زندگی میں روزانہ کی بنیاد پر رنگ برنگے لوگ ملتے ہیں، کون بندے کا پتر ہے اور کون نقصان کا باعث بنے گا یہ پہچان کرنا بہت مشکل امر ہے، چند دہائیوں پہلے تک لوگ بات بے بات جھگڑا کرتے، بات توتکار سے ہوتی قتل تک جا پہنچتی، مرنے والے کے ساتھ ساتھ مارنے والا بھی جیل جاتا، لمبی سزا پاتا یا پھانسی، جب گناہوں کی سزا کاٹ کر جیل سے باہر نکلتا تو وقت اپنی چال چل کر بہت آگے جا چکا ہوتا، تب یہ لوگ معاشرے کا مفید حصہ بننے کی کوشش کرتے لیکن وقت ان کو دھتکار چکا ہوتا تھا، گذرتے وقت کے ساتھ لوگ سیانے ہوتے گئے، اب دور حاضر میں کسی کو جان سے مارنے کی بجائے اگر مالی نقصان میں مبتلا کر دیا جائے تو وہ بیچارہ بذات خود اور اس کی فیملی کافی عرصے تک اس بوجھ سے نکل نہیں پاتے.
سال 2013 کے موسم گرما میں پاکستان جانے کی تیاری کر رہا تھا، شیخ احسان فرام سرائے عالمگیر کی طرف میرے 1500 ریال باقی تھے، چار مہینے روزانہ ٹال مٹول کرے، بمشکل 500 ریال نکلوائے، باقی ماندہ مبلغ کیلئے روزانہ چکر لگوائے۔ ایک دن اس سے بات کرتے میرے ایک بہت قریبی عزیز دوست ملک قاسم میراں نے دیکھ لیا، ہمیں باتیں کرتے دیکھ کر وہ گذر گیا، میں فری ہو کر اس کے بھائی کی دکان پر گیا، ملک قاسم نے بڑے عجیب طریقے سے مجھے مخاطب کیا، میں مصافحے کیلئے ہاتھ آگے بڑھانا چاہا تو وہ میرے دونوں ہاتھ تھام کر بولا "اپنے ہاتھ چیک کراؤ"، یہ منطق میری سمجھ سے بالاتر تھی.
تاہم میں نے دونوں ہاتھ آگے کر دیئے، ہاتھ سلامت دیکھ کر وہ بولا "اب جاؤ اور ہاتھ دھو کر پاک کرو"، اس کی بات میرے سر پر سے گذر گئی، کچھ سمجھ نہ آئے کہ وہ کہنا کیا چاہتا تھا، قصہ مختصر میں ہاتھ دھو کر آیا اور وضاحت پوچھی تو ملک قاسم میراں نے بڑے سلیس انداز میں مجھے سمجھایا "یہ ٹھگ بندہ ہے، ٹھگ کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، اس بندے کی شہرت بری ہے لہذا اس سے بچو، ایک پھیری والا گلی گلی گھوم پھر کر اپنے بچوں کا رزق کماتا ہے لیکن یہ ٹھگ لوگ اس کے بچوں کے منہ کا نوالہ بھی چھین لیتے ہیں، یہ لوگ اصل نفسیاتی مریض ہیں، اپنی محرومیوں کا بدلہ دوسروں کو مالی نقصان پہنچا کر لیتے ہیں، ان کا نقطہ نظر یہ ہوتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے ان کو سو عدد پاور لومز عطا نہیں کیں تو ہمسائے کی پچاس پاور لومز جل کر خاک ہونی چاہئیں، یہ لوگ کسی کے سگے نہیں بلکہ اپنی سفلی خواہشات کے غلام ہیں، اگر دوسروں کو ٹھگی لگانے میں کامیاب نہ ہو سکیں تو کسی نہ کسی طرح ان کا مالی نقصان ضرور کرتے دیتے ہیں، یہ بظاہر بہت میٹھے، خیر خواہ لیکن درپردہ جڑیں کاٹنے والے کام کرتے ہیں، یہ پہلے جہاں کام کرتا تھا، وہاں بھی اس کی شہرت بری تھی"۔
