۔ کسی دوست کو اس کی مشکل میں اس کی درخواست پر ادھار دے کر واپس مانگنا بدترین جرم ہوتا ہے۔ اس کی پاداش میں پرانا تعلق بھی ختم ہو جاتا ہے۔
- کاروباری شراکت میں پیسے ڈالنا چاہے سگے بھائی کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو ایک اور بدترین جرم ہے۔ آپ کو بوقت ضرورت اپنے پیسے واپس مانگنے کو ترلے منت کرنا پڑتے ہیں۔
- زندگی مختصر ہے۔ اپنا وقت ان لوگوں کے ساتھ گذاریں جو آپ کو اچھے لگتے ہوں۔ اپنے اردگرد منفی رجحان رکھنے والوں یا قطعیت پسندوں سے فوری چھٹکارا حاصل کریں۔ خود کو بحث و مباحث میں نہ الجھائیں۔ اگر کوئی مصر ہو کہ ہاتھی اڑتا ہے تو اسے کہیں بالکل میں نے تار پر بیٹھا دیکھا تھا۔
۔ سوشل میڈیا آج کے دور میں زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ یہاں اپنے اردگرد کی صفائی بھی ویسی ہی ضروری ہے جیسی نجی زندگی میں۔ انتہاپسندوں ، وہ چاہے سیاسی ہوں یا مذہبی یا دائیں سوچ کے یا بائیں سوچ کے ، سب سے چھٹکارا حاصل کریں اور معتدل مزاج لوگوں کے ساتھ لنک رہیں۔ دنیا میں کوئی تاریخ، نظریہ، یا بات حرفِ آخر نہیں ہوتی۔
۔ دوسروں کو خوش کرنے کے بارے اتنا نہ سوچیں۔ آپ یقین کریں کہ لوگ اپنا کام نکلوا کر آپ کو بھول جائیں گے۔ یہ میرے ذاتی تجربات ہیں۔ صرف اپنی و اپنے اہل خانہ کی ذمہ داریوں کی پرواہ کریں۔
۔ سامنے آنے والے کسی واقعہ، سانحے یا بات کو جذبات کی عینک سے نہ دیکھیں۔ جذبات کا تعلق انسان کے خاص ہارمون سے وابستہ ہے۔ یہ ہارمون سوچنے کی صلاحیت کو دھندلا دیتا ہے۔ کوئی بھی چھوٹا یا بڑا فیصلہ فوری نہ لیں۔ اس پر کچھ دن ہر پہلو سے غور کریں۔ آپ یقین مانیں لوگ دوسرے لوگوں کا جذباتی استحصال کر گزرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ آپ جذباتی انسان ہیں۔
۔ دوستوں کو اتنی اہمیت دیں جتنی وہ آپ کو دیتے ہیں۔ بلاوجہ کسی کے معاملات میں مشورہ نہ دیں جب تک خود آپ سے مشورہ نہ مانگ لیا جائے۔ کسی بھی تعلق کو برابری کی سطح پر رکھیں۔ آپ سے بڑا کوئی وی آئی پی نہیں۔ تعلقات باہمی عزت و احترام کا نام ہے۔ کسی کے لیے بچھے چلے جانا آپ کو اگلے کی نظر میں ٹشو پیپر بنا دیتا ہے۔ لوگ ایسے ہی سوچتے اور ایسا ہی رویہ اختیار کرتے ہیں۔
۔ اگر کوئی آپ کی پریشانی میں حوصلہ نہیں دے سکتا یا آپ کی خوشی میں خوش نہیں ہو سکتا تو آپ کا بھی حق ہے کہ اس سے اسی طرح کا سلوک روا رکھیں۔ اخلاص، مروت اور احساس سب آج کے زمانے میں کلیشے الفاظ ہیں جو اپنے معنی کھو چکے ہیں۔ ان سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
۔ جس شخص کے پاس مذہب و سیاست کے علاوہ کوئی تیسرا موضوع نہ ہو اس سے دوری اختیار کریں۔ مذہب و سیاست وہ موضوعات ہیں جو ہر انسان کے مطابق الگ طرح سے ہیں۔ ان پر ریڑھی بان سے لے کر بائیسویں گریڈ کے بابو تک ہر کسی کی اپنی رائے ہے اور ہر کوئی ان موضوعات کا تجزیہ نگار ہے۔ ان موضوعات پر مسلسل لکھنے والے آپ کو کچھ نہیں سکھا سکتے نہ ہی یہ موضوعات کسی کے باہنر ہونے کی سند بن سکتے ہیں۔
۔ کسی بھی امر میں انسانوں کی بیساکھیاں نہ تلاش کریں۔ لوگ اگر آپ کو سہارا دینے کو بیساکھی بنیں گے بھی تو وہ ساری دنیا کو بھی بتائیں گے کہ فلاں کی فلاں وقت فلاں طریقے سے مدد کی تھی۔ اپنی راہ خود تلاشیں۔ اپنے معاملات خود حل کریں۔ ضرورت سے بڑی کوئی طاقت نہیں اور بھوک سے بڑا کوئی موٹیویشنل سپیکر نہیں۔ یہ دونوں آپ کو راہ دکھاتے ہیں باقی آپ کی صلاحیت پر منحصر ہے۔
