اس بات سے انکار نہیں کہ قادیانیت برطانوی استعمار کا خود کاشتہ پودا ہے کہ جسے مسلمانوں کو توڑنے کے لیے تخلیق کیا گیا بر صغیر پاکو ہند میں پیدا ہونے والے فتنوں میں سے صف اول پر انکار ختم میں نبوت اور صف دوم پر انکار سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو شمار کیا جا سکتا ہے.خود غلام احمد قادیانی کا اپنا بیان ملاحظہ کیجئے .
"میری عمر کا اکثر حصہ اس سلطنت انگریزی کی تائید اور حمایت میں گزرا ہے اور میں نے ممانعت جہاد اور انگریزی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں اور اشتہار شائع کئے ہیں کہ اگر وہ رسائل اور کتابیں اکھٹی ہیں تو پچاس الماریاں ان سے بھر سکتی ہیں۔ میں نے ایسی کتابوں کو تمام ممالک عرب اور مصر اور شام اور کابل اور روم تک پہنچا دیا ہے۔ میری ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ مسلمان اس سلطنت کے سچے خیرخواہ ہو جائیں اور مہدی خونی اور مسیح خونی کی بے اصل روایتیں اور جہاد کے جوش دلانے والے مسائل جو احمقوں کے دلوں کو خراب کرتے ہیں، ان کے دلوں سے معدوم ہو جائیں"۔(تریاق القلوب ص 28,27 مندرجہ ذیل روحانی خزائن جلد 15 ص 156,155 از: مرزا غلام احمد قادیانی)
"سو میرا مذہب جس کو میں بار بار ظاہر کرتا ہوں، یہی ہے کہ اسلام کے دو حصے ہیں۔ ایک یہ کہ خدا تعالیٰ کی اطاعت کریں، دوسرے اس سلطنت کی جس نے امن قائم کیا ہو، جس نے ظالموں کے ہاتھ سے اپنے سایہ میں ہمیں پناہ دی ہو۔ سو وہ سلطنت حکومت برطانیہ ہے"۔ (اشتہارات القرآن ص 84، مندرجہ روحانی خزائن جلد ص 380 از: مرزا قادیانی)
"سو یہی انگریز ہیں جن کو لوگ کافر کہتے ہیں جو تمہیں ان خونخوار دشمنوں سے بچاتے ہیں اور ان کی تلوار کے خوف سے تم قتل کئے جانے سے بچے ہوئے ہو۔ ذرا کسی اور سلطنت کے زیر سایہ رہ کر دیکھ لو کہ تم سے کیا سلوک کیا جاتا ہے۔ سو انگریز سلطنت تمہارے لئے ایک رحمت ہے۔ تمہارے لئے ایک برکت ہے اور خدا کی طرف سے تمہاری وہ سپر ہے۔ پس تم دل و جان سے سپر کی قدر کرو"۔(مجموعہ اشتہارات جلد سوئم ص 584، از: مرزا غلام احمد قادیانی)
اس تاریخی حقیقت کے معلوم ہو جانے کے بعد کہ قادیانیت اپنی اصل میں کوئی مذہب ، مسلک ، مکتب فکر یا نظریہ ہے ہی نہیں اس بات کا ادراک بھی ضروری ہے کہ قادیانیت کی مخالفت صرف عرف عام میں مستعمل مولوی طبقے کی جانب سے ہی نہ ہوئی بلکہ پاکستان کی فکری اساس کے بانی ڈاکٹر محمد اقبال مرحوم قادیانیت کے سب سے بڑے مخالفین میں سے تھے . یہ بات ہے ١٩٣٦ کی کہ جب اقبال کا ایک خط پنڈت جواہر لال نہرو کے نام گیا خط کا متن کچھ یوں ہے
Response of Dr. Sir Muhammad Iqbal to the Governor of India, Pandit Jawahar Lal Nehru
Regarding the Qadiani (Ahmadiyya) Cult [From the Book: A Bunch of Old Letters, Asia Publishing House, Bombay, Calcutta, New Dehli, Madras] Lahore
June 21, 1936
Dear Pandit Jawahar Lal,
Thank you so much for your letter which I received yesterday. At the time I wrote in reply to your articles, I believed that you had no idea of the political attitude of the Ahmadis. Indeed, the main reason why I wrote a reply was to show, especially to you, how Muslim loyalty had originated and how eventually it had found a basis in Ahmadism. After the publication of my paper, I discovered, to my great surprise, that even the educated Muslims had no idea of the historical causes which had shaped the teachings of Ahmadism moreover. Your Muslims admirers in the Punjab and elsewhere felt perturbed over your articles as they thought you were in sympathy with Ahmadiyya movement. This was mainly due to the fact that the Ahmadis were jubilant over your articles. The Ahmadis Press was mainly responsible for this misunderstanding about you. However, I am glad to know that my impression was erroneous. I myself have little interest in theology, but had to dabble in it a bit in order to meet the Ahmadis on their own grounds. I assure you that my paper was written with the best of intentions for Islam and India. I have no doubt in my mind that the Ahmadis are traitors both to Islam and India.
