ہوم << افسانہ: ربیع قلبی - صالحہ محبوب

افسانہ: ربیع قلبی - صالحہ محبوب

وہ ایک گنجان آباد محلے کا چھوٹا سا گھر تھا۔ جس کے سامنے کی گلی سے موٹر سائیکل بھی بمشکل گزر پاتی۔ گلی کے پتلے ہونے کی ایک وجہ ہر مکین کا اپنے گھر کو اونچا کر کے سامنے سیڑھیاں بنا کر بارش کے پانی سے محفوظ کرنے کی کوشش تھی۔ گھر چھوٹے تھے خاندان بڑھ رہے تھے، سو پہلے صحن ختم کر کے کمرے بنائے پھر چھتوں پر بھی کمرے ،ہر مکان نے اپنے سامنے ایک شیڈ ڈال کر اوپر کا کمرہ کچھ بڑا کر لیا۔ اسی لیے گلی تنگ بھی ہو گئی اور ساتھ اندھیری بھی ۔۔دن میں بھی وہاں شام کا سا سماں رہتا ۔اہل محلہ سردیوں میں دھوپ کی تلاش میں اپنی تیسری اور چوتھی منزل کی چھت پر جاتے اور پھر بھی دھوپ کو خود سے دور ہی محسوس کرتے۔۔ وہ اینٹوں اور پلاسٹک کی ٹینکیوں سے بنا ایک پورا جال تھا۔ ان چھتوں پر دنیا زمانے کا کاٹھ کباڑ دھرا تھا ۔۔۔خواتین خانہ چھت پر صفائی کی چنداں ضرورت محسوس نہ کرتیں ۔۔۔اور دھوپ کے خواہش مندوں کے لیے دھوپ ہی ضروری ہوتی ۔۔۔صفائی اور سلیقہ نہیں۔۔۔ ہر مکان چھتوں چھتوں سے دوسرے سے متصل تھا۔۔

اسی محلے میں ایک گھر صبح صبح جاگ جاتا۔۔۔ آپا طاہرہ گو عمر میں بہت بڑی نہ تھیں ،مگر وہ سارے محلے کی بچیوں کو صبح فجر اور شام عصر کے بعد قرآن پڑھا پڑھا کر، سب کی آپا جان ہو گئی تھیں۔۔

ان کے اپنے بچے بھی چھوٹے ہی تھے مگر آس پڑوس کی عورتیں جو ان سے بڑی بھی ہوتیں اور اپنے پوتے پوتیوں کو لے کر آتیں، احترام سے انہیں' آپا جان' ہی پکارتیں۔۔۔ صبح فجر کے بعد سے ہی اس گھر میں آمد و رفت شروع ہو جاتی۔ دس بارہ بچیاں اپنی ماؤں یا دادیوں نانیوں کے ساتھ آنکھوں میں نیند لیے، مگر تازہ تازہ وضو کیے، بڑے بڑے دوپٹے اوڑھے ،ہاتھوں میں نورانی قاعدہ یا سپارہ لیے، آپا جان کے گھر موجود ہوتیں ۔۔۔پہلے تو سامنے کے کمرے میں صفیں بچھا دی جاتی تھیں۔ مگر جب سے آپا جان کے لیے نیچے بیٹھنا محال ہوا تھا انہوں نے وہاں اپنا ایک تخت ڈال لیا تھا۔ بچیاں یوں اس تخت پر آ کر فٹ ہوتیں ،جیسے کسی ڈال پر چڑیاں بیٹھی ہوں۔ بچیوں کے لیے جگہ بنتی ہی جاتی۔۔ آپا جی کسی کو نورانی قاعدہ کی تختی یاد کراتیں، تو کسی کو قرآن کا سبق دیتیں ،ان کے کان ان دس بارہ بچیوں کی آوازوں پر خوب دھیان دیے ہوتے۔۔۔ غلطی پر فوراً اس کی اصلاح کرتیں ۔۔۔جوڑ کے پڑھنے والی بچیوں کو بار بار مشق کراتیں، روانی سے پڑھنے والیوں کو بار بار دہرائی کرواتیں ،ان کے اقوال زریں بھی ان بچیوں کو روز سن سن کر ازبر تھے۔۔۔ وہ انہیں کہتیں کہ" قرآن تو بار بار پڑھنے ہی سے آتا ہے ۔۔روز پڑھو ،سیکھو، تو ہی رواں ہوگا۔۔۔ ورنہ جوڑ نکالتے اور ہلتے ہی رہ جاؤ گے۔"

