توڑ سکتی ہے، تو بس اس لیے معیوب سمجھا جاتا ہے. پھر اگر وہ عورت دوسری شادی کرلے تو کہا جاتا ہے کہ اسے تو کرنی دوسری شادی تھی، اس کو کوئی اور پسند تھا، اس کی وجہ سے اس نے پہلے والے کو چھوڑ دیا، پتا نہیں اپنے آپ کو کیا سمجھتی ہے. اس طرح کی مختلف باتیں مختلف چیزیں جو ہمارے معاشرے میں سننے کو ملتی ہیں.
میرے خیال میں خاتون کی کامیابی کےلیے شادی شدہ ہونا ضروری نہیں. کہا جاتا ہے مرد کی کامیابی کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے، تو مجھے لگتا ہے کہ عورت کی کامیابی کے پیچھے بھی ایک مرد کا ہاتھ ہوتا ہے. وہ مرد اس کا باپ ہو سکتا ہے، شوہر ہو سکتا ہے، بھائی بھی ہو سکتا ہے. آپسی معاملات باہمی تعلقات اچھے ہوں گے، ایک دوسرے کو سمجھنے والے ہوں گے، ایک عورت کے ٹیلنٹ کو سمجھیں گے، اس کو تھوڑا سا پالش کریں گے تو وہ عورت دنیا کی ہر بڑی سے بڑی طاقت اور بڑی سے بڑی چیز سے لڑجائے گی. پھر آپ اس کو سپورٹ بھی کرتے ہیں، بہت سی ایسی عورتوں کا آپ نے سنا ہو گا کہ انھوں نے اپنا نام بنایا. اکیلی عورت بھی کامیاب ہو سکتی ہے، وہ کوشش کرتی ہے، جدوجہد کرتی ہے. ایسی سنگل خواتین برے حادثات و تجربات کے بعد سمجھتی ہیں کہ اب شادی نہ ہی کریں تو بہتر ہے. بطور ماہر نفسیات میں دیکھوں تو ہمارے ہاں سب سے بڑا مسئلہ طاقت کے اظہار کا ہے. ہمیں لگتا ہے کہ مرد اپنی طاقت کا اظہار بہتر کر سکتا ہے، عورت کے پاس طاقت نہیں ہوتی، وہ اتنی مضبوط نہیں ہوتی. آپ دیکھیں اگر عورت کے پاس پاورہے تو اس کے سامنے کوئی مرد نہیں ٹک سکتا ، جہاں پر پاور ہے وہاں پر طاقت ہے اور وہیں پر سارا زور چلتا ہے .
ایک بین الاقوامی ادارے میں اعلی عہدے پر فائز بشری کہتی ہیں
جب بھی کوئی عورت اس طرح کا قدم اٹھانے کا سوچتی ہے تو معاشرتی طور پر اس کو بہت زیادہ پریشرائز کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے وہ رک جاتی ہے. بہت کم مضبوط عورتیں ہوتی ہیں جو اس طرح قدم اٹھاتی ہیں. میرا سنبھلنا آسان تھا، کیونکہ میں ایک مضبوط عورت تھی، جاب کر رہی تھی اور مجھے فنانشل اس طرح کے مسائل نہیں تھے کہ مجھے دوسروں سے مانگنا پڑتا یا مجھے گھر کے اندر بالکل قید ہو کر بیٹھنا پڑتا، اور اپنے ارد گرد لوگوں کے سوالوں کے جوابات دینے پڑتے. میں ایک انڈپینڈینٹ لائف گزار رہی تھی، اس وجہ سے میرے لیے اتنی زیادہ مشکلات نہیں ہوئیں. دوسری بات یہ ہے کورٹ کچہری کے بہت زیادہ چکر نہیں لگانے پڑے. معاشرتی رویوں کا سامنا اس طرح سے کیا کہ کسی شادی یا دیگر تقریبات میں نہیں جاتی تھی، انوائٹ ہوتی تھی لیکن پھر بھی نہیں جاتی تھی میں اپنی آفس کی مصروفیات کا بہانہ کرکے، کیونکہ مجھے پتا تھا کہ ہمارے لوگوں کی کیا سوچ ہے. بہت عرصہ تک تو بتایا ہی نہیں فیملی میں، جب کسی کو پتہ ہی نہیں تھا کہ عدت گزار رہی ہوں تو اس لیے کسی نے کوئی بہت زیادہ سوال ہی نہیں کیا. اس کے بعد جاب شروع کر دی تو پھر