اب میں اسے کیسے بتاتا کہ شیخ احسان کی طرف میرا ایک ہزار ریال واجب الادا ہے، خیر اس وقت میں بے عزتی کے ڈر سے بات چھپالی۔ چند دن بعد مارکیٹ میں خریداری کرتے سامان زیادہ ہونے کے باعث ٹیکسی لینی پڑی، راستے میں ٹیکسی ڈرائیور نے مجھے پوچھا "کیا آپ شیخ احسان کو جانتے ہو؟"، میرے اثبات میں جواب دینے پر وہ بولا "میں آپ کے والد کو جانتا ہوں اسلئے بتا رہا ہوں کہ شیخ احسان سے بچو، میں اسے روزانہ پک اینڈ ڈراپ کرتا ہوں، وہ کسی سے فون پر بات کر رہا تھا، بڑا ہاتھ مار کر بھاگنے کے چکر میں ہے"، اتنے میں ہم گھر پہنچ چکے تھے، اترنے کی بجائے اسے کہا "شیخ احسان کی دکان پر چلو"، دکان کے عین سامنے مجھے ٹیکسی ڈرائیور کے ساتھ دیکھ کر شیخ احسان کو شک ہوگیا، میں اندر داخل ہو کر اس سے ہزار ریال مانگے، لیکن وہ آئیں بائیں شائیں کرے، بات نہ بنی تو میں اس کے کاؤنٹر سے تین عدد موبائل
فونز اٹھا لئے اور واپس آگیا، شیخ احسان نے دو بندے میری طرف بھیجے اور التجا کی کہ وہ تین موبائل فونز سعودی کسٹمرز کے ہیں، لیکن میں صاف انکار کر دیا کہ تم جانو اور تمہارے کسٹمرز، پہلے باقی ماندہ رقم واپس کرو، اس کے بعد اگلی بات کرتے ہیں، شام کو وہ آیا، تیور ٹھیک نہ تھے، بغیر کوئی بات بولے میرے سامنے ہزار ریال نکال کر رکھ دیئے، میں رقم اٹھائی، گن کر جیب میں ڈالی اور موبائل فونز واپس کر دیئے، یوں ہمارا حساب بے باق ہو گیا، چند دن وہ مجھے دیکھ کر منہ پھلا کر گذر جاتا تھا، خیر بعد میں دوستوں نے صلح کروادی۔
دو مہینے پاکستان میں گذار کر جب میں واپس آیا تو پوری موبائل فون مارکیٹ میں خبر پھیلی ہوئی تھی کہ شیخ احسان تقریبا ً ساٹھ ہزار ریال کا فراڈ کرکے بھاگ گیا ہے، مارکیٹ سے باہر جن لوگوں کے ساتھ ٹھگ بازی ہوئی وہ تقریباً ایک لاکھ ریال، یعنی واقعی بڑا ہاتھ مارا تھا لیکن تحصیل سرائے عالمگیر، ضلع گجرات اور بالخصوص پاکستان کا نام بہت بدنام ہوا تھا، مارکیٹ میں ہر کس و ناکس کی زبان پر ایک ہی فقرہ تھام "واللہ کل باکستانی حرامی"، شارع ثلاثین حائل والی موبائل فونز مارکیٹ سے لیکر بنگالی بوفیہ تک ہر جگہ یہ فلم بلاک بسٹر جا رہی تھی، تین دوستوں کے ہمراہ چائے پینے گئے لیکن موضوع محفل دیکھ کر مارے شرم کے اٹھ آئے، پاکستانی کمیونٹی کا بہت نام بدنام ہوا تھا۔
تقریباً تین مہینے پہلے میرا عزیز دوست ملک قاسم میراں پاکستان سے عمرہ کرنے آیا تو ہماری ون آن ون طویل ملاقات ہوئی، بہت سے موضوعات زیر بحث آئے، اچانک ملک قاسم میراں بے حد سنجیدہ ہو کر میرے چہرے کی طرف خاموش دیکھنے لگا، میرے استفسار پر بولا “جب تم پہلی مرتبہ سال ۲۰۱۰ میں ملے تھے، تب سے آخری ملاقات لگ بھگ سات سال پہلے تک تم بہت بھولے تھے، کھلنڈرا، کتابی باتیں، اونچے اونچے چھت سے ٹکرانے والے قہقہے، رنگ برنگے قصے آج بھی ویسے، محفل میں رونق برپا کر دینے والی طبیعت آج بھی برقرار ہے لیکن تھوڑا بہت فرق نوٹ کر رہا ہوں"، میں عرض کیا "وقت وقت کی بات ہے، اب میرے بچے بڑے ہو رہے ہیں"، مجھے نصیحت کرتے بولا "ان ........... دو بندوں سے جب بھی ہاتھ ملاؤ تو اپنے ہاتھ کی انگلیاں گن لینا، اگر ہاتھ سلامت ہے تو دھو کر پاک کرو، اگر گلے مل لئے ہو تو اپنی جان کی خیر مناؤ اور رد بلا کیلئے صدقہ دو"، اس کی بات کو میں بہت سنجیدہ لیتا ہوں لیکن چند دن پہلے ہوئے واقعات کی بنیاد پر مجھے کہنا پڑ رہا ہے کہ "ٹھگ کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، ان لوگوں سے جتنا بچ سکتے ہو، خود ہی بچاؤ کرو، ورنہ یہ کسی بھی قیمت پر دوسروں کا سودا کر دیتے ہیں"۔
تبصرہ لکھیے