طاہرہ کو یہ قرآن پڑھانے کا کام ان کی ساس کے' ترکے' میں ملا تھا۔ وراثت تو ان کے سسر سے ان کے شوہر اور دیور جیٹھوں میں منتقل ہوئی تھی۔۔ وراثت میں وہ خستہ حال گھر ہی تو تھا ،جس کے ہر کمرے میں اب ایک پورا خاندان آباد تھا۔ مگر یہ قرآن پڑھانے کا کام ان کی ساس نے ساری عمر کیا تھا۔ اور ان کے انتقال کے بعد ساس کی جگہ آپا جی کے حصے میں آئی تھی۔ آپا جی نے قرآن پڑھا بھی اپنی ساس اماں سے ہی تھا ۔جو ان کی پھوپھی بھی تھیں ۔۔۔اور اب اس کام کو روز دن میں دو بار وہ کرتیں ۔۔۔وہ اس کار خیر کا وہ کوئی معاوضہ نہ لیتی تھیں مگر ہر بچی کے جہیز میں ان کے لیے جوڑا اور پیسے ضرور رکھے جاتے۔۔۔

بچی جب قرآن پاک ختم کر لیتی تو بھی اپنی حیثیت کے مطابق استانی جی کے لیے مٹھائی اور تحفہ لے کر آتی ۔سب گھر اور خاندان بھی نسلوں سے ایک دوسرے سے واقف تھے ۔سو آپا جی ہر گھر کی رہائشی خواتین اور بچیوں کی استاد تھیں۔۔ سارا دن وہ اپنا کام کاج نپٹاتیں اور صبح شام قرآن کی استانی بن کر تعلیم دیتیں۔۔۔ کئی چھوٹی بچیاں تو سارا سارا مہینہ صرف دوپٹہ سر پر اوڑھنے اور سپارہ دیکھ کر ہلنے کی مشق میں لگا دیتیں ۔۔۔مگر پھر رفتہ رفتہ قرآن کے الفاظ ان کے لبوں سے ادا ہونے لگتے ۔۔پہلے مفرد ،پھر جمع ،پھر مکمل آیات ۔۔۔۔استانی جی بچیوں کو نماز بھی یاد کراتیں، کلمے بھی اور دعائیں بھی۔۔۔ بچوں اور خواتین کے چھوٹے موٹے شرعی مسائل کا حل بھی بتا دیا کرتیں ۔۔۔

صبح سویرے کئی دنوں سے ان کی چھوٹی سی نئی شاگرد اپنی دادی کے ساتھ آرہی تھی۔۔۔ دادی پوتی کے ساتھ بیٹھ کر نورانی قاعدہ پڑھتیں ۔پھر منہ ہی منہ میں نماز اور کلمے بھی دہرا لیتیں ۔سبق میں اتنی دلچسپی لیتیں کہ آپا جان بھی حیران رہ جاتیں۔۔۔ پوتی سے زیادہ شوق اور تیاری سے دادی آرہی ہوتیں ۔۔۔ایک پوتی فجر کے بعد آتی اور دوسری عصر کے بعد اور دادی دونوں کے ساتھ ہوتی۔۔ بچیوں کے قاعدوں کے مکمل ہونے کے بعد سپارے شروع ہوئے۔۔۔ دادی کا شوق اب بھی خوب زوروں پر تھا ۔۔مگر اصل رکاوٹ ان کی زبان کا توتلا پن تھا۔۔۔ وہ عام بول چال میں بھی بہت سے الفاظ کی ادائیگی سے قاصر ہوتیں۔۔ ان کی گفتگو میں اشاروں کا خوب عمل دخل ہوتا ۔مگر قرآن پاک پڑھنے کا شوق بھی بہت زیادہ تھا۔
ایک روز اپنی پوتی کو گھر بھیجنے کے بعد اس کی دادی نے آپا طاہرہ سے ضروری بات کی۔۔۔

