ہوم << الثورۃ العربیہ الکبری؛ وجوہات اور تانے بانے - ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

الثورۃ العربیہ الکبری؛ وجوہات اور تانے بانے - ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

عرب بغاوت کو الثورۃ العربیہ الکبری کہا جاتا ہے اس میں سب سے بڑا اور اہم کردار عرب نیشلزم اور ہاشمی خلافت کے تصور نے ادا کیا تھا ۔

عرب بغاوت میں عرب نیشلزم کا کردار:
عرب نیشلزم (عرب قوم پرستی) کا آغاز انیسویں اور بیسویں صدی کے دوران ہوا۔ یہ تحریک عرب دنیا میں عثمانی سلطنت کے خلاف ردعمل کے طور پر ابھری اور عربوں کو ایک متحد قوم کے طور پر منظم کرنے کی کوشش کی گئی۔ خاص طور پر انیسویں صدی کے اختتام تک ایک طرف تو عرب دنیا میں پین عرب ازم Pan Arabism اور عرب نشنلزم اور دوسری طرف ترکی میں ترک ازم کا زہر پھیلنا شروع ہو گیا تھا ۔ قومیت اور نسلی تعصب کے اس زہر کی اشاعت وترویج میں دین سے دوری اور سیکولرازم کا سب سے زیادہ اہم کردار تھا ۔ اس تحریک کا بنیادی مقصد عرب خطوں کو عثمانی تسلط سے آزاد کرانا اور عربوں کی سیاسی، ثقافتی اور معاشرتی خودمختاری کو فروغ دینا تھا۔ اس کا دوسرا سب اہم مقصد سلطنت عثمانیہ کی وحدت اور بنیادوں کو رنگ نسل اور قومیت کی بنیاد پر تقسیم کر کے کمزور کرنا تھا تاکہ اس کے حصے بخرے کر کے خلافت کے خاتمہ اور فلسطین میں یہودیوں کی ریاست کے قیام کے لئے راہ ہموار کی جاسکے ۔

عرب نیشلزم کی ابتدا میں مختلف عوامل نے اہم کردار ادا کیا، جن میں:
1. عثمانی حکومت کے خلاف ناراضگی : عربوں کو عثمانی سلطنت میں دوسرے درجے کے شہری سمجھا جاتا تھا، جس کی وجہ سے ان میں ناراضگی پھیلی۔
2. مغربی اثرات : یورپی استعمار اور قوم پرستی کے خیالات نے عرب دانشوروں اور رہنماؤں کو متاثر کیا۔
3. ثقافتی بیداری : عرب زبان، ادب اور تاریخ کے احیاء نے عرب قوم پرستی کو تقویت بخشی۔

انیسویں صدی کے اختتام تک یہ زہر پوری طرح عرب دنیا میں سرایت کر چکا تھا اور عرب نیشلزم کا پرچار کر نے والوں کی ایک پوری کھیپ تیار ہو چکی تھی جس کی سوچ نے فلسطین سمیت پورے عرب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ ان میں سے اکثریت کا تعلق شام، عراق اور مصر سے تھا۔ ‎انیسویں صدی کے اواخرمیں دو شخصیات نے عرب قوم پرستی کے آغاز میں سب سے اہم کردارادا کیا. ‎یہ جمال الدین افغانی (1838- 1897) اور اس کے شاگرد مصر کے گرینڈ مفتی محمد عبدہ (1905– 1849 ) تھے۔ چارلس ہنری چرچل نے جمال الدین افغانی کے بارے میں لکھا ہے: ”جمال الدین افغانی اگرچہ بظاہر الوحدة الإسلامية Pan Islamism ، نیشلزم Nationalism , ہندو مسلم اتحاد اینٹی ایمپیرلسزم Anti Imperialism اور اینٹی کولونیلزم Anti Colonialism کا علمبردار نظر آتا ہے لیکن اس نے خلافت عثمانیہ کو ختم کر کے ان کی جگہ امیر عبدالقدیر الجزائری کو خلیفہ بنانے کی مہم بھی چلائی۔“

