کئی بار بزرگ علماء سے سنا اور کتابوں میں پڑھا کہ صحابہ کرام کی دنیا بھی دین ہوتی تھی، اُن کا ہر کام آخرت کےلیے ہوتا اور وہ زندگی کے ہر معاملے کو ایسے برتتے جیسے کوئی مسافر ہو جس نے کچھ ہی دیر میں کسی دوسرے مقام پر کوچ کر جانا ہے۔ صحابہ کے کاروبار، ان کی تجارت، ان کے تعلقات، ان کی خوشیاں، اُن کا جہاد، اُن کے کھیل، اُن کے رشتے ، اُن کی کھیتی باڑی اور دکانداری، اُن کی سیاست یہاں تک کہ اُن کا سب کچھ آخرت کی روشنی میں بسر ہوتا تھا۔ اُن کی زندگی کا کوئی گوشہ آخرت کی فکر سے آزاد نہیں تھا۔
میں نے اپنی زندگی کو اس طرح بنانے کی کوشش کی کہ آخرت کو یاد کرنے والا بن جاؤں۔ اس کےلیے موت کے مراقبے کیے تاکہ موت کا دھیان رہے لیکن جب مراقبہ ختم ہوتا تو ایسے لگتا جیسے پھر دنیا کے چمن میں مشغول ہو گیا ہوں۔ مجھے کوئی ایسا جملہ نہیں مل رہا تھا جو دنیا کے کاموں میں مجھے آخرت دکھا دے کہ میں اپنے کاموں میں مصروف ہوں لیکن ساتھ ہی آخرت کی بھی کمائی ہو رہی ہو اور ہر ہر معاملے میں آخرت یاد آتی رہے۔
اسی کشمکش کے ساتھ قرآن کریم کھولا کہ ممکن ہے کوئی ایسا جملہ مل جائے جو دل کی دنیا بدل دے، آنکھوں کی بینائی کو بصیرت دے دے اور مجھے اپنے اصل مقصد کی طرف واپس لے جائے۔ دس پندرہ منٹ کی تلاش کے بعد ایک صفحہ پر قرآن کا یہ جملہ میرے لیے جگمگا رہا تھا:
وَ ابْتَغِ فِیْمَاۤ اٰتٰىكَ اللّٰهُ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ
اور جو کچھ اللہ نے تمہیں دیا ہے، اُس میں آخرت کے گھر کو تلاش کر۔ ( قصص: 77)
یہ جملہ پڑھنا تھا کہ میری زندگی کی ہر نعمت سامنے آ کھڑی ہوئی اور دعوت دی کہ میرے ذریعے سے آخرت کے گھر کی تلاش کرو۔ سب سے پہلے اپنے قلم کی طرف متوجہ ہوا جو ڈائری کے اوپر رکھا تھا، اُسے اٹھایا اور یاد کیا کہ اب تک اس قلم کے ذریعے قرآن کریم کی آیات پر کیا کچھ لکھ چکا ہوں؟ جو جو لکھا تھا، وہ ذہن کے پردے پر فلم کی صورت چلتا گیا، ساتھ ہی یہ سوچتا رہا کہ کیا میں نے اس قلم جیسی نعمت کے ذریعے آخرت کا گھر تلاش کیا ؟ جواب مکمل نفی میں تھا نہ مکمل اثبات میں۔ لیکن میں نے نیت کی کہ آئندہ میرا ہر لفظ ، ہر جملہ آخرت کی تلاش میں ہوگا۔
پھر میں اپنی آواز کی طرف متوجہ ہوا کہ اللہ نے مجھے زبان دی، بولنے کا ہنر دیا اور سننے والے عطا کیے۔ کہیں میں نے اپنی زبان کو محض دنیاوی گفتگو کے لیے تو استعمال نہیں کیا؟ اس کا جواب بھی مکمل نفی میں تھا نہ مکمل اثبات میں۔ لیکن میں نے نیت کی کہ آئندہ میں اپنے بول کے ذریعے حق بات کی تبلیغ کی کوشش کروں گا، ممکن ہے کسی کی زندگی بدل جائے جو میرے لیے آخرت میں بخشش کا ذریعہ بن جائے۔
پھر میں نے اپنی کتابوں کو دیکھا کہ کیا انہیں فقط دنیا کی پذیرائی کے لیے لکھا ہے یا اس لیے کہ جو کچھ لکھوں وہ کسی کی زندگی میں روشنی پیدا کرے، کسی کی آخرت سنوارے۔