" آپا جی! مجھے قرآن پڑھا دو" اپنے سے عمر میں کہیں کم طاہرہ کو وہ ہمیشہ بہت عزت سے آپا جی کہہ دیتی تھیں ۔۔۔عائشہ کی دادی کی بات سن کر طاہرہ کو پہلے تو ہنسی آئی ۔۔۔"اس عمر میں قرآن پڑھا دوں..؟ اماں جی! آپ کو تو سنائی بھی بس پورا سورا ہی دیتا ہے اور دکھائی بھی۔۔۔ اتنی موٹی عینک کے باوجود اپنی پوتیوں اور دوسری بچیوں میں گڑبڑ کر جاتی ہیں اور سب سے بڑھ کر زبان والی کمی؟؟؟"
طاہرہ آپا نے دادی کو خاصے اچھے انداز میں جاب دے دیا۔۔۔

وہ خاصی دور سے روز آیا کرتی تھیں ۔۔۔ان کی دونوں پوتیوں نے نورانی قاعدے ختم کر لیے تھے مگر دادی نے ڈبل سبق کے باوجود ابھی ساری تختیاں یاد نہ کی تھیں۔ اب قرآن پڑھانے کا مشکل کام ؟؟؟طاہرہ کو کہہ دیا... طاہرہ کئی روز انہیں ٹالتی رہی ۔دادی کا شوق اور ان کی باقاعدہ آمد و رفت ہنوز جاری تھی۔۔ آخر ایک روز طاہرہ نے دادی کو بھی سبق دینا شروع کر دیا۔۔۔ دادی صبح سبق لیتیں ۔سارا دن اسے یاد کرتیں ہ اور عصر کے وقت سناتیں۔۔۔ ان کی محبت اور شوق میں کوئی کمی نہ تھی مگر زبان کی لکنت اور توتلا پن انہیں درست ادائیگی سے محروم کر دیتا۔۔۔ الفاظ کہیں سے کہیں جا پہنچتے۔۔۔

ان کی دونوں پوتیوں عائشہ اور آمنہ نے دو سال میں قران پاک مکمل کر لیا ۔۔۔دادی ہنوز چوتھے سپارے پر تھیں۔ بچیاں دادی کی وجہ سے دو بار قران پاک کی دہرائی بھی کر چکی تھیں ۔۔۔دادی آٹھویں سپارے تک پہنچی تھیں ۔۔ان کی ایک اور چھوٹی پوتی بھی طاہرہ آپا کی شاگرد بنی دادی دسویں سپارے پر تھیں ۔۔۔

انہیں پرانا سبق بھول جاتا پوتیاں بتاتیں کہ دادی سارا سارا دن سبق یاد کرتی ہیں مگر سناتے وقت ادائیگی غلط ہو جاتی ہے۔۔۔ طاہرہ آپا کے اپنے بچے ان چھ سات برسوں میں بڑے ہو گئے تھے۔۔۔ محلے کے بہت سے بچے آئے اور قران پڑھ کر چلے بھی گئے۔۔۔ بے شمار بچیوں کی شادیوں میں انہیں خصوصی دعوت ملی۔۔۔ اور استانی کا جوڑا بھی مگر دادی کا قرآن جاری رہا ۔۔۔