اسی تحریک کے نتیجے میں خلافت عثمانیہ میں پہلی دراڑ اس وقت پڑی جب مصر ترکی سے آزاد ہو کر علیحدہ ملک بن گیا ۔ کریم وسا Karim Wissa اپنی کتاب میں بیان کرتے ہیں : ”جمال الدین افغانی نے اسماعیل پاشا کو برطرف کرنے اور توفیق پاشا کو خدیو مصر بنانے میں اور مصر کی سلطنت عثمانیہ سے علیحدگی میں بڑا اہم کردار ادا کیا.“ محمد توفیق پاشا ۱۸٧٩ء سے ۱۸۹۲ء تک مصر اور سوڈان کا خدیو ( سلطان ) رہا ۔ اس کی سب سے بڑی کامیابی سلطنت عثمانیہ سے آزادی حاصل کرنا تھی۔

محمد عبدہ نے ایک مسلم عالم، محقق، فقیہ مصر کے مفتی اعظم ، مصلح، مصنف و مؤلف کی حثیت سے انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں مصر کے اندر انتہائی مؤثر کردار ادا کیا ، وہ شیخ جمال الدین افغانی کا شاگرد تھا، اور اسے مصر کا تاریخ ساز مصلح ، اصلاح کا داعی اور عظیم شخصیت تصور کیا جاتا ہے۔ وہ ماہر تعلیم کے طور پر اور مختلف ادیان کے ایک بڑے عالم کے طور پر جانا جاتا ہے اور ایک پوری نسل اس کے افکار و سوچ سے متاثر نظر آتی ہے ۔ عرب نیشلزم اور پین ارب ازم کا پرچار اس کی اولین ترجیح رہا۔ محمد عبدہ کے ایک شاگرد اور پیروکار عبد الرحمن الکواکبی نے اس نظریے کے فروغ میں سب سے اہم کردار اداکیا جس کی لکھی دو کتابیں The nature of tyranny and the struggle against slavery ( طبائع الإستبداد ومصارع الإستعباد) ، ‏and Mother of All Villages (أم القرى ) آج بھی عرب نیشلزم کے موضوع پر حرف آخر سمجھی جاتی ہیں.

رشید رضا
- رشید رضا بھی محمد عبدہ کا شاگرد مصلح اور مفکر تھا ، جس نے اسلامی اور عرب قوم پرستی کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کی۔ وہ گو کہ خلافت کا حامی تھا لیکن اس کا خیال تھا مسلم امہ کے اتحاد کا واحد ذریعہ عثمانی نہیں، عرب خلافت ہے، اور اس نے عربوں کو عثمانی تسلط سے آزاد کرانے اور عرب دنیا میں اصلاحات کرنے اور عرب خلافت کے قیام کے لئے زمین ہموار کرنے کی کوششیں کیں۔ واشنگٹن یونیورسٹی کی پروفیسر الزیبتھ تھامسن نے لکھا ہے: ‏Al-Kawakibi's and Rashid Rosa’s thoughts on Islamic democracy influenced an entire generation of Arab reformers.

نجیب عازوری
- نجیب عازوری بھی ایک عرب قوم پرست رہنما تھا جس نے 20ویں صدی کے آغاز میں عرب قوم پرستی کی تحریک کو منظم کرنے کی کوشش کی۔ اس نے “ عرب قومیت کی بیداری"جیسی کتابیں لکھیں اور عربوں کو عثمانی تسلط سے آزاد کرانے کی وکالت کی۔

قاسم امین
- قاسم امین نے عرب دنیا میں سماجی اور ثقافتی اصلاحات پر زور دیا۔ اس نے مصر نیشنل موومنٹ اور قاہرہ یونیورسٹی قائم کی، اور عرب معاشرے کو جدید بنانے کی کوشش کی، جو عرب قوم پرستی کے فروغ میں معاون ثابت ہوا۔ اسے عرب دنیا میں پہلے حقوق نسواں کے علمبردار کے طور پر بھی دیکھا جاتاہے۔

ساطع الحصری
ایک عراقی اور شامی دانشور اور ماہر تعلیم تھا جو جرمن قوم پرست رومانوی دانشوروں ہردر Herder اور فشتے Fichte سے گہرا متاثر تھا. ماہر شریف نے لکھاہے کہ ساطع نے خاص طور پر عربی زبان اور ثقافت کو ترویج دینے کی کوشش کی، اور عرب قوم پرستی کی طرف اس کا نقطہ نظر بڑا جذباتی اور ولولہ انگیز تھا ۔

