لازماں و لامکاں،
عالمِ بہشت سے
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
عالمِ بہشت کی بے طرح سکون و اطمینان میں بھی، مجھے آج یہ خط لکھتے ہوئے ایک شدید اضطراب، ناراضگی ، اور دکھ کا سامنا ہے۔ یہ چند سطریں نہیں بلکہ میرے دل کے ٹوٹے ہوئے جذبات کا عکس ہیں، جنھیں میں اپنے قلم کی زبانی بیان کر رہا ہوں۔ میرا یہ خط صرف آپ کی توجہ کا طالب نہیں بلکہ یہ ایک فریاد ہے، ایک درخواست ہے، ایک شکایت ہے، اور شاید ایک نوحہ بھی، کہ میرے نام سے جڑے کلام کو بددیانتی، لا علمی اور ناپختگی سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ میرے کلام کو، میری سوچ کو، میری فکر کو، اور میری نظریات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے والوں کے خلاف، میں اپنی آواز بلند کر رہا ہوں۔
میرے نام سے وہ اشعار منسوب کیے جا رہے ہیں جو ناہ صرف میرے اسلوب سے میل نہیں کھاتے بلکہ میری فکر اور فلسفہ کے بھی منافی ہیں۔ سوشل میڈیا (اور معلوم نہیں کیسی کیسی اصطلاحات سننے کو مل رہے ہیں) کے غیر ذمہ دار عناصر نے میرے حقیقی کلام کو نظر انداز کرکے ایسے اشعار میری طرف منسوب کیے ہیں جو یا تو کسی اور کے کلام کا حصہ ہیں یا مکمل طور پر جعلی ہیں، یا بلکہ کسی بھی ایک ادبی فنی و فکری اصول کے تحت اشعار نہیں۔ یہ اشعار جنھیں لوگ میرے کلام کے طور پر پیش کرتے ہیں، نہ صرف میرے نظریات کی توہین ہیں، بلکہ ادب کے اس مقدس میدان میں دھوکہ دہی کی بدترین مثال بھی ہیں۔
مثال کے طور پر:
تند ی بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب!
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے
اسی طرح یہ شعر:
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا
مزید:
منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر
مل جائے تجھ کو دریا تو سمندر تلاش کر
میرے نزدیک شاعری دل کی گہرائی اور روح کی سچائی کا مظہر ہوتی ہے۔ میری ہر بات قرآن، سنت اور ملتِ اسلامیہ کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ یہ کیسا المیہ ہے کہ میری اصل شاعری پڑھنے کی زحمت کے بجائے ان کو سطحی افکار کا لبادہ پہنایا جا رہا ہے؟
یہ شعر:
کیوں منتیں مانگتا ہے اوروں کے دربار سے اقبال
وہ کون سا کام ہے جو ہوتا نہیں تیرے پروردگار سے؟
اس سے بڑھ کر ظلم یہ ہے کہ میرے روحانی اور فکری کلام کو اتنی سطحی باتوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے کہ جن میں نہ کوئی گہرائی ہے، نہ کوئی روحانیت۔ اشعار جیسے:
سجدوں کے عوض فردوس ملے، یہ بات مجھے منظور نہیں
بےلوث عبادت کرتا ہوں، بندہ ہوں ترا، مزدور نہیں
یہ میرے افکار کی روشنی کو داغدار کرتے ہیں۔ یہ الفاظ میرے فلسفے کی گہرائیوں کا عکاس نہیں بلکہ محض جذباتی سطح پر محدود خیالات ہیں۔ یہ شعر کسی اور کا ہے، لیکن میری فکر کے خلاف اسے میرے نام سے منسوب کیا جا رہا ہے۔ کیا میں نے اپنی شاعری میں کبھی خدا سے اس انداز میں مکالمہ کیا؟ شاید میرے اس شعر کی تخریب کاری کی جاری رہی ہے:
سوداگری نہیں، یہ عبادت خدا کی ہے
اے بے خبر! جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے
وہ روئیں جو منکر ہیں شہادتِ حسین کے
ہم زندہ و جاوید کا ماتم نہیں کرتے
ارے ظالمو! میں نے تو کہا تھا کہ:
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری
کہ فقرِ خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری
قلندر میلِ تقریری ندارد
بجز این نکتہ اکسیری ندارد
از ن کشت خرابی حاصلی نیست
کہ ب از خونِ شبیری ندارد
ادب کا دائرہ صرف الفاظ کے خوبصورت بندوبست تک محدود نہیں بلکہ یہ انسان کے جذبات، خیالات، اور تہذیب کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ کسی شاعر یا ادیب کی فکر کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا اس کی تخلیقی عظمت کو مجروح کرنے کے مترادف ہے۔ یہ ایک ایسی روش ہے جو نہ صرف ادب کی سطح کو گرنے دیتی ہے بلکہ معاشرتی شعور کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔
ادب کی دنیا ایک مقدس امانت ہے۔ جب ہم کسی شاعر یا ادیب کے کلام کو اس کی اجازت کے بغیر بدل دیتے ہیں یا اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں، تو ہم اس کی شخصیت، خیالات، اور نظریات کی توہین کرتے ہیں۔ یہ صرف میرے ساتھ ہی نہیں بلکہ ادب کے تمام علمبرداروں کے ساتھ ناانصافی ہے۔ میری شاعری ہمیشہ مسلمانوں کو عزت، خودداری، اور ایمان کے بلند معیاروں کی طرف بلاتی ہے۔ میں نے اپنی زندگی کے ہر لمحے میں یہ سوچا کہ میرے اشعار انسان کو اس کے اصل مقام پر لے جائیں۔ لیکن افسوس، آج میرے اشعار کو ایسے مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے جن کا نہ میرے فلسفے سے کوئی تعلق ہے اور نہ میری زندگی کے مقصد سے۔
میری شاعری کا مقصد انسانوں کو خودی، عزتِ نفس، اللہ کی محبت اور دینِ اسلام کی حقیقی روح کی طرف راغب کرنا تھا۔ سچائی کی تلاش اور حقیقت کی پاسداری ہی میرا درس تھا اور ہے۔ میرے کلام کو محض سطحی شہرت یا سستی مقبولیت کے لیے استعمال کرنا میرے اور ملتِ اسلامیہ کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے۔ میرے اشعار کا ہر لفظ قرآن و سنت کے تابع ہے، اور کسی بھی قسم کی تبدیلی یا اضافے کا مطلب میرے افکار کی توہین ہے۔
میرے عزیز قارئین، میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ میرے کلام کو غور سے پڑھیں۔ میرا اصل کلام کتابوں میں پڑا ہے، اور میرے بڑے اشعار فارسی زبان میں ہیں، جسے سمجھنے کےلیے، میرے الفاظ کے پیچھے چھپی فکر کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ ادب کے قارئین کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ جس شاعر کو پڑھ رہے ہیں، وہ درحقیقت کیا کہنا چاہتا ہے۔ کسی بھی شاعر یا ادیب کے کلام کو اس کی اصل شکل میں سمجھنا ہی ادب کا حقیقی مقصد ہے۔ میری شاعری صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک سوچ، ایک پیغام، اور ایک رہنمائی ہے۔ میری شاعری کا مقصد انسان کو اپنی ذات کے اندر جھانکنے اور اپنی حقیقی قدر کو پہچاننے کی ترغیب دینا ہے۔ میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ جو لوگ میرے کلام کو مسخ کر رہے ہیں، وہ صرف میرا نقصان نہیں کر رہے بلکہ ادب اور انسانیت کا بھی نقصان کر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نہ تو ادب کی عظمت کو سمجھتے ہیں اور نہ ہی انسانیت کی خدمت کے مقصد کو۔
یہ بات نہایت ضروری ہے کہ ہم ادب کی قدروں کو محفوظ رکھنے کے لیے صحیح معلومات فراہم کریں۔ یہ معاشرتی ذمہ داری ہم سب پر عائد ہوتی ہے کہ ہم اپنے ادیبوں اور شاعروں کی فکر کو صحیح معنوں میں لوگوں تک پہنچائیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ان کے اصل کلام کو سمجھا جائے اور اسے بغیر کسی تبدیلی کے پیش کیا جائے۔ غلط اشعار کا عام ہونا نہ صرف غلط فہمیوں کو جنم دیتا ہے بلکہ قارئین کو بھی اصل فکر سے دور کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میرے اشعار کو ہمیشہ ان کے سیاق و سباق کے ساتھ پیش کیا جانا چاہیے۔ میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ میرے نام کے ساتھ شعر منسوب کرنے سے پہلے تحقیق کریں کہ واقعی یہ میرا شعر ہے، اگر نہیں! تو ایسے اشعار کی نشاندہی کریں، انہیں مسترد کریں، اور ان کے خلاف آواز بلند کریں۔ یہ صرف میرا حق نہیں بلکہ ادب کا حق ہے۔ میری اس فریاد کا مقصد صرف میرے کلام کی حفاظت نہیں بلکہ ادب کی اس عظیم روایت کو بچانا ہے جو صداقت، خلوص، اور گہرائی پر مبنی ہے۔ میں آپ سب سے اپیل کرتا ہوں کہ ادب کو اس کے حقیقی مقام پر برقرار رکھنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ ادب ایک مقدس امانت ہے، اور ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس امانت کو محفوظ رکھیں۔
والسلام،
محمد اقبال
تبصرہ لکھیے