ہوم << انجینئر مرزا: علمی شخصیت یا چال باز شہرت پسند؟ میر محترم

انجینئر مرزا: علمی شخصیت یا چال باز شہرت پسند؟ میر محترم

پاکستانی معاشرے میں مذہبی اور فکری مباحث کا ایک منفرد مزاج ہے۔ یہاں علمی گفتگو کے ساتھ ساتھ سازشی بیانیے بھی جگہ بناتے ہیں، اور بعض اوقات چند مخصوص افراد شعوری یا لاشعوری طور پر ایسے مباحث کو محض اپنی تشہیر کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ انجینئر محمد علی مرزا کی حکمتِ عملی کو اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے، جہاں وہ مختلف ادوار میں مختلف شخصیات کو چیلنج دے کر عوامی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور پھر جب معاملہ سنجیدہ شکل اختیار کر لیتا ہے، تو حیلے بہانوں سے راہِ فرار اختیار کر لیتے ہیں۔

چیلنج دینا، توجہ حاصل کرنا، اور پھر راہِ فرار
یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا کہ انجینئر مرزا نے کسی مذہبی یا فکری شخصیت کو چیلنج دیا ہو اور پھر خود ہی اس چیلنج سے پیچھے ہٹ گئے ہوں۔ اس کی کئی مثالیں تاریخ میں درج ہیں۔

1۔ مولانا طارق مسعود کا معاملہ:
جب انجینئر مرزا نے معروف عالمِ دین مولانا طارق مسعود کو چیلنج دیا، تو وہ تمام شرائط تسلیم کرتے ہوئے جہلم پہنچے۔ لیکن وہاں پہنچنے کے بعد، بجائے براہِ راست مناظرے کے، انجینئر مرزا نے شرط رکھ دی کہ اگر مناظرہ ہوگا تو وہ پاکستان کے معروف مفتی، حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب سے ہوگا۔ گویا ایک عام مناظرہ دینے کے بعد، عین وقت پر ایک ایسی شرط لگا دی گئی جس کا کوئی تعلق ابتدائی چیلنج سے نہیں تھا۔ اس طرح معاملہ ٹال دیا گیا اور حقیقت یہ ہے کہ یہ رویہ ایک مستقل رجحان کی شکل اختیار کر چکا ہے۔

2۔ آفتاب اقبال اور عمران ریاض خان کا معاملہ:
حال ہی میں یہی طریقہ آفتاب اقبال کے ساتھ بھی دہرایا گیا۔ انجینئر مرزا نے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا، جواب میں آفتاب اقبال نے کھل کر بات کی اور معاملہ عوامی بحث کا حصہ بن گیا۔ جب بحث کے مزید آگے بڑھنے کے امکانات تھے، تو انجینئر مرزا نے ایک اور شرط لگا دی—اب بحث میں عمران ریاض خان کو بھی شامل ہونا ہوگا! یہ درحقیقت وہی پرانی حکمتِ عملی تھی کہ پہلے کسی کو تنقید کا نشانہ بناؤ، پھر جب وہ شخص سنجیدگی سے جواب دینے پر آمادہ ہو، تو شرائط میں تبدیلی کر کے معاملے کو مزید پیچیدہ بنا دو، تاکہ اصل سوالات اور جوابات کی نوبت ہی نہ آئے۔

یہ سب کیوں کیا جا رہا ہے؟
یہ انداز ایک خاص نفسیاتی حربے پر مبنی ہے، جس میں درج ذیل نکات نمایاں ہیں:
1. تنازع پیدا کر کے عوام کی توجہ حاصل کرنا
2. مذہبی اور علمی حلقوں میں اشتعال پیدا کرنا، تاکہ گفتگو کا محور خود بن سکیں
3. مدمقابل کو ذاتی شرائط اور نئے مطالبات میں الجھا کر اصل مناظرے سے بچنا
4. اپنے حمایتیوں کے سامنے خود کو "مظلوم" اور "دبنگ سچ بولنے والا" بنا کر پیش کرنا
5. دوسروں کی خاموشی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مزید آزادانہ انداز میں انتشار انگیز گفتگو کرنا

قیصر راجہ اور دیگر شخصیات کا شکار ہونا
یہ حکمتِ عملی انجینئر مرزا کے ارد گرد ایک مخصوص بیانیہ تشکیل دیتی ہے، جس کا شکار کئی لوگ ہو چکے ہیں قیصر راجہ جیسے افراد بھی اس کا حصہ بن چکے ہیں
افسوس: جب صحابہ کرام اور بزرگانِ دین کی توہین ہوئی، تو لوگ خاموش کیوں تھے؟
شاعر نے کیا خوب کہا تھا:

جو ہم پہ گزرے تھے رنج سارے
جو خود پہ گزرے تو لوگ سمجھے

یہاں سب سے زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ جب انجینئر مرزا نے صحابہ کرام، بزرگانِ دین، اور اسلامی اکابرین پر اعتراضات کیے، تب اکثریت خاموش رہی۔ اُس وقت ان کی "تحقیق" اور "سوالات" کو آزادیٔ اظہار کا نام دیا گیا، اور کئی حلقوں نے انہیں سپورٹ بھی کیا۔ لیکن اب جب یہ تنازعات ان صحافیوں، اینکرز، اور دیگر شخصیات تک پہنچے، جنہیں اپنا میڈیا اثر و رسوخ عزیز ہے، تو انہیں احساس ہوا کہ یہ محض ایک علمی گفتگو نہیں بلکہ ایک سازشی حربہ ہے، جس کا مقصد صرف اور صرف انتشار پھیلانا اور عوام کی توجہ حاصل کرنا ہے۔

نتیجہ: کیا ہمیں مزید خاموش رہنا چاہیے؟
یہ وہ سوال ہے جس پر غور کرنا ہوگا۔ اگر انجینئر مرزا جیسے لوگ یوں ہی آزادانہ طور پر متنازعہ باتیں کرتے رہے اور صرف تبھی ردعمل آیا جب معاملہ کسی خاص فرد یا طبقے کے مفادات کو ٹکرایا، تو پھر بہت دیر ہو چکی ہوگی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ معاشرہ ان چالاکیوں کو پہچانے، اور علمی مباحث کو سطحی اور شہرت پسندی کی نذر ہونے سے بچایا جائے۔ بصورتِ دیگر، یہ سلسلہ جاری رہے گا، اور مزید لوگ اس فکری مغالطے کا شکار بنتے رہیں گے۔