عرب قوم پرستی کے آغاز اور فروغ میں اس دور کی یہ وہ پوری ایک نسل تھی جس نے اتنا کام کیا کہ جب بیسویں صدی کا آغاز ہوا تو سارا عرب اس کی لپیٹ میں آ چکا تھا۔ عرب ازم اور نشنلزم کی اس بڑھتی وبا نے حسین بن علی اور خاص طور اس کے بیٹے شہزادہ فیصل بن حسین کو بہت متاثر کیا ۔ شہزادہ فیصل نے ہی تھامس لارنس کے ساتھ مل کر عرب بغاوت (الثورة العربية الكبرى) کی قیادت کی تھی۔

عرب بغاوت اور ہاشمی خلافت
خلافت عثمانیہ کی مخالفت کی ایک اور بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ حسین بن علی اپنی خلافت قائم کرنا چاہتا تھا۔ عربوں میں قبائلی تفاخر اور عرب قومیت کی برتری کا جذبہ ازل سے موجود تھا، اور اسلام کی ابتدائی اشاعت اور ترویج کے دوران رسول اکرم کے رستے کی سب سے بڑی رکاوٹ بھی یہی احساس تفاخر رہا ۔

ہلاکو خان نے ۱۲۵۸ء میں بغداد کو تباہ و برباد کیا، عباسی خلیفہ المعتصم باللّہ کو قتل کرنے کے بعد عباسی خاندان کے افراد کو چن چن کر مار ڈالا اور بغداد میں قائم خلافت عباسیہ کا خاتمہ کر دیا۔ لیکن مملوک سلطان سیف الدین قطز اور بیبرس نے ۱۲٦٠ء کو عین جالوت کی جنگ میں منگولوں کو عبرت ناک شکست دی۔ اس جنگ نے جہاں منگولوں کے ناقابل شکست ہونے کا بھرم توڑ دیا، وہیں وہ شام اور عراق سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ منگولوں سے نپٹنے کے بعد بیبرس نے ١٢٦١ء میں بڑی تلاش کے بعد عباسی خاندان کے آخری بچ جانے والے شخص احمد المستنصر کو خلیفہ بنا کر خلافت کو نئی زندگی دی اور دارالخلافہ قاہرہ منتقل کر دیا۔ اب خلیفہ بغداد کے بجائے قاہرہ میں مملوکوں کے زیر سایہ رہتا تھا۔ اسے قاہرہ کی عباسی خلافت کا نام دیا جاتا ہے، جو اڑھائی سو سال تک قاہرہ میں قائم رہی۔ 22 جنوری 1517ء کو سلطان سلیم اول نے آخری مملوک سلطان ترمان بے دوم کو جنگ الرادنییہ میں شکست دے کر قاہرہ پر قبضہ کرلیا اور یوں تین سو سالہ مملوک سلطنت کا خاتمہ ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی سارا مشرق وسطیٰ بشمول مکہ، مدینہ، عراق، شام، لبنان، یمن اور فلسطین بھی ترکوں کے زیر نگیں آ گئے۔

جب سلطان سلیم نے قاہرہ فتح کیا تو وہ وہاں موجود عباسی خلیفہ المتوکل سوئم کو اپنے ہمراہ قسطنطنیہ لے گیا، جہاں المتوکل سوم نے سلطان سلیم کے حق میں دستبردار ہو کر اس کو نیا خلیفہ نامزد کر دیا، اور اپنے پاس موجود وہ تمام تبرکات جو خلافت کی نشانی سمجھی جاتی تھیں، اس کے حوالے کر دیں۔ یہ تبرکات آج بھی ٹوپکی محل کے میوزیم میں موجود ہیں۔ یوں خلافت عباسی خاندان سے ارطغرل کے خاندان میں منتقل ہو گئی۔ خلافت عباسیوں سے ترکوں میں منتقل تو ہوگئی لیکن یہ محرومی شروع سے ہی عربوں کے لیے تکلیف دہ اور ناقابل قبول تھی۔ گزرتے وقت کے ساتھ اس احساس محرومی میں اضافہ ہوتا چلا گیا، لیکن کوئی مرکزی سیاسی طاقت نہ ہونے کی وجہ سے وہ ترکوں کی خلافت کے خلاف کوئی عملی قدم اٹھانے کے قابل نہ تھے۔ جب تک سلطنت عثمانیہ مضبوط رہی، اس احساس محرومی کو پنپنے کا موقع بھی نہ مل سکا، مگر جونہی سلطنت عثمانیہ مالی و معاشی کمزوری اور داخلی انتشار کا شکار بنی، تو اس ضعف کے ساتھ عربوں کا یہ احساس محرومی کا جذبہ بھی توانا ہوتا چلا گیا اور خلافت دوبارہ حاصل کرنے کی خواہش بھی شدید ہوتی گئی۔ ہاشمی اپنے آپ کو خلافت کا اصلی حقدار سمجھتے تھے۔ اس نظریے کو پھیلانے اور مضبوط کرنے میں یہودیوں کا بھی بہت اہم اور مرکزی کردار تھا جنگوں نے اس طرح کی مہمات پر باقاعدہ سرمایہ کاری کی۔ اسی کے زیراثر ہاشمیوں نے کئی بار خلافت کا دعویٰ کیا تھا۔

