ماہ قرآن اللہ ربّ العالمین کی طرف سے اپنے بندوں کےلیے ایک خصوصی انتظام اور یاد دہانی ہے، یہ یاد دہانی ہے اس پیغام کی جس کا امت مسلمہ کو امین بنایا گیا اورخیر امت کے منصب پر فائز کیا گیا، تا کہ وہ اپنے فرض منصبی سے راہ فرار اختیار کرکے اس رنگین دنیا کا بے مقصد حصہ نہ بن جائے اور کہیں وہ جادہ حق کی مشکلات اور دشواریوں کو دیکھ کر آرام کوشی کو گلے نہ لگالے. بس اسی غرض سے ہمارے مالک نے ایک ماہ کا بہترین تربیتی پروگرام اپنے فرمانبرداروں کے لیے طے کیا ہے جسے قرآن رمضان کے نام سے موسوم کرتا ہے ۔ قرآن کو تھام لینے والے،قرآن کے مطابق زندگیاں گذارنے والے، قرآن کو اپنی زندگیوں میں برتنے والے، قرآن کے سچّے امین و پاسبان ، قران کے نفاذ کے لیے مسلسل جدوجہد کرنے والے ہی اس ٹریننگ و ماہ مبارک کی سعادت و برکتوں سے مستفید ہوسکتے ہیں۔
روزہ جیسی پر مشقت عبادت کو اس ماہ میں خاص کردینا ۔۔۔جہاد جیسے عظیم مشن کا اس ماہ میں طے پانا ۔۔۔۔قرآن جیسے آفاقی نور کو اس ماہ میں روے زمین پرنازل کردینا ۔۔۔۔فتح مکہ جیسی واضح بشارتوں کا ملنا ۔۔۔ اور لتکبر اللہ علی ما ھداکم کے عنوان سے ان تربیتی ایام کو خاص کردینا، اس بات کا مظہر ہے کہ ہزاروں رمضان ہزاروں زندگیوں میں داخل ہوجائیں لیکن اس سے حقیقی مستفید ہونے والےوہی بندے ہیں جو قرآنی مشن کےلیے جیتے ہیں اور مرتےہیں، جو متقین و محسنین کی صفوں میں شامل ہیں ، جو ماہ رمضان کے موقع کو غنیمت جان کر قرآن سے رہنمائی لیتے ہوۓ اپنی زندگی کےلیے عملی پروجیکٹ ترتیب دیتے ہیں ۔جو ساری زندگی اپنے رب کی رضا کے متلاشی ہوتے ہیں ۔اپنے رسول کا اسوہ ورد لب اور حرز جاں بناتے ہیں، تزکیہ و احتساب کے بعد جن کی آنکھیں بہہ پڑتی ہیں،اورجادہ حق کی سختیاں جو خوشی خوشی جھیل جاتے ہیں۔
دراصل ماہ مبارک کی ساعتیں اس طور سے زیادہ اہم ہوجاتی ہیں کہ اللہ رب العالمین نے ہمیں جس کتاب کا امین بنایا ہے وہ ھدی للمتقین ہے، جس کی تربیت کے لیے روزہ جیسی مخصوص عبادت کو فرض کردیاجو تقوی کو پروان چڑھانے کا بہترین ذریعہ ہے ۔جس کا راست تعلق روحانیت سے ہے، چنانچہ پوشیدہ عبادتیں تقوی سے قریب کردیتی ہیں تاکہ بندہ کی عبادت کا مقصد اور ساری تگ ودو اپنے مالک کو خوش کرنے میں بسر ہوجاے. وہ بھوکا رہے تو اس کی خوشی کے لیے، افطار کرے تو اس کی رضا کےلیے ،قیام و سجود کرے تو اس سے قریب ہونے کےلیے، صدقات و خیرات کرے تو اس سے بھلائی چاہنے کےلیے، احتساب اور جائزہ لے تو اس کی باز پرس سے ڈر کر ، جب سارے کاموں کا حقیقی محرک رضائے الہی بن جائے تو بقیہ گیارہ مہینوں میں اس نفس کی کیسی شرارت کہ مؤمن کے مزاج کے خلاف کچھ کرنے کی ہمت دکھائے ۔اس شیطان رجیم کی کیا مجال جو بندہ مومن کےلیے وسوسوں کا جال بچھادے۔
