ہوم << سیاحت، مغالطہ یا حقیقت - سید مستقیم معین

سیاحت، مغالطہ یا حقیقت - سید مستقیم معین

مستقیم معین کچھ لوگ سیاحت کو بس ایک مجبوری سمجھتے ہیں، درحقیقت یہ انسان کے ذوقِ سلیم کا فطری تقاضا ہے. سیاحت کسی مجبوری کا نام نہیں ہے کہ آپ نے سامان باندھا اور رخت سفر لیا اور کسی پرفضا مقام کو ہاتھ لگانے چل دیے گویا کسی فرض کی ادائیگی مطلوب ہو، بلکہ سیاحت ایک سچا جذبہ، اپنے من میں ڈوب کر سراغ زندگی پانے کا نام ہے. سیاحت دماغ کے بجائے دل کی حکومت کا نام ہے، مثلاََ اگر آپ وادی نیلم یا ناران جا رہے ہوں، اسلام آباد پہنچ کر آپ کا کوئی ہمراہی کہے کہ یہ جو مارگلہ کے پہاڑ ہیں، بس ایسا ہی ناران ہوگا یا ایسے ہی درخت نیلم میں ہوں گے تو آپ کو چاہیے کہ گاڑی تھوڑی آہستہ کریں اور ایسے ہمراہی کو عزت و احترام کے ساتھ گاڑی سے اتاریں اور گاڑی بھگا لے جائیں اور اپنی منزل کا مزہ لیں‌، بصورت دیگر مستقل ذلالت آپ کی منتظر ہوسکتی ہے.
کسی حقیقی سیاح سے دوست نے پوچھا کہ اتنا لمبا سفر کر کے نانگا پربت جاؤگے، وہاں کیا کروگے؟ ذرا جواب ملاحظہ فرمائیے
’’میں فیری میڈوز جا کر، کسی گرے ہوئے درخت پر بیٹھ جاؤں گا اور دونوں ہاتھوں کا پیالہ بنا کر اس پر منہ ٹکا کر نانگا پربت میں محو ہو جاؤں گا‘‘
سیاحت فطرت کے کینوس میں گم ہوجانے اور اپنا آپ بھلا کر قدرت کی کاملیت اور صناعی تسلیم کرنے کا نام ہے.
میری مشاطگی کی کیا ضرورت حُسنِ معنی کو،
کہ فطرت خودبخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی.
سیاحت کے لیے پیسہ، اچھی گاڑی، آرام دہ ہوٹل کبھی بھی ضروری نہیں رہے. ہاں اچھے ہمراہی ضرور شرط ہوا کرتے ہیں. سیاحت میں بسا اوقات ایک پانی کی چھاگل ہی آپ کا تمام رخت سفر ہو سکتا ہے. ایسے میں آپ کو حوائج ضروریہ کے لیے کسی ’’پراپر جگہ‘‘ کی تلاش نہیں کرنی چاہیے، کہیں سڑک کے کنارے پتھر کی اوٹ میں آپ اپنی نشانیاں چھوڑ سکتے ہیں.
سیاحت مشمولات دنیا سے ماورا حقیقت ہے جس کا بچوں کے پیپر خرید کر لانا، بجلی کا بل جمع کرانا، دودھ کو ابالہ دینا، موٹر سائیکل کو پنکچر لگوانا، بغیر چھلکے والی ماش کی دال اور سسرال کی زیارت سے کوئی لاحقہ نہیں ہے. اقبال کی نظم ’’ایک آرزو‘‘ صحیح معنوں میں ایک ’’سیاحی مائل ذہنیت‘‘ کی عکاسی کرتی ہے. فرماتے ہیں:
مرتا ہوں خامشی پر یہ آرزو ہے میری
دامن میں کوہ کہ اک چھوٹا سا جھونپڑا ہو
آزاد فکر سے ہوں عزلت میں دن گزاروں
دنیا کے غم کا دل سے کانٹا نکل گیاہو
سیاحت کی بس ایک ہی شرط ہے جہاں تک جاسکے جائیں گے. جہاں گاڑی برف میں پھنس جائے، جہاں سے آگے راستہ ختم ہو جائے، جہاں سے آگے ظالم ویزہ کا نظام روک دے. وہاں سے واپسی کا سوچیں گے. ہمارے ایک بچپن کے دوست ہر سال سردیوں میں اپنی گاڑی پر سیر کے لیے جاتے ہیں. ہم ان سے ملنے گئے تو کسی سفر کی تیاری میں تھے، پوچھا کہاں کا قصد ہے، فرمانے لگے ’’بس گاڑی برف میں پھنسانے جا رہے ہیں‘‘ تفصیل یہ کہ ہر سردی کے موسم میں یہ عہد کر کے نکلتے ہیں کہ جہاں تک گاڑی جائے گی وہاں تک جاؤں گا. ایک بار مری کا اردہ کر کے نکلے اور کہیں ناران پہنچ کر گاڑی برف میں ساکت ہوئی تو شکر کیا ورنہ سکردو جانا پڑتا. ایک صاحب اپنی 89ء ماڈل مہران کو سارے جہاں میں لیے پھرتے تھے. اس پر سوار افراد کی تعداد کبھی بھی طے شدہ نہیں رہی. ڈرائیور کے بائیں ہاتھ ہینڈ بریک ہوتی ہے، اس پر کشن/گدّی رکھ دیتے اور یوں سات سات افراد کو لے کر سیاحت کے لیے نکل جاتے، ساتھ میں درمیان والا فرد گھڑسواری کا مزہ لیتا رہتا.
غرض یہ کہ ہمارا شمالی علاقہ قدرت کا حسین تحفہ ہے، اس کی زیارت سے مستفید ہونا لازم ہے.

Comments

Click here to post a comment

  • طنزومزاح اور حقائق سے مزین بہترین تحریر ، سیاحت کا ذوق رکھنے والوں کےلیے مفید رہے گی۔

  • دلیل کے سائٹ پہ تبصرہ تحریر کرنے میں اکثر مشکل پیش آتی ہے?..اب بھی یہی ہوا.الفاظ کے مابین سپیس نہیں بنتا...کمنٹ یہی پہ کئے دیتے ہیں?
    تحریر کا عنوان دیکھا تو لگا سیاحت سے متعلق کوئی نئی تھیوری،زاویہ نگاہ ڈسکس ہوگا...ایک دو لائین پڑھے..ہم سمجھے سیاحت کے نفسیاتی پہلووں سے بحث مقصود ہے..آگے لگا صاحب تحریر مذاق کے موڈ میں ہے..پھر یہ مذاق ذرا سا طنز اور پھر مزاح میں ڈھل گیا.اختتام پہ آکے دیکھا تو خوشگوار حیرت ہوئی..بھئی یہ تو ہمارے متعلق کہہ رہے ہیں.?