زندگی ویسی نہیں ہے جیسی میں نے اور آپ نے چاہا تھا۔ بہت کچھ ملا نہیں، کتنا کچھ ہاتھ آ کے کھو دیا۔ کبھی جب ہر چیز ہاتھ سے ایک ایک کر کے چھوٹتی جائے تو لگتا ہے کہ جذباتی، ذہنی، روحانی اور نتیجتاً جسمانی طور پر بھی rock bottom سے جا ٹکرائے ہیں۔ rock bottomسمجھتے ہیں؟ اس کا مطلب ہے پست ترین سطح۔ جہاں سے اب مزید گہرائی میں نہ جایا جا سکے۔
کبھی کبھی زندگی میں ہم راک باٹم سے جا ٹکراتے ہیں۔ اب ایک تو یہ طریقہ ہے کہ وہاں اپنے بخت کو روتے رہیں۔ ہم نے کیا کیا سوچ رکھا تھا خود سے، زندگی سے اور نصیب ہمیں پاتال کی گہرائیوں میں لے آیا جہاں اندھیرا ہے، سانس رکتا ہے۔۔۔ یا یہ سوچیں کہ زندگی نے مجھے وہاں لا پھینکا ہے جس سے زیادہ نیچے جانا ممکن نہیں۔ اب بس اوپر ہی جایا جا سکتا ہے۔ اس پوائنٹ پر یا تو ہاتھ پیر چھوڑ بیٹھیں یا جیسے یاسمین مجاہد کہتی ہیں، تجربات کے تمام موتی اکٹھے کریں اور اوپر کی طرف تیرنا شروع کریں۔ تیرنے سے جسم میں مضبوطی لئے اور موتیوں سے مالامال۔
راک باٹم سے ٹکرانا انتہائی اذیت ناک عمل ہے۔ ایک بار تو انسان پھٹ جاتا ہے۔ پاش پاش ہو جاتا ہے۔دکھ اور تکلیف کی شدتوں میں آنسو تھم کر نہیں دیتے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جو ہمیں جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ آنسوؤں کی دھند چھٹتی ہے تو منظر واضح ہو کے سامنے آتا ہے۔ اب انسان بقائمی ہوش و حواس سوچتا ہے کہ ہو کیا رہا ہے اور میرے ساتھ ہی کیوں ہو رہا ہے۔۔۔ ہمیں اوّل دن سے کی اپنی اور دوسروں کی غلطیاں دکھائی دینے لگتی ہیں۔ جھوٹ سچ واضح ہونے لگتا ہے۔ سب سے بڑھ کر خود شناسی اس مقام پر حاصل ہوتی ہے۔ میں نے کیا کیا، کیوں کیا، میرا یقین، میرے خوف، میری کامیابیاں، ناکامیاں، لوگوں کے رویے، ہمارے رد عمل۔۔ سب واضح ہو جاتا ہے۔ اب ان حقائق کو سامنے رکھ کر ہم اپنی ذات کے کچھ نئے اصول وضع کرتے ہیں۔
یہ وہ مقام ہوتا ہے جہاں ہم گھٹنے ٹیک دیتے ہیں۔ ہم جنہیں خود پر کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی اعتبار سے بہت ناز تھا، خود کو بے بسی کی انتہا پر پاتے ہیں۔ ہماری ذہانت، عقلمندی، اخلاق، مزاج جن پر ہمارا تکیہ تھا وہ ایک ایک کر کے ساتھ چھوڑ جائیں تو سمجھ آتی ہے کہ اللہ کا اذن نہ ہو تو ہم کوئی خوشی مٹھی میں بند نہیں کر سکتے۔ اب ہر چیز سے فوکس ہٹتا ہے تو رب کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ گھٹنے تو ٹیک ہی دیے تھے، سر بھی ٹیک دیتے ہیں۔ راک باٹم میں خدا سے تعلق کسی اور ہی نوعیت کا ہوا کرتا ہے۔ جب دنیاوی سہارے چھوٹ جائیں تو دل میں عاجزی پیدا ہوتی ہے۔ اور ایمپتھی۔ ہم خود تکلیف کی شدتوں سے گزرتے ہیں کہ کسی کا دکھ سیدھا دل پر لگتا ہے۔ یہ انکسار، حلم، مزاج کی نرمی کہاں سے پاتے ہم اگر زندگی راک باٹم سے ٹکرانے کا موقع نہ دیتی۔
اب ہیرے موتی چن لیے، واپسی کا سفر ہے۔ سفر کرنا ہو تو وزن ہلکا کرنا ہوتا ہے۔ ہمیں بھی واپس اوپر جانا ہے تو کیسے کینہ، غصہ، نفرتیں ساتھ لیکر چلیں۔ let go کرنا ہے۔ مشکل ہے، میں جانتی ہوں۔ لیکن اتار پھینکیں یہ ایکسٹرا بیگج، فالتو کا بوجھ۔ ٹھیک ہے آپ سے غلطیاں ہوئیں۔ انکی ذمہ داری سو فیصد قبول کریں۔ معاف کریں خود کو، دوسروں کو اور ہلکے پھلکے ہو کے واپسی کا سفر شروع کریں۔ جب ایک لمبا اور مشکل سفر طے کر کے آپ اوپر سطح تک آئیں گے تو خود اعتمادی اور تشکر آپ کے پور پور سے جھلکے گا۔ ٹپکے گا۔
یہ دنیا عارضی ہے۔ یہاں کی خوشیاں عارضی ہیں تو یہاں کے غم بھی مستقل نہیں۔ ہونٹوں پر ہنسی باقی نہیں رہی تو آنکھوں میں آنسو بھی ہمیشہ نہیں رہیں گے۔ تہجد میں مانگیں اپنے رب سے۔ وہ آپکو نامراد نہیں لوٹائے گا۔ کوشش اور دعا جاری رکھیں اور پھر اللہ پر چھوڑ دیں۔ وہ تھام لینے پر قادر ہے۔ اس پر بھروسہ رکھیں۔ وہ ایسا نوازے گا کہ آپکو خوش کر دے گا۔ ہاں، ٹائم فریم اسکا اپنا ہے۔ ہم بس کوشش اور دعا کے مکلف ہیں۔
اللہ نہ کرے ہم یوں گہرائیوں اور اندھیروں میں جائیں لیکن اگر ایسا ہو ہی جائے تو جان رکھیے، "زندگی ویسی نہیں جیسی میں نے اور آپ نے چاہا تھا۔" اب یونس علیہ السلام کی دعا پورے شعور سے، مندرجہ بالا تمام نکات ذہن میں رکھ کر پڑھیے۔ اللہ نکالے گا اندھیروں سے۔
لا الہ الا انت سبحنک انی کنت من الظلمین
تبصرہ لکھیے