”میری محبت دیکھی ہے، اب میری نفرت بھی دیکھ لو گے!“
ارے پیارے، یہ کیا کہا؟ جس کے لیے دل میں محبت کی کوئی رمق باقی ہو، اس سے بھلا نفرت کی جا سکتی ہے؟
بے شک، گلے شکوے ہو سکتے ہیں، ناراضی اور غصہ بھی فطری ہے، مگر نفرت؟ یہ تو عجیب سی بات ہوئی!
جس دل میں کبھی محبت بسی ہو، وہاں نفرت کا بسیرا ممکن نہیں۔ محبت اگر سچی ہو، تو اس میں گنجائش صرف خلوص، چاہت اور درد کی ہوتی ہے نفرت کی نہیں۔
محبت اگر سچی ہو، تو وقت کے ساتھ ناراضی اور شکوے بھی ماند پڑ جاتے ہیں، مگر دل کی گہرائی میں کہیں نہ کہیں وہی محبت باقی رہتی ہے، جو کسی مسکراہٹ، کسی یاد، یا کسی لمحے کی صورت میں پھر سے جاگ اٹھتی ہے۔
نفرت ایک ایسا شدید منفی جذبہ ہے جو محبت کے برعکس، دل میں سختی، تعصب، بغض اور انتقام کے بیج بوتا ہے۔ محبت کی جڑیں نرمی، ہمدردی اور قربت میں پیوست ہوتی ہیں، جبکہ نفرت کی بنیاد غصے، تلخی اور دوری پر ہوتی ہے۔
یہ کہنا کہ “محبت سے ہی نفرت جنم لیتی ہے” درحقیقت ایک جذباتی ردعمل ہوتا ہے، کیونکہ حقیقی نفرت وہی ہوتی ہے جس میں محبت کی کوئی رمق نہ ہو۔ جب کوئی شخص کہتا ہے کہ “اب نفرت دیکھو گے!” تو دراصل وہ خود یہ اعتراف کر رہا ہوتا ہے کہ اس کے دل میں محبت کبھی تھی ہی نہیں۔ وگرنہ جس سے محبت ہو، اس سے نفرت ممکن ہی نہیں!
محبت اور نفرت دو الگ الگ جذبات ہیں—ایک جوڑنے والا، دوسرا توڑنے والا۔ سچی محبت کبھی نفرت میں نہیں بدلتی۔ البتہ، مایوسی، غصہ یا بے وفائی کا احساس وقتی طور پر شدید ردعمل کو جنم دے سکتا ہے، مگر یہ نفرت نہیں، بس ایک ٹوٹے دل کی فریاد ہوتی ہے۔
جس دل میں کبھی محبت نے بسیرا کیا ہو، وہ نفرت کی سخت زمین پر کیسے پنپ سکتا ہے؟ محبت اگر سچی ہو، تو اس کی غیر موجودگی کا شکوہ تو کیا جا سکتا ہے، مگر نفرت کا اظہار درحقیقت اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ محبت کبھی دل میں تھی ہی نہیں۔
نفرت کا دعویٰ کرنا دراصل اپنے ہی جذبات کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔ یہ اپنے دل کو بے نقاب کرنے جیسا ہے، یہ ظاہر کرنے جیسا ہے کہ شاید وہ جذبات، جو ہم نے محبت سمجھ کر سینے سے لگائے تھے، درحقیقت اتنے گہرے اور سچے نہ تھے۔ کیونکہ جو چیز خالص ہو، وہ غصے، مایوسی یا محرومی کے باوجود اپنی اصل کھو نہیں سکتی۔
محبت اگر نہیں ملی، تو اس کا شکوہ کریں، اپنے دل کے دکھ کو لفظوں میں ڈھالیں، مگر نفرت کا اعلان کرکے اپنی محبت کی سچائی پر سوال نہ اٹھائیں۔ کیونکہ نفرت کی زبان محبت کے زخم کو اور گہرا کر دیتی ہے، جبکہ خاموشی اور شکوہ محبت کی پاکیزگی کو قائم رکھتے ہیں۔
نفرت درحقیقت ایک ایسی آگ ہے جو سب سے پہلے خود انسان کے دل و دماغ کو جھلسا دیتی ہے، پھر دوسروں کو نقصان پہنچانے کی طرف مائل کرتی ہے۔ یہ ایک ایسا زہر ہے جو زندگی کی خوبصورتی، سکون اور مثبت توانائی کو کھا جاتا ہے، اور انسان کو انتقام پسند، متشدد اور بے رحم بنا دیتا ہے۔
یہ صرف ایک جذبہ نہیں، بلکہ ایک مسلسل جلنے والی آگ ہے، جو سوچ کو منفی بنا دیتی ہے، دل میں بے سکونی پیدا کرتی ہے، اور انسان کو اس نہج پر لے آتی ہے جہاں وہ اپنی ہی خوشیوں کا دشمن بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نفرت کرنے والا شخص دوسروں سے زیادہ خود کو نقصان پہنچا رہا ہوتا ہے۔
لہٰذا ضروری ہے کہ دل کو ایسے زہریلے جذبات سے پاک رکھا جائے۔ اگر کوئی تکلیف پہنچائے، تو معاف کر دینا یا اس سے دور ہو جانا ہی بہتر ہے، کیونکہ معافی اور درگزر وہ دوا ہیں جو روح کو سکون اور زندگی کو ہلکا رکھتی ہیں۔ زندگی کو نفرت کے اندھیروں میں جھونکنے کے بجائے محبت، صبر اور حکمت کے چراغ جلائے جائیں، تاکہ دل بھی روشن رہے اور راستہ بھی!
تبصرہ لکھیے