1890ء میں شیخ محمد بن يحيى حميد الدين نے صنعا پر قبضہ کرنے کے بعد پہلی بار خلافت کا دعویٰ بھی کیا تھا۔ شیخ حمیدالدین یمن کی زیدی سلطنت کا حکمران اور امام تھا۔ گو کہ سلطان عبدالحمید دوم نے اس بغاوت کو سختی سے کچل دیا، لیکن ترکوں سے آزادی کی خواہش کو مکمل ختم نہ کر سکا، اور ترکوں کے یمن پر قبضے کے خلاف یہ بغاوت بالآخر 1918ء میں اس وقت کامیاب ہوئی جب شیخ محمد کے بیٹے شیخ یحییٰ محمد حمیدالدین نے یمن کو ترکوں سے آزاد کروا لیا۔

حسین بن علی عرب نیشلزم سے زیادہ ہاشمی خلافت کے قیام پر ایمان رکھتا تھا، اور شریف مکہ اور ہاشمی ہونے کی وجہ سے خلافت کے دوسرے تمام عرب دعویداروں پر فوقیت بھی رکھتا تھا۔ جب ترکوں نے آرمینیا میں آپریشن شروع کیا تو شریف مکہ نے کھل کر آرمینیا کی حمایت کی، اور آرمینیا میں ہونے والے قتل عام کی کھلی مذمت کی۔ جس کے بعد شریف مکہ اور ترکوں کے تعلقات ایک ایسی نہج پر پہنچ گئے جہاں سے واپسی دونوں کے لئے ناممکن تھی۔

تین پاشا کا کردار اور ترک قوم پرستی
خلافت عثمانیہ کی شکست و ریخت اور توڑ پھوڑ میں تین پاشا کے کردار کو قطعاً نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی ترک قوم پرستی، نسلی منافرت اور عصبیت
بھری تحریک Turkification نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ حسین بن علی جیسے وہ عرب جو ابھی کسی حد تک خلافت عثمانیہ سے جڑے ہوئے تھے، وہ بھی ان کی پالیسیوں کے نتیجے میں دور ہوتے چلے گئے۔ جب انھوں نے ترکی کو جنگ میں دھکیل دیا تو یہ ترکی کی سلامتی کے کفن پر آخری کیل ثابت ہوا، اور مغربی و استعماری طاقتوں کو سلطنت ترکیہ کی فصیلوں میں سرنگ لگانے کا موقع مل گیا۔ یوں خلافت عثمانیہ جو پہلے ہی انتشار اور ضعف و کمزوری کا شکار تھی، تاش کے پتوں کی طرح بکھرتی چلی گئی۔ یہی وہ تین بڑی وجوہات تھیں جو عرب بغاوت الثورۃ العربیہ الکبری کا باعث بنیں، اور بالآخر خلافت عثمانیہ کو کھا گئیں ۔

پہلی جنگ عظیم کا آغاز اور آزاد یہودی سلطنت
بیری روبن اور کمال کرشی Barry M. Rubin; Kemal Kirişci کی مشترکہ کتاب (January 2001). Turkey in World Politics: An Emerging Multiregional Power میں لکھا ہے کہ تین پاشا جو سی یو پی کے ممبر تھے، اور ترکی کے حکمران تھے، ۱۹۱۴ء میں پہلی جنگ عظم کے آغاز اور آرمینیا میں قتل عام کے ذمہ دار تھے، اور ترکیہ کی عوام انھیں پہلی جنگ عظیم کے آغاز کا ذمہ دار سمجھتے ہیں.
“The Three Pashas, all members of the Central Committee of the Committee of Union and Progress, were largely responsible for the Empire's entry into World War I in 1914 on the side of the Central Powers and also largely responsible for the genocide of some one million Armenians. The Turkish public has widely criticised the Three Pashas for drawing the Ottoman Empire into World War I and its subsequent defeat”

