پاکستان بہت خوبصورت ملک ہے۔ اسے اگر سیاحوں کی جنت کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ یہاں بے شمار سیاحتی و تفریحی مقامات ہیں۔ اس میں جہاں ایک طرف گہرا سمندر ہے تو دوسری طرف لق و دق صحرا ہیں، ایک طرف وسیع و عریض میدان ہیں تو دوسری طرف بلند و بالا پہاڑ ہیں، خوبصورت وادیاں ہیں، سرسبز باغات اور کھیت و کھلیان ہیں۔
پاکستان کی تو خود اپنی ہی اتنی آبادی ہے کہ صرف پاکستانی ہی سیاحت کے شوقین ہو جائیں تو یہی ایک بہت بڑی معاشی سرگرمی ہوگی، اور اگر غیر ملکی سیاح بھی یہاں زیادہ آنے لگیں تو کیا ہی بات ہے۔اب تو پاکستان کا مواصلاتی نظام بھی بہت بہتر ہوگیا ہے۔ کئی موٹرویز بن گئی ہیں۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا بہت آسان ہوگیا ہے۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ پاکستان کی اکثر سڑکیں سنگل ہوا کرتی تھیں، دو رویہ سڑکیں تو بس چند ہی شہروں میں تھیں۔ کراچی کی شارع فیصل کو دیکھ کر ہی لوگ حیران ہوتے تھے کہ کیا کوئی سڑک اتنی چوڑی بھی ہو سکتی ہے۔ میں نے جب 90ء کی دہائی میں اپنی گاڑی پر پاکستان کے سفر شروع کئے تو اس وقت صرف کراچی سے حیدرآباد تک سپر ہائی وے ہی دو رویہ ہوتی تھی۔ حیدرآباد سے آگے لاہور پشاور تک تقریباً سب سڑکیں سنگل ہوا کرتی تھیں۔کراچی سے پشاور جانے والی سڑک کو لوگ مجموعی طور پر کے ایل پی روڈ KLP Road (یعنی کراچی۔لاہور۔پشاور روڈ) کہتے تھے۔ یہ ساری سڑک زیادہ تر سنگل تھی۔
اُس وقت بسوں کے ذریعے سفر بھی بہت کم ہوتا تھا۔ زیادہ تر لوگ ریل گاڑی میں سفر کرتے تھے۔ ریل کی سیٹ اور برتھ کئی کئی دن پہلے بک کروانے کے بعد ہی مقررہ تاریخ پر ایک دو دن کا سفر ممکن ہوتا تھا۔ جب لاہور سے راولپنڈی اسلام آباد جانے والی جی ٹی روڈ ڈبل ہوئی تو اس پر چھوٹے سائز کی خوبصورت جاپانی کوسٹر بسیں چلنا شروع ہوئیں جن کو ”فلائنگ کوچ“ کہا جاتا تھا۔ یہ بڑی آرام دہ ایئرکنڈیشنڈ منی بسیں ہوتی تھیں جن کا اندرونی حصہ بالکل ہوائی جہاز کی طرح ہوتا تھا۔ اس میں سفر کرنے والے بھی خود کو تقریباً ہوائی جہاز ہی کا مسافر سمجھتے تھے اور دورانِ سفر ہوائی مسافروں جیسے ہی نخرے دکھاتے تھے۔ وہ سفر میں کسی ہمسفر سے بات نہ کرتے اور یوں ظاہر کرتے جیسے کوئی بڑے ہی امیر کبیر ہیں اور صرف جہاز میں سیٹ نہ ملنے کی وجہ سے اس فلائنگ کوچ میں ارجنٹ سفر پر مجبور ہوئے ہیں۔
ہم نے اسی زمانے میں سیاحت شروع کی تھی۔ کراچی سے ہم شالیمار ایکسپریس میں بیٹھ کر لاہور پہنچتے تھے جہاں ریلوے اسٹیشن کے سامنے ہی اسلام آباد جانے والی فلائنگ کوچز کے اڈے ہوتے تھے۔ اُس وقت (80ء کی دہائی میں) لاہور سے راولپنڈی کے پچاس روپے ہوتے تھے۔ ہم اسلام آباد پہنچ کر وہاں سے مری، سوات، کاغان، چترال وغیرہ کی طرف نکل جاتے تھے۔ لیکن ہم تھے کراچی والے، بولنے والے، ہم سے خاموش رہا نہیں جاتا تھا۔ جبکہ ہم فلائنگ کوچ کے دوسرے مسافروں کو بالکل خاموش بیٹھا دیکھتے جو یا تو صرف سامنے کی طرف دیکھ رہے ہوتے تھے یا پھر کسی انگلش میگزین کی ورق گردانی کر رہے ہوتے تھے۔ بے تکلف نہیں ہوتے تھے بس اکڑے اکڑے رہتے تھے۔
ایک دن میں اسی طرح ایک فلائنگ کوچ میں راولپنڈی جا رہا تھا۔ میرے برابر والی سیٹ پر ایک نوجوان بیٹھا ہوا تھا۔ وہ اسی طرح خاموش اور اکڑا بیٹھا تھا۔ میں نے تھوڑی دیر بعد اس سے گفتگو شروع کی اور اس سے پوچھا کہ وہ کہاں جا رہا ہے؟
”میں رسالپور جا رہا ہوں“ وہ بولا۔
