ہوم << بریسٹ کینسر کا موضوع ٹیبو کیوں ؟ اعجازالحق عثمانی

بریسٹ کینسر کا موضوع ٹیبو کیوں ؟ اعجازالحق عثمانی

اپنے کمرے میں حقہ پیتے ہوئے اچانک چاچے رحمتے نے اپنی جیب سے فون نکالا۔ نمبر ڈائل کرنے کے بعد انھوں نے اپنے کسی عزیز کی آواز سننے کےلیے فون کا سپیکر آن کیا۔ مگر آواز۔۔
"چھاتی کا کینسر خواتین میں پایا جانے والا ایک جان لیوا مرض ہے۔"
یہ جملہ ابھی مکمل ہی نہیں ہو پایا تھا کہ چاچے رحمتے نے کال بند کر دی۔

رانی کمرے کے باہر کھڑی فون سے آنے والی یہ آوازیں بڑے غور سے سن رہی تھی۔ گزشتہ کئی دنوں سے وہ اپنے سینے میں گلٹی محسوس کر رہی تھی۔ مگر گھر میں کسی کو بتانے سے ہچکچا رہی تھی۔ پورا دن اس کے ذہن میں ایک ہی جملہ گونجتا رہا:
"چھاتی کا کینسر خواتین میں پایا جانے والا ایک جان لیوا مرض ہے۔"
اور یہ اسے کہیں نہ کہیں پریشان بھی کر رہا تھا۔ ذہن کو پرسکون کرنے کی خاطر اس نے ٹی وی کا ریموٹ اٹھایا۔ ٹی وی سکرین پر ایک ڈاکٹر چھاتی کے کینسر کی علامت بتا رہا تھا:
"کسی واضح گلٹی یا دانوں کے علاوہ بھی چھاتی کے کینسر کی مختلف علامات ہو سکتی ہیں۔ جیسا کہ چھاتی کی جلد کے دیکھنے اور چھونے میں تبدیلی، چھاتی میں درد یا بے آرامی، خاص طور پر اگر یہ درد نیا اور جانے کا نام نہ لے رہا ہو۔"

یہ سب سنتے ہوئے رانی کا ماتھا پریشانی اور خوف کی وجہ سے پیسنے سے شرابور تھا۔خوف اور درد سے وہ روئے جارہی تھی۔ مگر وہ گھر میں اپنی یہ حالت کسی کو بھی نہیں بتا پارہی تھی۔طبیعت میں شدید بگاڑ کی وجہ سے وہ ایک دن سے ہسپتال میں داخل تھی۔ کہ اگلے روز ڈاکٹر نے وارڈ سے نکلتے ہوئے چاچے رحمتے کو بتایا کہ چھاتی کا کینسر آپ کی بیٹی کی جان لے گیا۔

1990 میں پہلی دفعہ بریسٹ کینسر کے حوالے سے عوام میں شعور اجاگر کرنے کی غرض سے "پنک ربن" مہم کا آغاز کیا گیا تھا۔ مگر آج بھی بریسٹ کینسر کا موضوع ایک ٹیبو ہے۔ ہم بات کرتے ہوئے شرم محسوس کرتے ہیں۔ اگر کوئی بات کرے بھی تو ہم سننا پسند نہیں کرتے ۔شاید اسی وجہ سے آج بھی پاکستان میں ہر 9 میں سے ایک خاتون کو بریسٹ کینسر کا خطرہ ہے۔ پاکستان میں بریسٹ کینسر کی پہلی سٹیج پر تشخیص کا ریٹ آج بھی 4 فیصد سے کم ہے۔ ایشیا میں بریسٹ کینسر کی سب سے زیادہ شرح پاکستان میں پائی جاتی ہے ۔ ڈیٹا کے مطابق ہر سال تقریباً 90 ہزار خواتین میں بریسٹ کینسر کی تشخیص ہوتی ہے۔ جبکہ چالیس ہزار سے زائد خواتین ہر برس اس مرض سے موت کا شکار ہوتی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں بریسٹ کینسر یا چھاتی کے سرکان سے موت کی شرح 26 فیصد سے زائد ہے۔ چھاتی کا سرکان خواتین کو ہونے والے کینسرز میں سر فہرست ہے ۔ یہ کینسر عموماً 50 سے 60 سال کی عمر کی خواتین میں پایا جاتا ہے ۔ لیکن کم عمری میں بھی چھاتی کا سرکان رپورٹ ہورہا ہے۔

چھاتی کا سرکان یا بریسٹ کینسر شرم کی بات نہیں۔ باقی بیماریوں کی طرح یہ بھی ایک بیماری ہے، جس کا علاج ممکن ہے۔ مگر آگاہی کے بنا اس بیماری سے لڑنا ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ اگر خواتین کو بریسٹ کینسر کے بارے میں آگاہی ہوگی تو وہ بروقت ڈاکٹر کے پاس جائیں گی۔ بروقت تشخیص سے اس کا علاج ممکن ہے۔ خواتین کو چاہیے کہ چھاتی میں کوئی گلٹی یا فرق محسوس کریں تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں۔اگر چھاتی کے سرکان سے بچنا ہے تو پلیز بریسٹ کینسر کے موضوع کو ٹیبو سمجھنا بند کیجیے۔

Comments

Avatar photo

اعجاز الحق عثمانی

اعجازالحق عثمانی ابھرتے ہوئے نوجوان لکھاری ہیں۔ سپیرئیر یو نیورسٹی لاہور سے ایم فل کر رہے ہیں۔ تعلق تلہ گنگ سے ہے۔ ”انسائیکلو پیڈیا آف کلر کہار اور عثمانی نامہ، دو کتابوں کے مصنف ہیں۔ اردو پوائنٹ پر بطور اینکر جبکہ کئی پرائیوٹ ریڈیوز پر بطور آر جے کام کرتے رہے ہیں۔ مختلف اخبارات میں کالم لکھتے ہیں

Click here to post a comment