جولائی 1914ء میں پہلی جنگ عظیم کا آغازہوا، جو 1918ء تک جاری رہی۔ اس جنگ میں اتحادی (امریکہ، انگلینڈ، فرانس، روس، اٹلی اور جاپان) جرمنی، سلطنت عثمانیہ، ہنگری اور آسٹریا کے مد مقابل تھے۔ گو کہ اس جنگ میں تمام مغربی ممالک شامل تھے لیکن اس کا اصل میدان جنگ مشرق وسطیٰ بنا اور اصل ہدف خلافت عثمانیہ رہی۔

خلافت عثمانیہ اصل ہدف اس لیے تھی کہ اپنی تمام تر کمزوریوں اور خامیوں کے باوجود وہ اسرائیل کے قیام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔ اس سے پہلے 1892ء میں تھیوڈور ھرزیل اسرائیل کے قیام کا تصور پیش کر چکا تھا، اور 1896ء اور 1902ء میں وہ سلطان عبدالحمید دوم کو فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری کے بدلے بڑی بھاری پیشکش بھی کر چکا تھا، جسے سلطان نے نفرت سے ٹھکرا دیا تھا۔ اس پر سب سے پہلے سی یو پی کے ذریعے سلطان سے نجات حاصل کی گئی اور پھر آخری سانسیں لیتی خلافت عثمانیہ پر جنگ مسلط کر دی گئی۔ یہودیوں نے اس جنگ پر بہت بڑی سرمایہ کاری کر رکھی تھی۔ اس سرمایہ کاری کے بدلے میں انھوں نے اتحادیوں سے اسرائیل کے قیام کی یقین دہانی حاصل کر لی تھی۔

پہلی جنگ عظیم اور عرب بغاوت
الثورۃ العربیہ الکبری
اتحادیوں کو ہر محاذ پر ترکوں کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تو انھیں محسوس ہوا کہ اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود ترک کوہ گراں ہیں۔ 1915 ء کے آخری عشرے ‎میں جب ترکوں نے انگریز حملہ آوروں کو ناکوں چنے چبوائے اور مارچ 1916ء کو دریائے دجلہ کے کنارے ترک کرنل خلیل پاشا نے برطانیہ کی دس ہزار سپاہ کو عبرتناک شکست دی، تو انگریزوں کو یہ احساس ہو گیا کہ وہ مسلمانوں کا میدان جنگ میں مقابلہ نہیں کرسکتے ۔جس پر ‎لارڈ کرزن نے ہوگرتھ کے ذریعے "تقسیم کرو اور حکومت کرو" کی پالیسی پر کام شروع کر دیا، اور ترکوں کے خلاف شریف مکہ کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس جنگ کے آغاز میں ہی مصر جو اب پوری طرح سلطنت برطانیہ کے قبضے تھا، اس سازش کا گڑھ بن چکا تھا۔ اس مقصد کے لیے 1913ء کو قاہرہ میں خاص طور پر ایک نیا محکمہ تشکیل دیا گیا جس کا نام عرب بیورو Arab Bureau تھا۔ یہ برٹش انٹیلیجنس ڈیپارٹمنٹ کاایک ذیلی ادارہ تھا جس کا واحد مقصد عربوں اور خاص طور پر شریف مکہ کی خدمات حاصل کر کے عرب مقبوضات میں ترکوں کو کمزور کرنا تھا۔

ولیم اسٹرلی William Easterly نے اپنی کتاب The White Man's Burden, میں بیان کیا ہے کہ انگریزوں اور عربوں کے درمیان سب سے پہلا رابطہ یکم نومبر 1914ء کو حسین بن علی کے بیٹے عبداللّہ بن حسین اور ہربرٹ کیچنر کے درمیان ایک ٹیلی گرام کے ذریعے ہوا تھا جس میں کچنر نے شریف مکہ سے ترکوں کے خلاف مدد حاصل کرنے کی درخواست کی تھی۔ اس کے بدلے حلب سے عدن تک ایک آزاد عرب ریاست کا وعدہ کیا تھا۔ ہربرٹ کیچنر مصر میں برٹش قونصل جنرل تھا۔