”آپ رسالپور میں رہتے ہیں؟“ میں نے پوچھا۔
”نہیں، میں وہاں ٹریننگ پر ہوں“ وہ بولا۔ ”میں پاکستان ایئر فورس میں جی ڈی پائلٹ بن رہا ہوں“
مجھے یہ سن کر بڑی خوشی ہوئی۔ گفتگو آگے بڑھی تو میں نے بھی اسے اپنے بارے میں بتایا کہ کراچی سے آیا ہوں اور شمالی علاقوں میں سیر و تفریح کیلئے جا رہا ہوں۔ اس پر وہ کچھ مزید بے تکلف ہوا اور حیرت انگیز طور پر کچھ ہی دیر میں ہماری دوستی ہوگئی۔
اب ہم دونوں تو بڑے مزے سے باتیں کرنے لگے جبکہ باقی پوری بس خاموشی سے سفر کرتی رہی۔ اس کا نام رہیق تھا۔ بڑا ہینڈسم نوجوان تھا ۔اگر وہ بھی خاموش ہی بیٹھا رہتا اور میں بھی چپکا ہی رہتا تو مجھے اس کے عجیب و دلچسپ واقعات سننے کو نہ ملتے۔ وہ اچھے کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ اس نے بتایا :
”جب بھی میں لاہور ریلوے اسٹیشن آتا ہوں تو یہاں صبح صبح بہت سارے مزدور فٹ پاتھوں پہ بیٹھے کام کے منتظر نظر آتے ہیں ۔کوئی بیلچہ ہاتھ میں لئے بیٹھا ہے تو کوئی رنگوں کے ڈبے، برش اور چھینی ہتھوڑے وغیرہ لئے ہوئے ہوتا ہے، تاکہ کوئی ان کو یہاں سے کسی کام پر لے جائے۔ ان مزدور مستریوں کو دیکھ دیکھ کر ایک دن میں نے سوچا کہ یار … جو زندگی ہم گزار رہے ہیں، وہ کچھ اور ہے، اور جو یہ گزارتے ہیں وہ کوئی اور ہے۔ یہ لوگ صبح ہی صبح یہاں آکے پرندوں کی طرح دانہ تلاش کرتے ہیں۔ آج جس کی قسمت میں جو کام ہو وہ اسے مل جائے اور اسے کم از کم اس دن کا خرچہ نصیب ہو۔ یعنی روز کا کنواں کھودنا روز کا پانی پینا۔ آج جتنے پانی کی ضرورت ہے اس کیلئے آج ہی کنواں کھودنا، لیکن اگلے دن اس کنویں سے پانی نہیں ملے گا، نیا کھودنا پڑے گا۔“
کچھ دیر رک کر وہ پھر بولا :
”ایک دن میرے دل میں خیال آیا کہ میں بھی نہ بیٹھ جاؤں یہیں ان لوگوں کے ساتھ مزدور بن کر؟ … ایک دن ان کے ساتھ کام کر کے دیکھوں کہ کیسا لگتا ہے۔ چنانچہ اگلے دن میں نے کچھ پرانے میلے سے کپڑے پہنے، سر پر رومال باندھا، ایک بیلچہ ہاتھ میں لیا اور ریلوے اسٹیشن پرآکر فٹ پاتھ پہ بیٹھ گیا۔تھوڑی ہی دیر گزری ہوگی کہ ایک شخص میرے پاس آیا اور کہنے لگا :
"میرے گھر کے باہر سے مٹی اٹھا کر اندر باغ میں ڈالنی ہے … تم یہ کام کر لو گے؟"
میں نے ہامی بھری تو وہ مجھے اپنے ساتھ گھر لے گیا۔ مجھے باہر سڑک پہ پڑی مٹی اٹھا کر اندر ان کے بنگلے کے لان میں ڈالنی تھی۔ مٹی تھی بھی بہت۔ میں سارا دن کام کرتا رہا اور شام تک میرا برا حال ہوگیا، کیونکہ میں نے زندگی میں پہلے کبھی اس طرح کا کام نہیں کیا تھا۔ لیکن چونکہ میں یہ کام کرنے کیلئے خود اپنی مرضی سے تیار ہوا تھا اس لئے بلا چوں و چرا سارا دن مٹی ڈھوتا رہا۔ شام کو جب کام ختم ہوا تو اس نے مجھے دس روپے مزدوری دی۔ (اس زمانے میں دس روپے اچھی مناسب رقم تھی، جیسا کہ لاہور سے اسلام آباد کی ایئر کنڈیشنڈ کوسٹر کا کرایہ بھی صرف پچاس روپے تھا)۔ میں نے وہ دس روپے کا نوٹ لیا اور گھر آگیا۔“
میں اس کا یہ ایڈونچر سن کر بڑا حیران ہوا۔ وہ بولا :
”لیکن وہ دس روپے کا نوٹ مجھے اس قدر عزیز ہے کہ میں نے آج تک اسے خرچ نہیں کیا۔ کئی سال سے اسے دل سے لگا کے رکھا ہے۔ بلکہ میں نے اس نوٹ کو فریم کروا لیا تھا۔ کبھی آپ میرے گھر آئے تو دیکھیں گے کہ آج بھی میرے کمرے کی ایک دیوار پر دس روپے کا وہ نوٹ کسی پینٹنگ کی طرح آویزاں ہے۔ کیونکہ میں نے، جو آج ایک پائلٹ بن رہا ہوں، ایک دن مزدور بن کر وہ دس روپے کمائے تھے۔“
تبصرہ لکھیے