رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وابداء بمن تعول(بخاری،زکاۃ)
اپنے زیر کفالت افراد سے آغاز کرو۔
مسلمان خصوصاً اہل پاکستان اور بالخصوص اہل کراچی خرچ کرنے کے معاملے میں نمایاں امتیاز کے حامل ہیں، اور رمضان المبارک کے مہینے میں ان کا یہ عمل عروج پر ہوتا ہے۔ اللہ تعالی ایسے تمام خرچ کرنے والوں کو اپنی برکتوں اور رحمتوں سے نوازے، اور ان کی اس نیکیاں قبول فرمائے۔ لیکن اس سلسلے میں بہت سی باتیں قابل غور محسوس ہوتی ہیں، تفصیل کا تو موقع نہیں،اس ضمن میں چند اشارے کرنے کی جسارت کی جا رہی ہے۔
1۔اصولی طور پر ہر طرح کی مالی نیکی کے حق دار وہ لوگ ہیں جو ہمارے زیر کفالت ہیں، ان میں سب سے پہلے اہل خانہ شامل ہیں، ایسی کوئی نیکی جس کی بنیاد اہل خانہ اور دیگر زیر کفالت افراد کی ضرورتوں پر رکھی جائے، شریعت میں پسندیدہ نہیں۔ ایک حدیث مبارکہ کی رو سے تو اہل خانہ کو کھلایا جانے والا ہر لقمہ ہی اللہ کے ہاں صدقہ شمار ہوتا ہے۔
2۔زیر کفالت افراد میں اہل خانہ کے ساتھ ساتھ تمام ملازمین بھی شامل ہیں۔ملازمین عام طور پر دو طرح کے ہوتے ہیں۔ایک تو باقاعدہ ملازم جو چوکیدار، ڈرائیور، خانساماں، یا صفائی کی ذمے داریاں ادا کرنے والے مرد و خواتین شامل ہیں،انہیں تو پھر بھی یاد رکھ لیا جاتا ہے،لیکن یہ افراد عام طور پر متمول حضرات کے گھر میں ہی خدمات انجام دیتے ہیں،عام متوسط اور زیر متوسط طبقے کے ہاں ان ملازمین کا تصور مشکل ہوتا ہے۔ لیکن ان کے ساتھ ساتھ کچھ حضرات اور بھی اس دائرے میں آتے ہیں، جن کی ہمیں کبھی کبھی ضرورت پیش آتی ہے، اور یہ حضرات متوسط اور زیر متوسط طبقے کے ہاں بھی عام طور پر خدمات انجام دیتے ہیں۔مثلا الیکٹریشن، پلمبر، کارپینٹر وغیرہ۔ان میں اگر کوئی ضرورت مند ہے اور مالی طور پر کمزور تو ان کی کفالت بھی ہمیں اپنی زمے داری سمجھ کر کرنی چاہیے۔
3۔ہمارے سرمایہ داروں کا مزاج بعض وجوہ سے خرچ کرنے کے معاملے میں انتہائی تبدیل ہوچکا ہے، مثلا ایک فیکٹری مالک کے لیے بہت آسان ہے کہ وہ اپنے ملازمین کو ایسی سہولتیں فراہم کرے، جن کی وجہ سے ان کی اور ان کے اہل خانہ کی گزر بسر سہولت سے ہوسکے۔لیکن عام طور پر مالکان کی توجہ اپنے ملازمین کی طرف اس طرح نہیں ہوتی،جو ان کا حق ہے۔ اس کے برعکس وہ دوسرے علاقوں اور دوسرے ضرورت مندوں کی طرف بہت خوش دلی سے متوجہ ہوتے ہیں اور ان پر خرچ کرنے کو اپنے لیے سعادت سمجھتے ہیں۔اس سلسلے میں ان کی درست ذہن سازی کی ضرورت ہے، جو ہمارے علمائے کرام کی ذمے داری ہے۔
4۔ہمارے ہاں صدقے کا تصور بھی درست معلوم نہیں ہوتا۔ہم خاص طور پر بیماری یا کسی جانی آزمائش کی کیفیت میں صدقہ دینا ضروری خیال کرتے ہیں، جیسا کہ شریعت کا حکم بھی ہے، لیکن اس سلسلے میں خون کے بدلے خون کا تصور پایا جاتا ہے، اس کا کوئی تصور شریعت میں موجود نہیں ہے،اسی لیے بکرا ذبح کرنا ضروری خیال کیا جاتا ہے، جس کی اب ایک مائیکرو شکل مرغی کی صورت میں بھی آ گئی ہے۔لیکن دونوں کے لیے بہ ہر صورت کالا ہونا ضروری ہے۔یہ سب لایعنی باتیں ہیں۔