دراصل یہ بڑی غیر معمولی عنایت ہےکہ ان تیاریوں میں بندے کےلیے اللہ تعالی کی خوب مدد شامل ہوتی ہے۔ اسی لیے اس ماہ مبارک میں شیاطین جکڑ دیے جاتے ہیں، آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور عشرہ رحمت، مغفرت و نجات کے ذریعہ مؤمنین کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے،تا کہ وہ اپنے رب کی عطا کی ہوئی اس زندگی کو بسر کرنے کیلیے خوب بہترین تربیت لے لیں۔ جو سمیٹنا ہے سمیٹ لیں اور اس پیغام زندگی سے اپنا رشتہ مضبوط کرلیں جس کے لیے اسے زمین پر اتارا گیا ہے۔ مختصراً یہ کہ ماہ رمضاں اللہ تعالی کا ایک بڑا احسان ہے جس کے ذریعہ ہماری جسمانی تربیت ، روحانی تربیت ،صبر وتحمل ، ضبطِ نفس ،قرآن سے تعلق کو مضبوط کرنے اور حقوق العباد جیسی ذمہ داریوں کو یاد دلانے کے لیے اس نے انتظام فرمایا ہے۔ لیکن واقعی کیا ہر سال ہماری زندگیوں میں داخل ہونے والا رمضان ایک انقلاب کی صورت ابھرتا ہے ؟ کیا ماہ مبارک کے بعد پورے گیارہ مہینہ واقعی ہم اپنے نفس پر کنٹرول کرپاتے ہیں ۔کیا وجہ ہے کہ رمضان کے بعد عبادتوں کا جوش و ولولہ کچھ ماند سا پڑجاتا ہے ؟صدقات کی رفتار دھیمی ہوجاتی ہے ؟ قرآن سے تعلق کچھ کمزور سا نظر آنے لگتا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ماہ قرآن سے حقیقی اور شعوری طور پر ہم استفادہ نہ کرسکیں۔آئیے ماہ رمضان میں کی جانے والی وہ عبادتیں جو محض رسمی شکل اختیار کرچکی ہیں اس کاجائزہ لیتے ہوۓ کچھ اصلاح طلب پہلو کو سامنے رکھتے ہیں ۔
نماز تراویح:
الحَمْد للہ مسجدیں نماز تراویح میں قرآن کی تلاوتوں سے معمور اور بارونق نظر آتی ہیں ۔بندگان خدا کا شوقِ عبادت اور جوق در جوق مسجدوں میں چلے آنا اور رب کے حضور دست بستہ کھڑے ہوجانا رمضان کا مرہون منت ہے، لیکن نماز تراویح میں قرآن کے مکمل کرلینے کا جذبہ امام مسجد کو اس بات پر مجبور کردیتا ہے کہ وہ قرآن کو ٹہر ٹہر کر اور ترتیل سے پڑھنے کے بجاۓ آیات قرانی بڑی سرعت کے ساتھ ادا کرلیتے ہیں، جس کی بنا پر امام کی وساطت سے مکمل قرآن کو سننے سے مقتدی اکثر محروم ہوجاتے ہیں۔ دراصل نماز تراویح قیام لیل کا وہ حصہ ہے جسے حدیث نبوی میں یوں فرمایا گیا کہ مَن قَامَ رمَضَانَ ایماناًو اِحتسَاباًغُفِرَ لَہ ما تقَدّمَ مِن ذَنبِہ جس قیام و سجود میں احتساب شامل ہو اس کی اصلاح کی جانب امت مسلمہ کو متوجہ ہونا چاہیے، تاکہ اس کی اصل روح اور حقیقی مقصد تک رسائی ممکن ہو ۔اور خلاصہ تراویح بھی غور و فکر کی دعوت پر منحصر ہونا چاہیے۔