I was extremely sorry to miss the opportunity of meeting you in Lahore. I was very ill in those days and could not leave my rooms. For the last two years, I have been living a life of practical retirement on account of continued illness. Do let me know when you come to the Punjab next. Did you receive my letter regarding your proposed Union for Civil Liberties? As you did not acknowledge it in your letter, I fear it never reached you.
Sincerely yours,
Mohammad Iqbal
یہاں اقبال مرحوم انتہائی وضاحت کے ساتھ قادیانیوں کو نا صرف اسلام بلکہ متحدہ ہندوستان کا دشمن بھی قرار دیتے نظر آتے ہیں
” I have no doubt in my mind that the Ahmadis are traitors both to Islam and India”.
عجیب بات یہ ہے کہ قادیانیوں اور قادیانیت کو ملک و قوم کا اثاثہ قرار دینے والوں کو ڈاکٹر محمد اقبال مرحوم کی یہ رائےدکھائی نہیں دیتی .
بعد ازاں اقبال کا ایک تحقیقی مقالہ ” اسلام اور احمدیت ” کے نام سے شایع ہوا کہ جس میں قادیانیت کے تار و پود بکھیرے گئے ہیں .
” Islam and Ahmadism by Dr. Sir Muhammad Iqbal ”
Academy of Islamic Research and Publications, Lucknow, India, 1974
http://www.koranselskab.dk/profiler/iqbal/ahmadism.htm
اس مقالے کی ابتدا میں ہی اقبال مرحوم فرماتے ہیں .
It is equally obvious that the Qadianis, too, feel nervous by the political awakening of the Indian Muslims, because they feel that the rise in political prestige of the Indian Muslims is sure to defeat their designs to carve out from the Ummat of the Arabian Prophet a new Ummat for the Indian prophet.
اقبال نے رسول عربی صلی الله علیہ وسلم کے مقابل رسول ہندی کو رد فرمایا ہے اور اسے استعماری سازش قرار دیا ہے .
اقبال کا یہ مقالہ ماڈرن ریویو اور کلکتہ میں شایع ہونے والے پنڈت جواہر لال نہرو کے آرٹکلز کا جواب تھا .
یہ تاریخ کا عجیب المیہ ہے کہ اقبال مرحوم کے بعد مسلم لیگ کا رخ تبدیل ہوا اور تشکیل پاکستان کے بعد پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ ایک قادیانی تھا .
قادیانیت کی حیثیت متعین کرنے کے پیچھے ایک طویل تحریک اور قربانیوں کی ایک لازوال داستان ہے کہ جو بر صغیر پاک و ہند کی گلیوں سے ہوتی ہوئی پاکستانی پارلیمنٹ میں قادیانیت کی تکفیر پر اختتام پزیر ہوئی دور جدید میں اس عظیم پیمانے پر امت کے اجماع کی یہ واحد مثال ہے .
آئیے اب ہم آئین پاکستان کی ان اہم ترین دفعات کا مطالعہ کرتے ہیں کہ جو ٧٣ کے آئین کا حصہ ہیں .
ملاحظہ کیجئے .
Part IX: Islamic Provisions
227: Provisions relating to the Holy Qur’an and Sunnah.
[Explanation:- In the application of this clause to the personal law of any Muslim sect, the expression “Quran and Sunnah” shall mean the Quran and Sunnah as interpreted by that sect.]596(1) All existing laws shall be brought in conformity with the Injunctions of Islam as laid down in the Holy Quran and Sunnah, in this Part referred to as the Injunctions of Islam, and no law shall be enacted which is repugnant to such Injunctions.
تمام قوانین کا قرآن و سنت کے مطابق ہونا یا موجودہ قوانین کا قرآن و سنت کے مطابق کیا جان اس امر کو لازم تھا کہ اس حوالے سے مزید پیش رفت کی جاۓ اس حوالے سے آئین مزید گفتگو کرتا دکھائی دیتاہے .