۔ عزت نفس پر سودے بازی کرنا آسان ترین حل ہوتا ہے۔ یہ آپ کو وقتی مسائل سے نکال سکتا ہے مگر پھر تمام عمر آپ کی عزت کمپرومائز رہتی ہے۔
۔ اگر کوئی کام آپ کے بس نہ ہو تو اگلے کو صاف انکار کر کے اس کا دل توڈ دینا اسے لارا لگائے رکھنے سے بہتر ہے۔ اگر اگلا سمجھدار ہو گا تو آپ کو مزید عزت دے گا اور ناسمجھ ہو گا یا آپ کا استعمال کرنا ہی اس کا مقصد ہو گا تو اس سے جان چھوٹ جائے گی۔
۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کتنی تکلیف برداشت کر رہے ہیں۔ زندگی کسی کے لیے نہیں رکتی۔ لوگ رونے والے کے ساتھ نہیں روتے صرف ہنسنے والے کے ساتھ ہنستے ہیں۔
۔ اگر وسائل ہوں تو نادار و مستحق لوگوں کی مدد کریں مگر انہیں بھیک پر پلنا نہ سکھائیں۔ مدد اس طرح کریں کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکتا ہو۔ مدد کا ہر وہ طریقہ جو sustainable نہیں وہ ایسا کنواں ہے جو آپ کا سارا سرمایہ بھی کھا سکتا ہے اور آخر کار پھر مسئلہ وہیں کا وہیں کھڑا ہوتا ہے۔
۔ غربت ہو یا امارت، خوش رہنا سیکھیں۔ لوگوں کی بے جا پرواہ نہ کریں لوگ نہ آپ کی امارت پہ خوش ہوں گے نہ آپ کی غربت میں آپ کے مددگار بنیں گے۔ خوشی کا تعلق آپ کے اندرونی موسم سے ہوتا ہے اور یہ موسم انسان کو خود بنانا پڑتا ہے۔ سرما کی دھوپ فرصت میں سینکتے رہنا بھی خوشی کا سبب بن سکتا ہے اور مہنگے مالز میں شاپنگ کر کے بھی انسان کو بے چینی گھیرتی ہے۔
۔ غریب کے سامنے اپنی امارت کا ذکر اور امیر کے سامنے اپنے نامساعد حالات کا ذکر ہرگز نہ کریں۔ ایسا کر کے آپ اس کی نظر سے گر جائیں گے۔ہاں کوئی خود حالات معلوم کرنا چاہے تو اس کے کہنے پر ذکرکر دینا نامناسب نہیں۔
۔خونی یا خاندانی رشتوں کے بیچ مالی و گھریلو معاملات میں خود نہ پڑیں جب تلک آپ کو دعوت نہ دی جائے۔ خود سے ری ایکٹ کرنا یا از خود نوٹس لے کر کوئی بات یا عمل کرنا معاملات کو مزید الجھا دیتا ہے اور اگلا اس کو اپنے گھر میں بے جا مداخلت سمجھ سکتا ہے۔
۔آپ سے بڑا کوئی وی آئی پی نہیں۔ کسی کو ضرورت سے زیادہ اہمیت نہ دیں۔ اکثر لوگ اس کو for granted لے لیتے ہیں۔
۔اگر آپ کی عمر ، قابلیت اور حالات اجازت دیتے ہیں تو جلد از جلد جہاں سینگ سمائے اس ملک کو بھاگ لیں۔ انسان کا وہی معاشرہ ہے جہاں اسے معاشی، قانونی ، جانی اور ریاستی تحفظ میسر ہو۔ باقی جنم بھومی ہے یا آبائی وطن ہے، جہاں پیدا ہونے یا نہ ہونے کا اختیار کسی انسان کے پاس نہیں ہوتا۔
۔زندگی مختصر ہے اس کو انتہائی منظم طریقے سے گزاریں۔ اسے جھگڑوں ، ضد اور انا کی بھینٹ مت چڑھائیں۔
۔قسمت کا انتظار بے وقوفی ہے،اپنا اور زندگی کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کریں۔
۔کامیابی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں۔ اپنی توانائی دوسروں کے پیچھے بھاگنے پر صرف نہ کریں۔ پیراشوٹ سے اترے لوگ کبھی عزت نہیں کما سکتے۔
۔غیر ضروری معاملات، غیر ضروری لوگوں اور غیر ضروری تنقید کو اگنور کرنے کی عادت ڈالیں۔ سنی سنائی باتوں پر طیش میں آنا جہالت ہے۔
۔زندگی کا کوئی بھی بڑا اور اہم فیصلہ لینے سے پہلے اگلے دس سالوں کو ذہن میں رکھیں کہ اس فیصلے کے اچھے یا برے اثرات آنے والے دس سالوں میں کیا ہو سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کہنے کو ہے مگر مضمون لمبا ہوتا جا رہا ہے۔ اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ
کون سیکھا ہے صرف باتوں سے
سب کو اک حادثہ ضروری ہے
بی ہیپی آلویز۔
تبصرہ لکھیے