ہوم << تاریخِ فلسفہ میں عقل کا مقام - سید عبدالوحید فانی

تاریخِ فلسفہ میں عقل کا مقام - سید عبدالوحید فانی

ایک مخصوص زاویے سے فلسفے کو عقل پر مبنی طرز زندگی کہا جاسکتا ہے، جبکہ عقل قدیم زمانے سے فلسفیانہ بحث کے اہم موضوعات میں سے ایک رہی ہے۔ عقل کو اکثر قابلِ انعکاس یا "خود ساختہ" کہا جاتا رہا ہے، اور فلسفے میں عقل کی تنقید ایک مستقل موضوع رہا ہے۔ عقل کی تعریف بریٹانیکا ڈکشنری کے مطابق کچھ یوں ہے:
"to form (a conclusion or judgment) by thinking logically." ترجمہ: (عقل سے مراد ہے) منطقی طور پر سوچ کر (نتیجہ یا فیصلہ) تشکیل دینا۔
اور راوٹلیج انسائکلوپیڈیا کے مطابق:
"reason is to use our individual intellectual abilities to seek evidence for and against potential beliefs." ترجمہ: عقل ہماری انفرادی فکری صلاحیتوں کو ممکنہ عقائد کے حق میں اور اس کے خلاف ثبوت تلاش کرنے کے لئے استعمال کرنا ہے۔

بہت سے کلاسیکی فلسفیوں کے ہاں فطرت کو غایتی (teleological) اعتبار سے سمجھا جاتا تھا، جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر چیز کا ایک حتمی مقصد ہوتا ہے جو ایک قدرتی ترتیب کے اندر موافق ہوتا ہے اور ان اسبابِ ظاہری پر ایک اور نظامِ اسباب ہے۔ اُس دور میں عالمِ کون و مکان کے بارے میں یہاں تک کہا جاتا تھا کہ اس کی بھی عقل ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے، عقل صرف ایک خصوصیت نہیں رہی جو لوگوں میں ہوتی ہے۔ بلکہ عقل کو انسانی فطرت کی دیگر خصوصیات کے مقابلے میں اعلی درجہ کی سمجھی جاتی تھی، کیونکہ یہ ایک ایسی امتیازی صفت ہے جو خود انسان اور فطرت کے درمیان مشترک ہے اور جو انسانی ذہن کے بظاہر لافانی حصے کو کائناتِ مشہود کے الہی نظام سے جوڑتی ہے۔ افلاطون نے عقل کو انسانی ذہن یا روح (نفسیات) کے اندر مختارِ مطلق کے طور پر بیان کیا تھا۔ اور جسے، ان کے خیال میں، جوش (Thumos) اور جذبات جیسے دوسرے حصوں پر حکمرانی کرنی چاہئے۔ افلاطون کے شاگرد ارسطو نے انسان کو عقلی جانور یا حیوانِ ناطق (Rational Animal) کہا اور عقل کو انسانی فطرت کی خصوصیت قرار دیا۔ مکمل اور مستقل طور پر عقل کے مطابق گزاری جانے والی زندگی کو ہی انھوں اہم ترین اور اعلیٰ ترین انسانی خوشی (Eudaimonia) کا نام دیا۔

اس موضوع پر ارسطو اور افلاطون کی گفتگو سے اخذ کیے جانے والے نتائج فلسفے کی تاریخ میں سب سے زیادہ زیر بحث ہیں۔ لیکن ارسطو کے غایتی بیانات (teleological accounts) ان لوگوں کے لئے انتہائی پرکشش تھے جو عقل کو وحدانیت اور انسانی روح کی ابدیت و الوہیت کے تصور کے ساتھ مطابقت کے طور پر بیان کرتے رہیں۔ مثال کے طور پر پلاٹینس (Plotinus) کے نو افلاطونی نظریے میں کائنات کی ایک روح ہے جو تمام عقل کی نشست ہے اور تمام انسانوں کی روحیں اس روح کا ایک حصہ ہیں۔ ان کے نزدیک عقل مادی چیزوں کو شکل فراہم کرنے والی ہے اور وہ مشعلِ راہ ہے جو لوگوں کی روحوں کو ان کے منبع کے مطابق واپس لاتی ہے۔

