پنجابی زبان ہماری پہچان، ہماری ثقافت اور ہمارے عظیم ورثے کی امین ہے۔ 21 فروری کو ہر سال دنیا بھر میں “مادری زبانوں کا عالمی دن” منایا جاتا ہے، جس کا مقصد ہر قوم کی مادری زبان کی اہمیت کو اجاگر کرنا اور ان کے فروغ کے لیے اقدامات کرنا ہے۔ پاکستان میں بھی اس دن کو بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے، خاص طور پر پنجاب کے مختلف اضلاع میں پنجابی زبان کے حق میں تقاریب، سیمینارز، مشاعرے اور ریلیاں منعقد کی جاتی ہیں۔ پنجاب کے تقریباً ہر ضلع میں پنجابی زبان کے فروغ کے لیے تقاریب ہوئیں، جہاں پنجابی زبان کی اہمیت اور اسے نصاب میں شامل کرنے پر زور دیا گیا۔ پنجاب کے مختلف شہروں میں پنجابی زبان کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے جلسے اور جلوس منعقد کیے گئے، مگر افسوس کی بات ہے کہ اٹک میں، جہاں پنجابی زبان کو ہمیشہ محدود کرنے کی کوشش کی گئی، وہاں اس حوالے سے کوئی بڑی عوامی ریلی یا احتجاج نظر نہیں آیا۔
ضلع اٹک، جو پنجابی زبان کا ایک مضبوط گڑھ سمجھا جاتا ہے، یہاں کے لوگ پنجابی شناخت رکھتے ہیں۔ یہاں پنجابی کے مختلف لہجے جیسے چھاچی یا کیمبلپوری، گھیبی، جنڈالوی اور جنگی بولے جاتے ہیں اور مقامی باشندے فخر سے خود کو پنجابی کہتے ہیں۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ پنجابیوں کی اکثریت ہونے کے باوجود یہاں پنجابی شناخت کے لیے ایک بھی عوامی جلوس نہیں نکالا جاتا۔ ہر سال یہ وعدہ کیا جاتا ہے کہ اٹک میں پنجابی زبان کے حوالے سے ایک عوامی جلوس نکالا جائے گا، لیکن یہ تاحال محض ایک وعدہ ہی رہا ہے۔
21 فروری 2025 کو اکادمی ادبیات کیمبل پور اٹک (جس کا قیام حال ہی میں عمل میں آیا ہے) کے زیر اہتمام ضلع کونسل ہال اٹک میں مادری زبانوں کے عالمی دن کی مناسبت سے ایک شاندار ادبی و ثقافتی تقریب منعقد ہوئی۔ تقریب کی صدارت ڈپٹی کمشنر اٹک راؤ عاطف رضا نے کی، جبکہ مہمان خصوصی اسسٹنٹ کمشنر انزہ عباسی تھیں۔ تقریب کی نظامت معروف علمی و ادبی شخصیت سید مونس رضا شاہ نے کی۔ تقریب کا آغاز جمال شاہ کی پرسوز قرات سے ہوا، جس کے بعد سید بلال شاہ نے نعتِ رسول مقبول ﷺ پیش کر کے سامعین کو روحانی سکون بخشا۔
طلباء اور مادری زبان سے محبت رکھنے والوں کی ایک کثیر تعداد نے اس تقریب میں بھرپور شرکت کی۔ کم و بیش تمام ادبی تنظیموں نے بھی اس تقریب میں اپنا نمایاں کردار ادا کیا۔
مقررین میں ڈپٹی کمشنر راؤ عاطف رضا، شیخ احسن الدین ایڈوکیٹ، وقار صدیقی ایڈووکیٹ، پروفیسر عثمان صدیقی، پروفیسر سید نصرت بخاری، طاہر اسیر، اور احمد علی ثاقب ایڈووکیٹ شامل تھے، جنہوں نے پنجابی زبان کی تاریخی، ثقافتی اور ادبی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ ڈپٹی کمشنر راؤ عاطف رضا نے اپنے خطاب میں زور دیا کہ پنجابی ہماری پہچان ہے اور اسے صرف گھریلو زبان تک محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ اسے تعلیمی اداروں میں بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ اکادمی ادبیات کیمبل پور کو ضلع کی مختلف تحصیلوں تک وسعت دی جائے گی۔