انفرادی منصوبہ بندی :
انفرادی طور پر ماہ رمضاں میں قرآن سے اپنا تعلق قائم رکھنے کےلیے شعبان میں ہی منصوبہ بندی کی جانی چاہیے۔ خواتین اکثر ماہ مبارک کے قیمتی اوقات میں پکوان و لوازمات کی تیاریوں میں مشغول ہوکر عبادات کے بہترین لمحات سے محروم ہوجاتی ہیں۔ اس لیے گھریلو ذمہ داریوں اور عبادات میں توازن برقرار رکھنے کے لیے ٹائم مینجمنٹ ضروری ہے ۔اس طرح خواتین کی ایک بڑی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ اپنے بچوں کی تربیت میں اس ماہ سے جڑی ہوئی ساری عبادتوں اور تقاضوں کو عملی طور پر پیش کریں خصوصاً خواتین کی کوشش اس ضمن میں یوں ہونا چاہیے:
❄ ماہ نزول قرآن کے اس جشن کی اہمیت کو اپنے بچوں پر واضح کریں اور حفظ و تلاوت کی طرف راغب کروائیں۔
❄ اپنے بچوں میں ماہ صیام کے حقیقی مقصد اور روزہ کی حکمت و اہمیت واضح کرکے ابتدا میں آدھا دن کی بھوک برداشت کرنے سے اس کی شروعات کروائیں اور سحرو افطار کے اوقات میں انھیں برابر شریک رکھیں۔
❄ماہ مواسات کی اہمیت سے واقف کرواکر صدقہ و خیرات اور غریبوں سے ہمدردی کےلیے بچوں کے ننھے ہاتھوں سے پڑوسیوں تک کھانا پہنچانے اور غریبوں تک صدقات و خیرات پہنچانے کا کام لیا جانا چاہیے۔
❄ یہ ماہ فرقان بھی ہے ، اس نکتہ کو خواتین اپنے بچوں پر واضح کریں اور دین کےلیے کی جانے والی انتھک کوششوں کے نتائج اور اللہ کے انعامات و بشارتوں کوبیان کریں۔
❄بچوں کا رمضان اس عنوان کے تحت پورے ماہ کےلیے تیس دنوں پر مشتمل پروجیکٹ تیار کروائیں جس میں ہمارے بچے پورے ماہ پر مشتمل نیکیوں، دعاؤں، قرآنی سورتوں، اور عبادتوں کو نوٹ کرتے ہوۓ اپنے احساسات بھی درج کریں۔ اس طرح خواتین عبادات گھریلو ذمہ داریوں اور اجتماعات و تربیت اولاد میں بیلنس برقرار رکھنے کےلیے ٹھوس منصوبہ بندی کےذریعہ رمضان کے پیغام سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔
سماعت قرآن:
سماعت قرآن کی محفلیں جس کی اصل غرض قرآن کو مع ترجمہ و تفسیر سننے اور سنانے کی ہوتی ہیں، بالعموم اس میں بھی مطمح نظر یہی ہوتا ہے کہ رمضان کے گذرنے سے پہلے ہی قرآن کو مکمل کیا جاۓ۔اور اسی تناظر میں یہ محفلیں ایک رسم کی صورت اختیار کرگئی ہیں۔خصوصاً خواتین میں دورہ قرآن اور سماعت قران کے نام سے اس طرح کی مجلس ایک کثیر تعداد پر مشتمل نظر تو آتی ہیں لیکن قرآن پر غور فکر تدبر و تفکر، اس کو روبہ عمل لانے کےلیے ایک منصوبہ بنانا ، اس طرح کی سرگرمیاں ندارد، اور بس جھومنے یا پرجوش انداز میں پاروں کی طوالت کے ساتھ ترجمہ خوانی ہمارے ان مجالس کی حقیقی روح اور حقیقی مقصد کے حصول میں رکاوٹ بن رہا ہے جبکہ قرآن کے ساتھ ایک مومن کا معاملہ تو یہ ہونا چاہیے کہ
