زندگی کے مختلف شعبوں میں جدوجہد کرنے والے افراد اکثر ایک عظیم مقصد کے تحت کام کا آغاز کرتے ہیں۔ کسی نظریے کو عملی شکل دینے کے لیے مختلف قسم کے چیلنجز درپیش ہوتے ہیں، خصوصاً جب اس نظریے کا تعلق اصلاح اور مثبت تبدیلی سے ہو۔
جب کسی بھی اجتماعی عمل میں متنوع لوگ شامل ہوں، تو ان کی تعداد، رویے، سمجھ بوجھ، علمی و عملی تجربہ، اور مزاج میں واضح تفاوت پائی جاتی ہے۔ اس صورتحال میں کسی بھی اصلاحی اقدام کو آگے بڑھانا ایک دشوار مرحلہ بن جاتا ہے۔ بعض افراد صرف اپنی ذاتی مفاد پرستی یا محدود بصیرت کی وجہ سے خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں، جبکہ کچھ وقت گزاری اور غیر جانبداری کی پالیسی کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کے برعکس، وہ لوگ جو معاملات کو سنوارنے اور بہتری کی کوشش کرتے ہیں، اکثر مخالفت، الزامات اور تنقید کا نشانہ بنتے ہیں۔
اصلاح کا عمل حساس نوعیت کا ہوتا ہے، جہاں چھوٹی سی گرفت یا تبدیلی بھی سخت ردعمل کو جنم دے سکتی ہے۔ بعض اوقات اصلاح کرنے والے افراد کو یہ طعنہ دیا جاتا ہے کہ وہ بےکار یا غیر ضروری مسائل کو ہوا دے رہے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ ان کی کوششیں مستقبل کے بحرانوں کو روکنے کے لیے ہوتی ہیں۔ مگر یہ تلخ حقیقت ہے کہ جو لوگ بیدار مغز ہوتے ہیں، جو سچ بولنے اور نفع بخش تبدیلی لانے کی جرات رکھتے ہیں، انہیں اکثر حقیر، ناپسندیدہ اور حتیٰ کہ بدنام بنا دیا جاتا ہے۔
یہ ایک بڑی حقیقت ہے کہ اکثر فیصلہ کرنے والے، منصوبہ ساز اور بااختیار افراد اتنی اہلیت، قابلیت یا وژن نہیں رکھتے کہ وہ اصلاحی اقدامات کی اہمیت کو سمجھ سکیں اور ان پر عمل درآمد کر سکیں۔ ان کے پاس نہ صرف اصلاحی تجاویز کو سننے کا حوصلہ کم ہوتا ہے، بلکہ وہ اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے بھی غیر سنجیدہ یا محدود فہم کے حامل ہوتے ہیں۔ کئی مرتبہ وہ اپنی ذاتی ترجیحات، سیاسی مفادات، یا عارضی فوائد کو اصلاحات پر ترجیح دیتے ہیں۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بااختیار افراد کی ذہنی سطح اور فیصلہ سازی کی صلاحیت اکثر اس معیار کی نہیں ہوتی کہ وہ کسی مؤثر تبدیلی کو قبول کر سکیں۔ اصلاحات کے خلاف سخت مزاحمت کی ایک بڑی وجہ ان کا غیر لچکدار رویہ اور ایک مخصوص سوچ میں جکڑا ہونا ہے۔ ایسے افراد اپنی عہدے داری کو طاقت اور اختیار کا ذریعہ تو سمجھتے ہیں، مگر اس کے ساتھ جڑی ہوئی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور انہیں دیانت داری سے نبھانے سے قاصر ہوتے ہیں۔
اس سارے عمل کا ایک افسوسناک نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کام تو ہوتا رہتا ہے، لیکن پیش رفت صفر رہتی ہے۔ بظاہر سب کچھ رواں دواں دکھائی دیتا ہے، معاملات چل رہے ہوتے ہیں، پالیسی میٹنگز، رپورٹس، سیمینار اور اقدامات جاری رہتے ہیں، مگر اصل ہدف کہیں پسِ پشت چلا جاتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی گاڑی چل رہی ہو، اس کا انجن چل رہا ہو، ایندھن جل رہا ہو، ڈرائیور سیٹ پر موجود ہو، مگر سفر صرف وقت گزارنے کے مترادف ہو، اور منزل کی طرف پیش قدمی نہ ہو بلکہ منزل کہیں دور رہ جائے۔
اکثر اصلاح کی غرض سے بات کرنے والوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ عمومًا ایسا ہوتا ہے کہ ان کی بات کو سننے کے بجائے ان کے انداز پر اعتراض کیا جاتا ہے، اور اسی آڑ میں ان کی اصل مدعا کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، انہیں اکثر کسی مخالف گروپ کا حصہ سمجھا جاتا ہے، حالانکہ ان کا مقصد محض بہتری کی کوشش ہوتا ہے۔
کچھ افراد تو اتنے ضدی اور مخالفت پر اتر آتے ہیں کہ اگر کسی تجویز میں ان کے مفاد یا کریڈٹ کی گنجائش بھی ہو، تب بھی وہ اسے زیر غور نہیں لاتے۔ یہ لوگ پہلے سے ایک خاص سوچ کے ساتھ کسی فورم میں آتے ہیں کہ انہیں صرف اپنے فیصلے منوانے ہیں اور کسی اور کی رائے کو سننا یا اس پر غور کرنا ہی نہیں ہے۔
یہ صورتحال ہمیں ایک اہم سوال پر غور کرنے پر مجبور کرتی ہے: کیا اصلاح کی کوشش کرنے والوں کو خاموش کر دینا یا انہیں بےکار ثابت کرنا ایک صحت مند طرزِ عمل ہے؟ اگر ہم اصلاحی ذہن رکھنے والوں کی قدر نہ کریں گے اور محض حالات کے ساتھ بہتے چلے جائیں گے، تو ہم کس سمت جا رہے ہیں؟ کیا یہ رویہ ہمارے معاشرتی، تعلیمی، اور انتظامی نظاموں کو مزید بگاڑ کی طرف نہیں لے جائے گا؟
جو لوگ اصلاحی کوششیں کر رہے ہیں، انہیں نظرانداز کرنے کے بجائے ان کی بات سننی چاہیے، ان کی کاوشوں کو سمجھنا چاہیے اور اجتماعی بہتری کے لیے ان کا ساتھ دینا چاہیے۔ ورنہ وہ وقت دور نہیں جب ہم سب صرف ایک بے سمت سفر کا حصہ بن جائیں گے، جہاں رفتار تو ہوگی، مگر منزل کا کوئی پتہ نہیں ہوگا۔
تبصرہ لکھیے