متھیو ہیوز Matthew Hughes نے اپنی کتاب (2013) Allenby and British Strategy in the Middle East میں لکھا ہے: “قاہرہ میں برطانوی حکومت کے سفیر لفٹیننٹ کرنل ہنری مکموہن Henry McMahon اور حسین بن علی شریف مکہ کے درمیان رابطہ قائم ہوا جس میں مکموہن نے شریف مکہ سے سلطنت عثمانیہ کے خلاف جنگ میں مدد کرنے کی درخواست کی اور کامیابی کی صورت میں اسے سارے عثمانی عرب مقبوضات کا حکمران بنانے کی پیش کش کی۔ اس کے بعد دونوں کے درمیان کئی خطوط کا تبادلہ ہوا جنہیں تاریخ میں مراسلات مکموہن ۔ حسین McMahon–Hussein correspondence کہا جاتا ہے۔“

جورج حبيب أنطونيوس George Habib Antonius ایک لبنانی تاریخ دان، برطانوی ڈپلومیٹ اور عرب نیشلزم کا داعی تھا۔ اس نے انتداب فلسطین British Mandatory Palestine میں سول سرونٹ کے طور پر بھی خدمات سر انجام دیں۔ اس کی کتاب The Arab Awakening کو جدید عرب نسل پرستی کی تاریخ پر ایک بنیادی اور اہم ترین تحقیقی اور نصابی کتاب کا درجہ دیا جاتا ہے۔ مشرق وسطی کی تاریخ کے ماہر و محقق مارٹن سیتھ کرامر کے مطابق یہ کتاب برطانوی اور امریکی تاریخ دانوں اور ان کے طلبہ کی آئندہ نسلوں کے لیے ترجیحی درسی کتاب بن گئی ہے۔ اس کتاب نے عرب قوم پرستی کی اصل وجہ، 1916ء میں برپا ہونے والی عرب بغاوت کی اہمیت اور مشرق وسطی میں پہلی جنگ عظیم کے بعد ہونے والے سیاسی تصفیہ کے پس پردہ کار فرما سازشوں پر ایک نہ ختم ہونے والی بحث اور اختلافات کو بھی جنم دیا ہے۔ أنطونيوس نے مصر میں محمد علی پاشا کے دور تک عرب قوم پرستی کا سراغ لگایا۔ ریحان عمر نے اس کا اردو میں ترجمہ “بیداری عرب“ کے نام سے کیا ہے۔

عرب بغاوت کے تانے بانے
أنطونيوس نے اپنی اس کتاب میں بڑی تفصیل سے عرب بغاوت کے بارے میں لکھا ہے اور مکموہن اور حسین کے درمیان ہونے والی خط و کتابت کی تفصیل بھی بیان کی ہے۔ وہ پہلی مرتبہ اصل خطوط کو اپنی اس کتاب کے ذریعے دنیا کے سامنے لایا اور اس نے اصل خطوط کی نقول بھی اپنی کتاب میں شائع کی ہیں۔ وہ لکھتا ہے:
مکموہن اور حسین کے درمیان ہونی والی خط و کتابت دس خطوط پر مشتمل تھی، جو جولائی 1915ء اور مارچ 1916ء کے درمیان جاری رہی۔ پانچ خط شریف مکہ اور پانچ خط مکموہن کی جانب سے لکھے گئے تھے۔ ان خطوط میں نہ صرف شریف مکہ کو دی جانے والی مستقبل کی مملکت حجاز (Hashemite Kingdom of Hejaz : المملكة الحجازية الهاشمية) کی سرحدوں کی نشاندہی کی گئی تھی بلکہ عرب بغاوت کے سارے مراحل، فوج کی تیاری، مالی مدد، فنڈز اور ہتھیاروں کی فراہمی، فوجی تربیت، بغاوت کے جھنڈے کی تیاری، اور مرحلہ وار اہداف پر بھی بڑی تفصیل سے بحث کی گئی تھی۔ خاص طور پر پچیس اکتوبر 1915ء کو لکھے جانے والے مکموہن کے ایک خط کے بارے میں جس میں ساری ذیلی تفصیل طے گئی تھی، أنطونيوس لکھتا ہے : "by far the most important in the whole correspondence, and may perhaps be regarded as the most important international document in the history of the Arab national movement... is still invoked as the main piece of evidence on which the Arabs accuse Great Britain of having broken faith with them."

