جنوبی پنجاب میں شاداب پور قصبے کی قدیمی مسجد میں جمعہ کا دن تھا۔ لوگ اپنے روزمرہ کے کاموں سے فارغ ہو کر نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں جمع ہو رہے تھے۔ موسم خوشگوار تھا، اور مسجد کا صحن لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ ایک کونے میں چند بزرگ بیٹھے ہوئے تھے، جو اپنی جوانی کے دنوں میں موبائل فون جیسی ایجادات کے بغیر زندگی گزار چکے تھے۔ ان میں سے ایک بزرگ، حاجی اکرام الحق صاحب، نے اپنے دوست سے کہا، "یہ موبائل فون تو بہت اچھی چیز ہے، لیکن لوگ اسے استعمال کرنے کا طریقہ نہیں جانتے۔"
اتنے میں مؤذن نے اذان دی، اور کچھ دیر کے بعد سب مقتدی صف بندی کر کے نماز کے لیے کھڑے ہو گئے۔ نماز شروع ہوئی تو اچانک ایک نوجوان کے موبائل فون کی رنگ ٹون بجنے لگی۔ یہ رنگ ٹون ایک مشہور فلمی گانا تھا، جس کی دھن نے مسجد کے پرسکون ماحول کو تہ و بالا کر دیا، لیکن وہ صاحب بے خبر نماز میں مصروف رہے۔ وہ اتنے غائب دماغ تھے کہ انہیں احساس ہی نہ ہوا۔
نماز ختم ہوئی تو حاجی اکرام الحق نے کہا، "یہ کیا ہو رہا ہے؟ کیا ہم نے اپنی عبادت گاہوں کو بھی بازار بنا دیا ہے؟" ان کی بات سن کر سب خاموش ہو گئے۔
اسی شام، قصبے کے ایک معزز ریٹائرڈ سرکاری افسر کا انتقال ہو گیا۔ ان کی نمازِ جنازہ اگلے دن صبح ہونی تھی۔ صبح جب نماز جنازہ ہونے لگی تو لوگ جامع مسجد میں جمع ہو گئے۔ نمازِ جنازہ شروع ہوئی تو اچانک ایک نوجوان کے موبائل فون کی رنگ ٹون بجنے لگی۔ یہ رنگ ٹون ایک بدنام زمانہ گانا تھا، جس کی دھن نے سب کو حیران کر دیا۔ نوجوان نے جلدی سے فون بند کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ گانا کچھ دیر تک بجتا رہا۔ نمازِ جنازہ کے بعد، حاجی صاحب نے نوجوان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، "بیٹا، یہ کیا کر رہے ہو؟ کیا تمہیں احساس نہیں کہ یہ کتنا غیر مناسب ہے؟"
نوجوان شرمندہ ہو کر بولا، "حاجی صاحب، معاف کیجیے، میں بھول گیا تھا کہ فون کو سائلنٹ کرنا تھا۔"
حاجی صاحب نے گہری سانس لی اور کہا، "بیٹا، موبائل فون ایک بہترین ایجاد ہے، لیکن اس کے استعمال کے بھی کچھ آداب ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان آداب کو سیکھیں اور انہیں اپنائیں۔"
اس واقعے کے بعد، قصبے کے لوگوں نے موبائل فون کے استعمال کے آداب پر بات چیت شروع کر دی۔ حاجی صاحب نے مسجد میں ایک چھوٹی سی تقریب کا اہتمام کیا، جس میں انہوں نے لوگوں کو موبائل فون کے صحیح استعمال کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے کہا، "ہمیں چاہیے کہ ہم نماز کے دوران فون کو سائلنٹ یا بند کر دیں۔ اگر ہم بھول جائیں اور غلطی سے رنگ ٹون بج اٹھے تو جیب سے موبائل فون نکال کر اسے بند کر سکتے ہیں ۔ عوامی مقامات پر فون کی آواز کم رکھیں۔ ڈرائیونگ کے دوران فون کا استعمال نہ کریں۔ اور اپنی ذاتی معلومات کو محفوظ رکھیں۔"
لوگوں نے حاجی صاحب کی بات غور سے سنی، اور کچھ ہی دنوں میں شاداب پور قصبے کے لوگوں کے رویوں میں تبدیلی آنا شروع ہو گئی۔ اب نماز کے دوران فون کی رنگ ٹون بجنا ایک نایاب واقعہ بن گیا۔ لوگ ایک دوسرے کو یاد دہانی کرواتے کہ فون کو سائلنٹ کر لیں۔
حاجی صاحب نے ایک دن کہا، "ترقی صرف ایجادات سے نہیں آتی، بلکہ اس سے آتی ہے کہ ہم ان ایجادات کو کس طرح استعمال کرتے ہیں۔ اگر ہم اپنے آداب اور رویوں کو بہتر بنائیں، تو ہی ہم ایک مہذب معاشرے کی تشکیل کر سکتے ہیں۔"
اور یوں، اس چھوٹے سے قصبے میں موبائل فون کے استعمال کے آداب کی ایک نئی روایت شروع ہوئی، جو پورے علاقے میں پھیل گئی۔
یہ کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ جدید ایجادات کو استعمال کرتے وقت ہمیں ان کے آداب کا خیال رکھنا چاہیے۔ صرف اسی طرح ہم ایک مہذب اور ترقی یافتہ معاشرے کی تشکیل کر سکتے ہیں۔
تبصرہ لکھیے