میں نے قرآن کریم سے سر اوپر اٹھایا تو دیکھا کہ سامنے میرا بیٹا محمد حسن کھڑا ہے، میں حسن کے ساتھ اپنے رشتے کو سوچنے لگا کہ کیا یہ محض ایک دنیاوی رشتہ ہے یا میرے لیے ایک عظیم ذمہ داری بھی ہے؟ قرآن کے جملے نے مجھے حکمت دی کہ میں اپنے بیٹے کو دنیا کے لیے نہیں بلکہ امت اور آخرت کے لیے تیار کروں۔ اسے رب کا تعارف اور رسول کریم ﷺ کی محبت دوں تاکہ میرا یہ بیٹا ایک ایسا انسان بنے جو خود بھی جنت کی راہ پر چلے اور دوسروں کو بھی اس راستے کی طرف بلا سکے۔
میں نے اپنے لیکچرز، کلاسز اور ورکشاپس پر غور کیا، فیملی اور دوستوں کے ساتھ تعلقات کو ٹٹولا، بائیک کے پاس جا کر کھڑا ہوا اور غور کیا ، اساتذہ اور شاگردوں کے بارے میں سوچا، گھر کے بالکنی میں کھڑے ہوکر وسیع آسمان کو دیکھا، آفس کی کرسی پر بیٹھ کر ، مہمان کےلیے دسترخوان لگاتے ہوئے، فقیر کے ہاتھ میں صدقے کے چند سکے رکھتے ہوئے ، بوڑھے بابا جی کےلیے پانی کا گلاس لاتے ہوئے غور کیا کہ کیسے ان نعمتوں کے ذریعے آخرت کا گھر تلاش کروں؟
یہ سوچنا تھا کہ میری نیت کی ڈائریکشن بدلنے لگی۔ کھانے پینے، سونے جاگنے اور آفس آنے جانے کے تمام لمحات آخرت کی تلاش میں طے ہونے لگے، جس کام کو ہاتھ لگاؤں تو یہ آیت سامنے آ جاتی ہے کہ آخرت کی نیت کرو۔ گویا قرآن کے اس جملے نے میری ہر حرکت ، ہر نعمت اور ہر لمحے کو بدل کر رکھ دیا، ہر قدم، ہر سانس، ہر فیصلہ، ہر معاملہ آخرت کے گرد گھومنے لگا۔ میری ساری فکر کا محور آخرت کو بنا دیا کہ میں ایسے جیوں کہ جب دنیا ختم ہو، تب بھی میری کہی گئی باتیں، لکھی گئی تحریریں، اور کیے گئے کام میرے حق میں گواہی دیں اور میں اپنے رب کے حضور سرخرو ہو سکوں۔
دوستو! اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ جو کچھ ہمارے پاس ہے، وہ صرف یہیں کے لیے ہے یا کسی اور سفر کی زادِ راہ بھی بن سکتا ہے؟ کیا ہم نے اپنی دولت، اپنے علم، اپنے تعلقات، اپنے ہنر، اپنے کام اور اپنی زندگی کی تمام چھوٹی بڑی نعمتوں میں آخرت کا کوئی چراغ جلایا ہے؟
وَ ابْتَغِ فِیْمَاۤ اٰتٰىكَ اللّٰهُ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ
اور جو کچھ اللہ نے تمہیں دیا ہے، اُس میں آخرت کے گھر کو تلاش کر۔ ( قصص: 77)
حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا:
جس نے اپنی تمام تر سوچوں کو ایک سوچ یعنی آخرت کی سوچ بنا لیا، تو اللہ تعالیٰ اس کے دنیاوی غموں کے لیے کافی ہو گا، اور جس کی تمام تر سوچیں دنیاوی احوال میں پریشان رہیں، تو اللہ تعالیٰ کو کچھ پرواہ نہیں کہ وہ کس وادی میں ہلاک ہو جائے۔ (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 257)
تبصرہ لکھیے