عرب بغاوت کا پرچم
آصف محمود لکھتے ہیں: “جب بغاوت کا فیصلہ ہو چکا اور اس کی جزئیات طے ہو چکیں تو اگلا مرحلہ اس عرب بغاوت اور مزاحمت کا پرچم تیار کرنا تھا۔ کتنی عجب بات ہے کہ بغاوت مسلمان کر رہے تھے، لیکن اس بغاوت کا پرچم برطانوی سفارت کار تیار کر رہے تھے۔ یہ پرچم ایک برطانوی سفارت کار کرنل مارک سائیکس Mark Sykes نے تیار کیا۔ مارک سائیکس صیہونیوں کے بہت قریب تھے اور جس اعلان بالفور کے نتیجے میں اسرائیل قائم کیا گیا، اس اعلان کو حقیقت بنانے میں کرنل صاحب کا بڑا اہم کردار تھا۔ مارک سکائیس نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف عرب بغاوت کا جو پرچم تیار کیا، اس میں چار رنگ شامل تھے۔ اس میں سیاہ، سفید اور سبز یعنی تین رنگوں کی تین افقی پٹیاں تھیں اور ایک تکون تھی جس کا رنگ سرخ تھا۔ سیاہ رنگ عباسی سلطنت کی یادگار کے طور پر لیا گیا، سفید رنگ کو اموی سلطنت سے نسبت دی گئی، اور سبز رنگ فاطمی خلافت کی یادگار کے طور پر رکھا گیا۔ تکون کا سرخ رنگ ہاشمی خاندان یعنی اشراف مکہ کی نسبت سے لیا گیا، یوں سمجھ لیجیے کہ یہ رنگ شریف مکہ حسین بن علی کی ممکنہ سلطنت کے لیے ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر چنا گیا، جو شریف مکہ اور مک موہن معاہدے کی روشنی میں سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد وجود میں آنا تھی۔”

ان خطوط میں سب سے اہم شریف مکہ سے وہ درخواست تھی جس کے تحت حسین بن علی کو ترکوں کے خلاف ہندوستان کے مسلمانوں کی ہمدردیاں اور حمایت حاصل کرنے کے لیے فتویٰ جاری کرنا تھا، تاکہ خلیفہ سلطان محمد خامس کے 1914ء میں دیے جانے والے جہاد کے فتویٰ کا سد باب کیا جا سکتا جس میں اس نے ساری دنیا کے مسلمانوں سے برطانوی سامراج کے خلاف جہاد کا حصہ لینے کا اعلان کیا تھا۔ اسے تاریخ میں Ottoman Declaration of Jihad 1914 کا نام دیا جاتا ہے۔

یسلیورٹ نوری Yesilyurt Nuri نے اپنے ریسرچ پیپر "Turning Point of Turkish Arab Relations:A Case Study on the Hijaz Revolt میں لکھا ہے: “Britain would, in exchange for support from the Arabs of Hejaz, "guarantee the independence, rights and privileges of the Sharifate against all foreign external aggression, in particular that of the Ottomans." The Sharif indicated that he could not break with the Ottomans immediately, and it did not happen till the following year”.

اٹھارہ فروری 1916ء کو اپنے خط میں شریف مکہ نے مکموہن سے پچاس ہزار پونڈ مالیت کا سونا اور ہتھیار طلب کیے۔ حسین بن علی کے پاس پچاس ہزار افراد پر مشتمل فوج تھی جن میں سے صرف دس ہزار کے پاس بندوقیں اور رائفل تھیں۔
(جاری ہے )

انگریزوں اور حسین بن علی کا گٹھ جوڑ سلطنت عثمانیہ پر کیسی تباہیاں لایا اور اس گٹھ جوڑ کی کچھ تفصیل اگلی قسط میں

(یہ مضمون میری نئی آنے والی کتاب “اہل وفا کی بستی“ کا حصہ ہے جو فلسطین اور اسرائیل کے سفر کی یاد داشتوں پر مشتمل ہے)