جناب اطہر وقار صاحب کل بارہا اس بات پر سوال اٹھا رہے تھے کہ کیا کوئی تاریخ کا تجزیاتی مطالعہ کرتے ہوئے نیوٹرل رہ سکتا ہے؟ جیسا کہ ہمارے نیم سیکولرز اور مغربیت سے مرعوب طبقے کا دعویٰ ہے۔ جو تاریخِ اسلام کو مسخ کرنے کے لیے یہ ہتھکنڈا اپناتے ہیں کہ ہم تو تاریخ کا نیوٹرل ہو کر مطالعہ کرتے ہیں اور پھر اس پر تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ اب اگر اس میں اسلام و مسلمان کی بد نامی ہو جاتی ہے تو ہم ذمہ دار نہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ لوگ نیوٹرل ہو کر نہیں بلکہ اپنے ذہن کے مطابق ایک خاص منظرنامے کے تناظر میں اپنا مطالعہ پیش کرتے ہیں۔۔۔۔
اس سوال پر اپنی دانست میں جو مناسب جواب مجھے معلوم ہوا، یہ تھا:
تاریخ کا یا کسی بھی موضوع کا تجزیاتی مطالعہ ہو، اس میں نیوٹرل رہنا ایک ڈرامہ تو ہو سکتا ہے، حقیقت نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ہر انسان اپنے اندر جذبات و احساسات رکھتا ہے، ان کا تقاضا ہے کہ یہ انسان کا میلان اور اس کا جھکاؤ ایک طرف کرتے ہیں ، سو اگر کوئی یہ کہے کہ اس کا تجزیہ خالص نیوٹرل بنیاد پر ہے، اور وہ اس میں کسی طرح کا جھکاؤ نہیں رکھتا، یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی یہ دعویٰ کرے کہ اس کے اندر احساسات یا جذبات نہیں ہیں۔ یہ معاملہ اس وقت زیادہ پیچیدہ ہو جاتا ہے جب دونوں فریقین کی بابت تجزیہ کرنے والے کو علم بھی ہو۔ لاعلمی میں تو تجزیاتی مطالعہ میں نیوٹرل رہنا ممکن ہے، لیکن پہلے سے اگر ساخت بنی ہوئی ہو اور ذہن میں کچھ راسخ ہو چکا ہو، تو اس کے بعد نیوٹرل مطالعہ ناممکن ہے۔
ایک مثال سے یہ بات سمجھی جا سکتی ہے۔ وکرانت گپتا جو بھارتی کرکٹ تجزیہ کار ہے، وہ کل تابش سے بات کرتے ہوئے یہ بات قبول کر رہا تھا کہ کوئی کتنا بڑا بھی تجزیہ کار ہو اور حقیقت پسند ہو، اس کا کسی ٹیم کو فیورٹ نہ رکھنا ناممکن ہے۔ ساتھ ہی وہ کہتا ہے کہ اگر بھارتی ٹیم کسی ٹرافی کی دوڑ سے باہر ہو جائے تو اس کےلیے وہ ٹرافی بے معنی ہو جائے گی، کیونکہ وہ خود کو اس ٹرافی سے باہر سمجھے گا، چاہے وہ کتنا ہی حقیقت پسند تجزیہ کرنے والا ہو۔
یہی حال تاریخ کا بھی ہے کہ جب کبھی اس کا تجزیاتی مطالعہ کیا جائے گا تو یقینا تجزیہ کرنے والے کا جھکاؤ ایک طرف ہوگا، جس کی طرف وہ چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے جائے گا۔ںاب ہمارے سیکولرز تجزیہ نگاروں کا جھکاؤ اسلام مخالف مواد کی طرف ہے، سو وہ اسے ہی مارکیٹ میں پیش کرتے ہیں اور پھر خود کو نیوٹرل بھی کہتے ہیں، جو سراسر دھوکہ دہی ہے۔ اس کے سوا کچھ نہیں۔
تبصرہ لکھیے