ایڈووکیٹ احسن الدین نے کہا کہ پنجابی زبان ہماری تہذیب کی شناخت ہے اور اسے نئی نسل تک پہنچانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ پروفیسر عثمان صدیقی نے کہا کہ پنجابی زبان محض ایک بولی نہیں، بلکہ صوفیائے کرام، شاعروں اور مفکرین کا پیغام ہے، جو ہمیشہ محبت، بھائی چارے اور رواداری کی تعلیم دیتا رہا ہے۔
اٹک کے مشہور لوک فنکار حکمت اعوان نے پنجابی ماہیے سنا کر محفل کو چار چاند لگا دیے، جبکہ سید بلال شاہ کی وارث شاہ کی “ہیر” نے سامعین کو جھومنے پر مجبور کر دیا۔ معروف شاعر حسین امجد نے شاہ حسینؒ کا پنجابی کلام سنا کر محفل میں عقیدت اور محبت کا رنگ بھر دیا۔
پنجابی مشاعرہ تقریب کا سب سے دلچسپ حصہ تھا، جس میں ثقلین انجم، ریاض کاوش، اقبال زرقاش، سجاد حسین ساجد، اور سابق سی ای او ایجوکیشن ملک محسن عباس نے اپنا پنجابی کلام پیش کیا۔ دیگر شعراء میں شیخ احسن الدین ایڈووکیٹ، سابق ڈی ای او ایجوکیشن راجہ مختار احمد سگھروی، طاہر اسیر، پروفیسر سید نصرت بخاری، حسین امجد، شہزاد نیاز کھوکھر، نامور عالم دین علامہ رفاقت حقانی، آنسہ مظہر، ساحرہ نقوی، اعجاز خان ساحر، محمد طاہر، اور راجہ زاہد حسین جرال شامل تھے۔
اٹک میں مادری زبان کے عالمی دن کو منانے کی روایت 2021 میں شروع ہوئی، جب پروفیسر سید نصرت بخاری نے اس کے فروغ کے لیے ادبی تنظیم سُنیہا کے زیر اہتمام عملی قدم اٹھایا۔ اس سے پہلے ہم یار لوگ اقبال زرقاش اور ناچیز شہزاد حسین بھٹی گجرات میں علی احمد گجراتی کی پنجابی ادبی و ثقافتی تنظیم “دل دریا پاکستان” رجسٹرڈ کے پلیٹ فارم سے ماں بولی پنجابی کے پروگراموں میں شرکت کرتے آ رہےتھے۔
گزشتہ روز ہونے والی تقریب بے شک کامیاب رہی، لیکن اس میں کچھ لیڈرشپ کی کمی محسوس ہوئی۔ رنگا رنگ پروگرام کو اُجلت میں جلدی ختم کر دیا گیا، حالانکہ ڈپٹی کمشنر راؤ عاطف رضا کے جانے کے بعد بھی پروگرام کو جاری رکھا جا سکتا تھا۔ کئی شاعر، ادیب، اور فنکار اپنا کلام مکمل طور پر پیش نہ کر سکے، جو کہ بہتر منصوبہ بندی سے ممکن تھا۔
اگرچہ اٹک میں پنجابی زبان کے حوالے سے اس سال کی تقریب ایک بڑا قدم ہے، لیکن یہ کافی نہیں۔ پنجابی زبان کے فروغ کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے، جلوس، سیمینار اور ریلیاں بھی ضروری ہیں، جو پنجاب کے دیگر شہروں میں ہو رہی ہیں، اور اٹک میں بھی انہیں اپنانا لازم ہے۔ ایسے پروگرام مستقبل میں بھی جاری رہنے چاہئیں تاکہ پنجابی زبان کو وہ مقام دیا جا سکے جس کی وہ حقدار ہے۔ پنجابی ہماری مادری زبان ہے، اور اسے مستقبل میں بھی عزت اور مقام دینا ہماری ذمہ داری ہے۔
تبصرہ لکھیے