The President or the Governor of a Province may, or if two-fifths of its total membership so requires, a House or a Provincial Assembly shall, refer to the Islamic Council for advice any question as to whether a proposed law is or is not repugnant to the Injunctions of Islam.
(229: Reference by 601 [Majlis-e-Shoora (Parliament)] , etc. to Islamic Council)
مزید اس بات کی صراحت کی گئی کہ کسی بھی غیر مسلم کو ملک کی قیادت کا حق حاصل نہیں ہوگا ملاحظہ کیجئے.
Required to be a Muslim in order to run for bid of becoming the President (male or female) and/or Prime Minister (male or female). No restriction as to religion or gender on any other post, up to and including provincial governor and Chief Minister.
(Article 227(1)–227(3) in Part IX: Islamic Provisions of the Constitution of Pakistan.)
یہاں صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ قادیانیت کے حوالے سے مزید وضاحت کی گئی.
The Constitution of Pakistan defined a Muslim as a person who believes in the unity and oneness of Allah, in the absolute and unqualified finality of the Prophet hood of the Islamic prophet, Muhammad, and does not believe in, or recognize as a prophet or religious reformer, any person who claimed or claims to be a prophet, in any sense of the word or of any description whatsoever, after Muhammad.
In keeping with this definition, the Second Amendment to the Constitution (1974) declared for the first time the Ahmadiyya Community and/or the Lahori Group as non-Muslims, since their leader, Mirza Ghulam Ahmad, claimed to be prophet of God as per hadith or sayings of Prophet Muhammad.
امتناع قادیانیت آرڈیننس ١٩٧٤ اس کا پابند بناتا ہے کہ قادیانیوں کا اپنے آپ کو اپنی پہچان عبادات کی کھلی تشہیر اپنے دین کی نشر و اشاعت یا کسی بھی انداز میں خود کو مسلمان ظاہر کرنے کا عمل ایک قابل تعزیر جرم قرار پاۓ گا . اب یہاں بنیادی بحث یہ ہے کہ پاکستان کے قادیانی گو اصولی طور پر ایک مذہبی اقلیت ہی شمار ہونگے لیکن انمیں اور اور دوسری اقلیتوں میں انتہائی بنیادی فرق یہ ہے کہ انکا اور مسلمانوں کا دعویٰ دراصل ایک ہی مذہب سے متعلق ہے . ایسا کوئی اختلاف مسیحیت یا ہندو مت یا سکھ مت کے ساتھ نہیں کہ جو باہم تنازع کا موجب ہو لیکن ایک ہی دین کے حوالے سے قادیانی بطور مذہبی اقلیت ہمارے حریف بھی ہیں . اسکی مثال ایسی ہی ہے کہ کسی زمین پر دو افراد مدعی ہوں کہ وہ انکی ملکیت ہے .
قادیانیوں کا کسی بھی کلیدی عہدے پر ہونا خاص طور پر پاکستانی افواج یا اسٹیبلشمنٹ کے کلیدی مناصب تک پہنچنا یہاں تک کہ ملک کے سپاہ سالار اعظم چیف آف دی آرمی اسٹاف کے حوالے سے انکا نام آجانا ایک لمحہ فکریہ ہے . چونکہ آج بھی قادیانی عالمی سطح پر اپنے مذہب کی نشر و اشاعت میں بطور اسلام مصروف ہیں اور مملکت پاکستان میں خفیہ {ربوہ میں کھلے عام} اور دنیا میں کھل کر اس پر عمل پیرا ہیں ایسے میں مملکت پاکستان کے اہم ترین عہدوں پر بطور اقلیت قادیانیوں کے قابض ہو جانے کے حوالے سے قانون سازی کی شدید ضرورت ہے .
دوسری جانب ہمارے آئین کی بنیادی شق قرآن و سنت کا سپریم لا ہونا اس بات کی تائید کرتی ہے کہ کوئی بھی ایسی اقلیت کہ جو خود کو عالمی سطح پر کافر ہوتے ہوۓ مسلمان ثابت کرنے کی کوشش کرے آئین شکن شمار ہوگی اور اس حوالے قانون سازی کی مکمل اجازت ہوگی . کرنے کا کام یہ ہے کہ مقننہ سے لیکر عدلیہ تک ہر فورم پر اس مسلے کو اٹھایا جاۓ اور آئین پاکستان کی اسلامی دفعات کے مطابق قادیانیوں کے کسی بھی کلیدی عہدے پر آنے کی آزادی کے خلاف قانون سازی کی جاۓ.
تبصرہ لکھیے