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
درحقیقت ایک مؤمن کےلیے قرآن صرف پڑھ لینے کی کتاب نہیں ہے، بلکہ زندگی میں برتنے اور اس کسوٹی میں اپنے آپ کو پرکھنے اور اس سانچے میں زندگی کو ڈھال دینے کےلیے یہ قرآن اس ماہ مبارک میں نازل کیا گیا ۔اب اس کی محفل سماعت بھی اسی غرض کےلیے ہوتو ہم رمضان ،قرآن ، اورصیام کے حقیقی مقصد کو پاسکتے ہیں ۔لہذا اس عمومی شکل کو بدلنے کےلیے تحریکی افراد اپنے حلقوں سے اس جانب پہل کریں کہ اس پورے ماہ میں قرآن کی ایک ایک آیت لےکر اس پر سارے دن کا ہوم ورک یہ طے ہو کہ کیسے اس کو اپنی زندگی میں برتنا چاہیے؟ اس آیت نے بندہ سے کیا اپیل کی ؟ اور اپنے زندگی کواس ضابطہ میں کس دینے کے بعد کیا اثرات مرتب ہوئے؟ اورایک آیت کی تشریح میں احادیث مبارکہ کوتلاش کرنا اور آیت کے تناظر میں ذاتی و اجتماعی مسائل رکھ کر حل تلاش کریں۔ اس طرح آیت قرانی احکام بن جاۓ نہ کے اعلان، دستور بن جاۓ نہ کہ محض معلومات، زندگی کی منصوبہ بندی اس کے ذریعہ کی جائے نہ کہ محض تلاوت خوانی اور وعظ و بیان۔ سید قطب ؒ نے اپنی کتاب جادہ و منزل میں یہ بات تحریر کی ہے کہ روۓ زمین پر صحابہ جیسی لاثانی جمیعت دوبارہ کیوں وجود میں نہ آسکی؟ اس کی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ خود صاحب کتاب یوں بیان کرتے ہیں کہ جس چشمہ صافی سے صحابہ کرام نے اکتساب فہم و تربیت حاصل کی، اس کے طریق کار میں بعد کے ادوار میں تغیر واقع ہوچکا ہے. اس جماعت کا کوئی بھی فرد قرآن کی تلاوت اور اس میں تدبر اس غرض کے لیے نہیں کرتا کہ وہ اپنی معلومات عامہ کا دائرہ وسیع کرنا چاہتا ہے یا کسی بھی پہلو سے اپنی علمی کسر کو پورا کرنا چاہتا ہے ۔ بلکہ وہ قرآن کی طرف اس لیے رجوع کرتے تھے کہ وہ معلوم کرے کہ اس کی انفرادی زندگی کے بارے میں مالک الملک نے کیا ہدایات دی ہیں ؟ جس معاشرہ میں وہ سانس لے رہا ہے، اس کی اجتماعی زندگی کے لیے کیا احکام ہیں ؟ اور پھر سرعتِ عمل کی یہ کیفیت کہ اس برگزیدہ جماعت کا ہر فرد ایک سپاہی کی طرح احکام موصول ہوتے ہی ان پر بلا چوں و چراکار بند ہوجاتا تھا۔
چوں کہ ماہ رمضان قران سے استفادہ کے بھرپور مواقع فراہم کرتا ہے ۔لہذا اس چشمہ صافی سے سیراب ہونے کےلیے اس شعور و احساس کا باقی رہنا بھی ضروری ہےکہ تلاوت و سماعت قرآن کے ساتھ قرآن کا مطلوب و مقصود مؤمن عملاً نظر آئے ۔
تبصرہ لکھیے