صدقے کا شرعی تصور یہ ہے کہ کسی بھی ضرورت مند کی فوری ضرورت کی تکمیل کردی جائے، خواہ وہ کپڑے اور لتے کی صورت میں ہو،دوا دارو کی شکل میں ہو، یا خالی پیٹ کو کھانا کھلانے کی صورت میں۔اس عمل کی خرابی شہروں میں تو اس طرح سامنے آرہی ہے کہ یہاں پر خیراتی اداروں کے پاس عام طور پر جانور رکھنے کی بھی جگہ نہیں ہوتی، لیکن دینے والے دوسری ضرورتوں سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف بکرا ہی دینے پر اصرار کرتے ہیں۔
5۔ہم نے اپنے طور پر خرچ کرنے کے لئے کچھ مدت متعین کر دی ہیں، ہم ان ہی صورتوں میں خرچ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں،خواہ اس کے نتیجے میں ضرورت مندوں کا کتنا بڑا طبقہ ہی محروم ہوجائے،مثلا ضرورت ہو یا نہ ہو مسجدوں پر خرچ کرنا،یہ معاملہ بھی شہروں کی حد تک ہے، ظاہر ہے کہ دور دراز علاقوں میں موجود مساجد تو اپنی عام ضرورتوں کی کفالت سے بھی محروم ہیں۔مدارس پر خرچ کرنا۔یہاں بھی عالم یہ ہے کہ مساجد ہی کی طرح اس خرچ کے معاملے میں عمارات ہی کو ترجیح ہے، عمارتیں ایک سے بڑھ کر ایک بنتی چلی جاتی ہیں، لیکن ان عمارتوں میں رہنے والے طلبہ اور اساتذہ کی ضرورتوں کی طرف متوجہ کم کم ہی ہوتی ہے۔اس ذوق کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہاں مدرسے سے ہٹ کر کسی بھی نوعیت کے دینی کام کو عام طور پر پذیرائی ملنے کا تصور بھی نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ علم اور تحقیق کے حوالے سے پاکستان میں موجود ادارے انگلیوں پر بھی نہیں گنے جا سکتے، جب معاشرہ ایسے افراد اور اداروں کی کفالت کرنے کے لیے آمادہ ہی نہیں ہوگا تو ان شعبوں کو آنے والے افراد کہاں سے تیار ہوں گے۔
6۔افراد ہوں یا ادارے دونوں کی دل چسپی ایسے کاموں میں زیادہ محسوس ہوتی ہے،جن میں ایک طرف سے رقم آنے کے بعد دوسری طرف خرچہ بھی کر دی جائے اور خرچ ہوتا ہوا سامنے نظر بھی آتا رہے، تاکہ مزید آمد کی صورتیں مسلسل بہم ہوتی رہی ہیں ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ غریبوں کو مفت کھانا فراہم کرنے والے دسترخوان بھی گلی گلی لگ رہے ہیں، راشن دینے کی سہولتیں بھی بڑھتی جا رہی ہیں، لیکن غربت میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے،کیوں کہ یہاں ضرورت مند کو بھکاری بنانے کا اہتمام تو مکمل موجود ہے، لیکن اسے بر سر روزگار کرنے کی صورتیں کم کم نظر آرہی ہیں۔
7۔چاہے افراد ہوں یا ادارے سب کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ جس قدر بھی ضرورت سے زیادہ رقم ہمارے پاس موجود ہے وہ اسی معاشرے کی امانت ہے، جسے لوٹانا ہماری ذمے داری ہے۔ اس لئے اسے لوٹاتے ہوئے،اور معاشرے پر خرچ کرتے ہوئے حد سے زیادہ غور و فکر کی ضرورت ہوگی کہ وہ صحیح مصرف میں، صحیح مقام پر،ضرورت کے مطابق خرچ کیا جائے۔خصوصا اداروں کے تشہیری بجٹ میں خرچ ہونے والی رقم کو جس قدر ممکن ہو کم سے کم کیا جائے، تاکہ امانت حق داروں تک بہ تمام و کمال پہنچ سکے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
تبصرہ لکھیے