ہوم << خوشی اور غم ، شکوہ جواب شکوہ - راحیلہ خان ایڈووکیٹ

خوشی اور غم ، شکوہ جواب شکوہ - راحیلہ خان ایڈووکیٹ

کاش "دکھ درد" بھی مجسم ہوتا.
میں آواز دے کر بلاتی.
ہاتھ پکڑ کر ، بٹھا کر باتیں کرتی.
پوچھتی کیسے آئے ہو،
کیوں آئے ہو،
نہ آتے،
آنا ضروری تھا کیا؟

کیا تمھیں معلوم ہے کہ تمھارے آنے سے پہلے کیسے خوشیاں رقصاں تھیں،
ہنسی کے فوارے پھوٹ رہے تھے،
ہر طرف قہقہے اچل رہے تھے،
کیسے آسودگی کی جل تھل تھی،
بتاؤ کیوں آئے،
کس نے بلایا،
کیوں مہمان بنے ہمارے؟

اب آ گئے ہو تو بتاؤ کیسے تمھیں ختم کیاجائے،
کیسے تمھیں مٹایا جائے،
وہ طریقہ بتاؤ کہ پھر تم کبھی نہ آسکو،
خوشیاں کھا نہ سکو،
ہنسی مار نہ سکو،
رلا نہ سکو،
آنسوؤں کی بارش برسا نہ سکو،
اے غم! بتاؤ کیسے تمھیں فنا کریں،
بتاؤ کیسے دوبارہ قہقہہ لگائیں۔

میں ابھی یہ سب سوچ ہی رہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی اور ایک حسین مجسم نرم مسکراہٹ کے ساتھ اندر آیا ،پھر کرسی پر بیٹھنے کی اجازت چاہی، میری حیران نگاہوں کو تبسم کے ساتھ دیکھتا خود ہی بیٹھ گیا.
پھر بولا: آپ کو مجھ سے کافی شکایتیں ہیں، حالانکہ آپ کو میرا شکر گزار ہونا چاہیے
میں نہ ہوتا تو آپ کیسے جانتیں کہ خوشیوں کی اصل قیمت، مسکراہٹوں کا مول، قہقہوں کے دام، تبسم کی لاگت کیا ہے۔
میں نہ ہوتا تو آپ کا دل کیسے نرم ہوتا.
میں نہ ہوتا تو انسان خدا بن جاتا.
ارے میں نہ ہوتا تو آپ قرب الہٰی نہ پاسکتی.

میں نے اسے ہاتھ کے اشارے سے خاموش کراتے ہوئے کہا
قرب الٰہی صرف دکھ سے ہی حاصل نہیں ہوتا بلکہ خوشیوں سے بھی قرب الٰہی کی منزل مل سکتی ہے، اس لیے یہ عذر درست نہیں.
اس پر وہ مسکرا کر بولا:
بالکل ممکن ہے مگر انسان کوشش کرے تو، ورنہ خود قرآن کہتا ہے کہ دکھ میں انسان اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے اللہ کو یاد کرتا ہے اور جب دکھ ختم ہو جائے تو انسان ایسے بن جاتا ہے جیسے رب کو جانتا ہی نہ ہو۔
تو پھر یہ شکوے شکایتیں درست رویہ نہیں ہے، میری وجہ سے ہی دنیا میں توازن ہے۔ اگر صرف چھاؤں ہی چھاؤں ہو اور دھوپ نہ ہو تو انسان "قوم بنی اسرائیل" کی مانند نافرمان بن جاتے ہیں۔
کیا آپ دھوپ کی اہمیت نہیں جانتیں؟

میں بولی: ہاں جانتی ہوں مگر دکھ انسان کو توڑ دیتا ہے۔
وہ مسکرا کر بولا:
جب انسان ٹوٹتا ہے تبھی اس پر اسرارِ کائنات کھلتے ہیں۔
ورنہ تو وہ حیات کاروبار میں مگن رہتا۔
میں ممناتے ہوئے بولی: بھلا روتا انسان کہاں اچھا لگتا ہے؟
وہ ہنس کر جوابا بولا: تو کس نے کہا ہے روئیں.
منہ لٹکا کر اداس رہیں، حوصلے سے برداشت سے اللہ کا نام لے کر دکھ کا سامنا کرتے ہوئے دعا کریں،.
کیا پتہ وہ دکھ آپ کی آزمائش ہو، اپ کے دین و دنیا میں درجات کے اضافے کا سبب بنے آیا ہو؟

میں سوچتے ہوئے بولی: میں کیسے دعا کروں؟
وہ بدستور مسکراتے ہوئے بولا:
جیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سکھائی ہے اور جیسے یونس علیہ السلام نے دعا کی یا جیسے حضرت ایوب علیہ السلام نے کی یا اور پھر بی بی ہاجرہ نے کی اور اللہ نے صحرا میں پانی جاری کردیا۔
ایسے ہی دعاؤں سے سب ممکن ہے۔
میں اب بھی چپ تھی۔
وہ بولا میڈم غم و الم ضروری ہے، ایسی آزمائشوں سے ہی انسان اللہ کے ہاں بلند درجہ پاتا ہے۔

اسی وقت ایک موٹا کالا شخص دروازے پر آیا جسے دیکھتے ہی اس نے اجازت چاہی اور بولا میں اب چلتا ہوں، میرا ساتھی آیا ہے، اس کو اس کے ناخدا کے ساتھ کرنا ہے۔
میں بولی:
مگر تم میں اور اس میں اتنا فرق کیوں ہے؟ میرا طلب کہ وہ اتنا بد صورت اور تم اتنے اسمارٹ ہو، یہ کیسے؟
اس پر وہ مجسم قہقہہ لگا کر ہنسا اور بولا، میڈم آپ کیا کیا نوٹ کرتی ہیں۔
ہر انسان کا غم الگ الگ ہے، کسی کا میری طرح حسین اور کسی کا موٹا بھدا۔
"جیسا انسان اور اس کی آزمائش یا مصیبت ویسا ہی اس کا غم"
یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔
اورمیں یہ سوچ کر رہ گئی کہ اس کو روکو ں یا نہ روکوں۔

Comments

Avatar photo

راحیلہ خان ایڈووکیٹ

راحیلہ خان ایڈووکیٹ ہائی کورٹ اور ڈسٹرکٹ کورٹ میں وکالت کرتی ہیں۔ مصنفہ اور ریسرچ اسکالر ہیں۔ سال 2022 میں ورازت مذہبی امور کے تحت سیرت النبیﷺ کانفرنس میں ملکی سطح پر تحقیقی مقالے میں اول پوزیشن حاصل کرکے صدارتی ایوارڈ کی مستحق ٹھہریں۔ ایک اپنی کتاب اور دو کتابوں کی شریک مصنفہ ہیں۔ کراچی کی بچہ اور خواتین جیل میں فلاحی کاموں میں شریک ہوتی ہیں

Click here to post a comment