بہت عرصے کے بعد لوگوں کو پتہ چلا، تب تک میں معاشرتی طور پر بھی معاشی طور پر اپنے آپ کو مستحکم کرچکی تھی، اس وجہ سے مجھے بہت زیادہ پرابلم کا سامنا نہیں کرنا پڑا. شادی کے تقریبا پانچ سال کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ بس اب اس چیز کو آگے نہیں کرنا چاہیے. چھوٹے شہر سے بڑے شہر میں چلی گئی، وہاں جاکر میں نے جاب شروع کر دی، خلع کا پرسیس شروع کیا، سہارا کسی بھی رشتے نے نہیں دیا، جب دیکھا کہ یہ خود مضبوط ہے تو سب ٹھیک ہو گئے. مجھے اپنا سہارا خود ہی بننا پڑا. اب کی زندگی بہت بہتر ہے اور بہت اچھی ہے ماشاء اللہ. کبھی بھی بچھتاوا نہیں ہوا اپنے فیصلے پر، مجھے معلوم تھا کہ میری زندگی ایک شادی نہیں بلکہ معاشی خودمختاری بچا سکتی ہے۔ میرا یہ ماننا ہے کہ شادی یا کسی مرد کا آپ کے ساتھ ہونا آپ کی کامیابی کی ضمانت نہیں۔ میں بہت ساری سنگل خواتین کو جانتی ہوں جو اپنی فیلڈ میں کامیاب ہیں، شادی ہونا نہ ہونا کامیابی کی ضمانت نہیں ہے.
دین اور دنیا دونوں علم سے سرفراز لیکچرر ام ابرہیم کہتی ہیں
بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو مثبت بات کرتے ہیں یا مثبت رویے کا اظہار کرتے ہیں. زیادہ تر لوگ منفی باتیں کرتے ہیں، طلاق یافتہ خواتین کے اندر ہی خامیاں نکالی جاتی ہیں. میں نے خود خلع لینے کے بجائے فیصلہ اللہ پر چھوڑ رکھا تھا کہ وہ خود ہی میری زندگی کا فیصلہ کر دیں. اس کا مجھے علم نہیں تھا کہ کیا ہوگا، میں نے استخارہ کرکے اپنے دل کو مضبوط کر لیا تھا، اور دعاؤں، نماز اور تلاوت قرآن سے بہت مدد ملی. اپنوں اور غیروں کی بہت سی باتیں، تبصرے، نامناسب جملے سننے کو ملے لیکن میں کیونکہ ذہنی طور پر ہر طرح کے حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار تھی. مجھے خود پر بھروسہ تھا، اپنی ذات اور کردار پر اعتماد تھا .
اسلام چونکہ باپ پر بچے کی ذمہ داری کی کفالت ڈالتا ہے. اگر ماں طلاق یا خلع کے بعد بچے کو اپنے پاس رکھے تو اکثر باپ اپنے بچوں کے اخراجات کی کفالت کی رقم دینے میں کنجوسی کرتے ہیں، تاکہ بچہ اپنی ماں کے پاس تکلیف میں رہے اور ماں مجبور ہوکر باپ کے حوالے کردے. اکثر لوگ طلاق ہونے کے بعد عورت کو ہی زیادہ ذمہ دار سمجھتے ہیں، ان کے خیال میں ہر حال میں کمپرومائز کرنا سمجھوتہ کرنا ہی بہتر ہوتا ہے. شوہر کا کسی دوسری عورت کے ساتھ تعلق کیوں نہ ہو. لوگ کہتے ہیں نظر انداز کردو، برداشت کر لو. شوہر جیسا بھی ذہنی اور جسمانی طور پر ٹارچرکرے، اس کو بچوں کے لیے برداشت کرنے کو کہا جاتا ہے. جب طلاق دینے والا شوہر دوسری شادی کرلے تو لوگ کہتے ہیں کہ اس نے دوسری شادی کر لی، وہ تو سکون اور آرام سے زندگی گزاررہا ہے . اب یہ تو اللہ ہی جانتا ہے کہ کس کی کتنی غلطی تھی اور کس نے کتنا کچھ برداشت کیا ؟ میں نے اللہ پر بھروسہ کیا،بچے کی خاطر صبر و برداشت کرکے اپنی طرف سے رشتے کو نبھانے کی پوری کوشش کرتی رہی، لیکن جب شوہر کا دوسری عورت کو گھر میں لانے کا پتہ چلا اور دوستوں کے ساتھ غیر ضروری حرکات کا علم ہوا، تو اللہ سے مدد مانگی. بچے کی بیماری کی وجہ سے فائنل فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی، اسی لیے فیصلہ میں نے اللہ پر چھوڑ دیا. جب شوہر بچے کو مجھ سے چھین کر لے گیا ، تین دن تک الگ رہا، بچے کو ماں سے الگ رکھا، اور کہا کہ میں تمھیں طلاق دے رہا ہوں تو میں نے کہا کہ میں شکرانے کے نفل ادا کروں گی. استخارہ تو میں تین دن سے کر رہی تھی کہ کوئی اچھا فیصلہ ہو جائے جو میری اور میرے بیٹے کی زندگی کے لیےبہتر ہو. اللہ سے رشتہ مضبوط تھا، اللہ کی یاد نے سب سے بڑا سہارا دیا. ماں باپ بھائی بہن، سب نے ہر لحاظ سے سپورٹ کیا، جذباتی اور مالی لحاظ سے بھی ساتھ دیا. بچے کی کسٹڈی کے لیے قانونی کارروائی میں ہر طرح کا ساتھ دیا. کچھ لوگوں نے باتیں بنائیں لیکن زیادہ تر نے ساتھ دیا .
الحمدللہ موجودہ زندگی بہت زیادہ بہتر ہے. اللہ تعالی کا وعدہ ہےکہ صبر کرنے والوں کو اجر عطا فرماتا ہے. دل کو مطمئن کر لیا تھا اور اب بھی دل مطمئن ہے، الحمد للہ. بچوں کی کفالت کیسے کریں گے؟ یہ کہہ کر خواتین کو طلاق یا خلع سےروکا جاتا ہے. بچے چھوٹے ہوتے ہیں، ان کو ماں باپ دونوں کی ضرورت ہوتی ہے، طلاق یا خلع کی صورت میں ذہنی اور جسمانی اور جذباتی لحاظ سے بچے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں. دوسرا بڑا مسئلہ عورتوں کا مالی لحاظ سے کمزور ہونا بھی ہے. زیادہ تر خواتین کا معاش کا مسئلہ ہوتا ہے. بچوں کے ساتھ نوکری کرنا، پیسے کمانا اور چھوٹے بچوں کو کسی کی نگرانی یا ڈے کیئر میں دینا بھی ایک مسئلہ ہے. زیادہ تر خواتین خود کفیل نہیں ہوتیں، یا کوئی اچھی نوکری نہیں ملتی، اسی لیے طلاق یا خلع کا فیصلہ نہیں کرتیں اور ظلم کی چکی میں پستی رہتی ہیں. کچھ خواتین کو میکے سے سپورٹ نہیں مل رہی ہوتی تو وہ بھی آخری حد تک شوہر اور سسرال والوں کا ظلم و ستم برداشت کرتی رہتی ہیں. یہاں تک کہ سسرال والے خود ہی گھر سے نکال دیں. کچھ خواتین طلاق یا خلع کی صورت میں لوگوں کی باتیں طعنوں اور طنز سہنے کی طاقت نہیں رکھتیں، اور وہ ان سب باتوں سے بچنے کے لیے شوہر کا ذہنی و جسمانی ٹارچر برداشت کرتی ہیں. ہمارے معاشرے میں زیادہ تر ہندوانہ کلچر کا اثر ہے، جس میں دوسری شادی کرنے کو معیوب سمجھا جاتا ہے. دیکھا جائے تو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف ایک زوجہ کنواری تھی، جبکہ باقی ازواج مطہرات بیوہ یا طلاق یافتہ تھیں، بلکہ بعض تو دو دفعہ طلاق یافتہ تھیں، اور دو دفعہ بیوہ بھی تھیں. معاشرے میں طلاق یا خلع کا رجحان بڑھنے کے بعد اب اس سوچ میں تھوڑی سی تبدیلی ضرور آئی ہے.پہلے لوگ کھلے عام طعنے دیتے تھے، اب دبے لفظوں میں طنز کرتے ہیں. ہمارے معاشرے میں خاتون کی کامیابی اس کا شادی شدہ ہو ناہی سمجھا جاتا ہے.
تبصرہ لکھیے