بہت سے اہم نو افلاطونی اور رواقی نظریات کی طرح عقل کا کلاسیکی نقطہ نظر ابتدائی کلیسیا نے بھی آسانی سے اپنایا، کیونکہ چرچ کے پادریوں نے وحی کو سمجھنے کے لیے یونانی فلسفے کو بنی نوع انسان کو دیئے گئے ایک لازمی آلہ کے طور پر تسلیم کیا۔ مثال کے طور پر کلیسیا کے ابتدائی پادریوں اور معلمین میں سے سب سے بڑے جیسے ہپو کے آگسٹن (Augustine of Hippo)، سیزریا کے باسل (Basil of Caesaria) اور نیسا کے گریگوری (Gregory of Nyssa) اتنے ہی نو افلاطونی فلسفی تھے جتنے وہ عیسائی الہیات دان تھے۔ اور انھوں نے انسانی عقل کے بارے میں نو افلاطونی نقطہ نظر کو قبول کیا۔ خدا اور مخلوقات کے ساتھ ہمارے تعلق پر اس کے مضمرات کو تسلیم کیا۔

انسانی روح کے عقلی پہلو کے نو افلاطونی تصور کو قرونِ وسطی کے اسلامی فلسفیوں نے وسیع پیمانے پر اپنایا تھا اور ایرانی فلسفے میں یہ اب بھی اہمیت رکھتا ہے۔ جیسے جیسے یورپی دانشورانہ زندگی تاریک دور سے دوبارہ ابھر کر سامنے آیا، عیسائی پادرانہ روایت (Patristic tradition) اور ابن رشد اور ابن سینا جیسے عظیم اسلامی فلسفیوں کے اثر و رسوخ نے عقل کے بارے میں علمی نقطۂ نظر کی نشوونما میں اہم کردار ادا کیا۔ اور جس نے اس تصور کے بارے میں ہماری جدید فہم کی بنیاد رکھی۔

اپنے نظریات کی ترقی کے لئے عقل کے کلاسیکی تصور پر انحصار کرنے والے دانشوروں میں، سینٹ تھامس ایکویناس (Saint Thomas Aquinas) سے زیادہ بااثر کوئی نہیں تھا، جنھوں نے اس تصور کو اپنے طبعی قانون (Natural Law) کے مرکز میں رکھا تھا۔ اس نظریے میں تھامس نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ چونکہ انسانوں کے پاس عقل ہے اور چونکہ عقل الٰہی چنگاری ہے، اس لیے ہر ایک انسانی زندگی قیمتی ہے، تمام انسان برابر ہیں، اور ہر انسان بنیادی حقوق کے پیدائشی اور مستقل مجموعے کے ساتھ پیدا ہوا ہے۔

راجر بیکن (Roger Bacon) اور البرٹس میگنس (Albertus Magnus) جیسے دیگر اسکالرز نے بھی ابن الہیثم جیسے اسلامی مفکر کی مثال کی پیروی کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ عقل تخلیق شدہ ترتیب اور ہمارا تجربہ کیا ہوا مادی حقیقت کے تحت ڈھانچے کو غیر مرموز کرنے کی جبلی انسانی صلاحیت رکھتی ہے۔ عقل کی یہ تشریح قرونِ وسطیٰ کی ابتدائی یونیورسٹیوں میں سائنسی طریقہ کار کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی رہی۔

Comments

Avatar photo

سید عبدالوحید فانی

سید عبدالوحید فانی ابھرتے ہوئے نوجوان لکھاری ہیں۔ تعلق پشین، بلوچستان سے ہے۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں بی ایس اردو ادب کے طالب علم ہیں۔ اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں ادبی مضامین تحریر کرتے ہیں۔ فانی ترجمہ نگاری میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ شاعری کی مختلف اصناف میں بھی ان کی دلچسپی نمایاں ہے۔ ان کی تحریریں فکری گہرائی اور فنی پختگی کی آئینہ دار ہیں۔

Click here to post a comment