رات کی تنہائی میں ،گھڑی کی ٹک ٹک کرتی آواز پر ،وہ ٹپ ٹپ کرتے نلکے سے نکلنے والے قطرے کتنے قطار اندر قطار ہیں ؟ آدھ کھلی کھڑکی میں سے گلی کا وہ روشن بلب جو کھڑکی کے شیشے کو چیرتا ہوا اندر آن پہنچا ۔ سنسان سڑک پر گزرتا ہوا وہ ٹرک اور اس کا حقہ ،سگریٹ پیتا ہوا وہ ڈرائیور اپنی لاری کی مدھم روشنی میں اپنی راہ ڈھونڈتے منزل کی طرف رواں دواں ہے یہ منظر ایک خوبصورت بلی رات کے وسط میں گیٹ کے پائے کے اوپر بنے گلوب پر بیٹھی اپنے اندر سمو رہی ہے اور کسی درخت کی ٹہنی پر بیٹھا ایک الو بھی ہے جو اپنے خیالوں میں گم پر مارتا کبھی آر جاتا ہے تو کبھی پار ۔۔۔اس آڑ میں کسی کوٹھی کے مکینوں کی ٹہل کرتے دروازے کے باہر اپنی چھوٹی سی کوٹھی میں بیٹھا وہ سیکورٹی گارڈ جو اپنے مکینوں کی سلامت نیند کا پابند ٹھرا آنکھوں میں نیند لیے حسرتوں کے بوجھ تلے صبح کی سفید روشنی کا انتظار کرتے رات ساری کاٹ دیتا ہے کہ امید سحر تو ہوگی ۔۔ساتھ ہی ساتھ چرس و بھنگ کی لت لگے ہوئے وہ بھنگی، جو نشہ کرنے کے بعد کھلے آسمان تلے سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر مدہوش لیٹے ہوئے ہیں، دنیا کے مصائب و الم سے کوسوں دور کھلی فضا تلے ،ٹھنڈی ہوا تلے ۔
جناب والی !سب کی اپنی اپنی زندگی ہوتی ہے اور سب کی اپنی اپنی منفرد کہانی ہوتی کہ ساتھ روانی بھی ہوتی ہے ۔ الفاظ کسی کے زخم دل بھی ثابت ہو سکتے ہیں اور مرہم دل بھی ۔۔فرق تو ہے کہ کوئی کسی کو توڑ گیا اور کسی کو جوڑ ۔۔۔۔ اپنا ،اپنا روگ ۔۔اپنا ،اپنا ذوق ۔۔۔ سب کی کڑیاں کدھر نا کدھر جا کر آہوں سے ملتی ہیں باریک ہوں یا تیز ،دل میں ہوں راز یا ہوں اپنے نیاز ۔۔آہوں اور سسکیوں کا بھی اپنا ہی چلن ہے بڑی وسعت بھری ہوتی ہے ان میں جیسے سمندر کی تہوں میں چھپی موجیں کہ جب باہر آئیں تو طوفان برپا کر دیں اور اگر باہر نا آئیں تو خود ہی خود میں جیتی رہیں ،راز ڈھونڈتی رہیں ،کھوج لگاتی رہیں ،سراغ پاتی رہیں کہ لاحاصل تو مل نا سکا چلو راز و نیاز ہی سہی کچھ پیچھے انداز بیاں ہی سہی کہ کچھ نا کچھ تو ہوتا ہی ہے آخر ۔۔ درد بھی آخر اپنا ٹھکانا دستکیں مارتا ،مارتا ڈھونڈ لیتا ہے ویسے بات آپس کی ہے کہ ہم سب اپنے آپ کو بڑے حتمی اور ٹھیک ،سلامت سمجھتے ہیں کہ ہم ٹھیک ہیں کہ نیتیں صاف ہیں تو پھر یہ خلا کیسے ہیں ؟ ایسے تو نہیں ہوتا ،کہیں دل سیاہ تو نہیں ہو چکے؟
اچھا یہ دل کا معاملہ بھی بڑا حساس ہے کہ باآواز ہے کسی کو راتوں رات کبیر تر کر دے یا زمین بوس !!؟جناب معاملات کچھ اور ہوتے ہیں اور خیالات کچھ اور ہوتے ہیں ۔۔بات سمجھنے سمجھانے کی ہے ۔۔۔تخیل بھی کیا عجب چیز ہے کہ کسی کا کسی سے ملن کروا دے گلے بھی لگا دے اور دیدار بھی کروا دے کہ مشرق والوں کو مغرب تک بھی پہنچا دے ۔
ہے نا بڑی بات کہ نہیں ؟ عمدہ تو بہت ہے مگر کرے کون ؟ کہ معاملہ تھوڑا مشکل ہے مگر ہے باذوق ۔۔۔ جناب ہر کسی کا انداز زندگی کا اپنا تیور ہے قدر والوں کے لیے ہی قدر ہے دل والوں کے لیے ہی دل ہیں اور باقیوں کہ لیے محض گوشت کا ایک ٹکڑا۔طور سے بےطور ہونے میں کتنا وقت لگتا ہے ؟ مٹی میں مٹی ہونے میں کتنی صدیاں لگتی ہیں کتنے برس لگتے ہیں ؟ ہڈیاں چور ،چور ہونے میں کتنا سماں لگتا ہے ؟!! یقیناً بہت کم ۔۔۔
قدر کیجیے ایک دوسروں کی کہ اس کی بدولت خدا کے ہاں قدر ہوتی ،فرشتوں میں پذیرائی ملتی ہے ،قبر خوشبودار ہوتی ہے ۔۔ ہر کسی کا اپنا اپنا کردار ہے جب تک مہلت ہے کردار نبھاتا رہے گا اور پھر چلا جائے گا کسی کو کم تر نا سمجھیے گا کہ وہ کتنا عزیز تر ہو نگاہ سکندر میں کہ ہر کسی کا اپنا ،اپنا چلن ہے ۔ اپنا اپنا روگ ۔۔۔اپنا اپنا ذوق ۔۔۔ واہیں اور آہیں اپنی اپنی مگر دکھ سب کا سانجھا ہی ہے ۔بات سمجھنے ،سمجھانے کی ہے ۔
تبصرہ لکھیے