وہ ان کی مستقل شاگرد تھیں۔ اب تو بہت سے لوگ آپا اور دادی کو مسکرا کر دیکھتے۔۔۔ جو درست ادائیگی سے بول چال نہیں کر سکتی تھیں ۔۔۔وہ قرآن کیسے پڑھ سکتی ہیں۔؟

عورتیں کبھی کبھی آپا طاہرہ کو کہتیں ہیں کہ غلط پڑھنے سے تم دونوں کو گناہ ہوگا۔۔۔ مگر دادی کا شوق اور قرآن سیکھنے میں باقاعدگی طاہرہ آپا کومنع کرنے سے روک دیتی۔۔۔

اب تو انہوں نے سالوں کا حساب رکھنا ہی چھوڑ دیا تھا۔ دادی کا اکیسواں سپارہ شروع ہوا تو ان کی عائشہ میٹرک کر چکی تھی۔۔۔ ان کا ستائیواں پارہ سورۃ رحمٰن تک مکمل ہوا تو عائشہ یونیورسٹی سے بھی تعلیم مکمل کر چکی تھی۔۔۔۔ ان کی سورت' ملک 'مکمل ہوئی تو دونوں پوتیوں کی شادی بھی ہو چکی تھی ...دونوں کی شادی پر استانی جی کے لیے جوڑے کے ساتھ ساتھ مٹھائی سلامی اور پھولوں کا بھی اہتمام تھا۔۔۔

دادی صبح فجر اور شام عصر کے وقت ٹھیک اوقات میں موجود ہونے والی پہلی طالبہ علم ہوتیں اور جانے والی آخری ۔۔۔ فالتو باتیں وہ کم ہی کیا کرتیں ۔۔۔انہیں طاہرہ آپا کی طرف سے دی جانے والی چھٹیاں بہت کھلتی تھیں ۔۔۔کہ ان کا خیال تھا کہ کہیں وہ اس قران کو مکمل پڑھے بغیر دنیا سے ہی نہ چلی جائیں ۔۔۔

ان کئی برسوں میں ان کی آنکھوں پر بہت سے نمبروں کی عینکیں بدلیں ۔۔موتیا آیا اور اس کو شکست دی۔۔۔ کوئی بیماری ان کو اس کام سے نہ روک سکی۔۔۔۔ آٹھ دس برس ایک طویل عرصہ تھا۔ دونوں استاد شاگرد کو ایک دوسرے سے انسیت بھی ہو گئی اور محبت بھی۔۔۔ دونوں ایک دوسرے کی مددگار تھیں ۔۔۔

وہ آخری سپارے پر کیا پہنچیں ان کی بے چینی میں اضافہ ہو گیا ۔۔۔جلد از جلد آخری سورتیں پڑھا لینے کی فرمائش بہت بار بار ہونے لگی ۔۔۔وہ خود سے بھی کوشش کرتیں مگر دماغ بہت کم کام کرتا۔۔۔ وہ صبح شام زیادہ دیر بیٹھتیں۔۔۔ ان کا پوتا انہیں خود چھوڑ کر جاتا اور پھر لے جاتا ۔۔۔آخر کار وہ دن آ ہی گیا کہ دادی کا قران پاک مکمل ہونا تھا۔۔۔ طاہرہ آپا کو دادی کی بہوئیں اور پوتیاں ایک خوبصورت سا کارڈ دے کر گئیں ۔۔۔کسی شادی ہال میں تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا ۔۔۔طاہرہ آپا کے لیے بھی بہت خوبصورت کپڑے اور جوتے لائے گئے تھے۔۔۔

طاہرہ آپا تیار ہو کر مقررہ وقت پر ہال میں پہنچ گئیں ۔۔۔۔شہر میں اب بہت خوبصورت شادی ہال بن چکے تھے ۔۔۔یہ ہال سب سے اچھا تھا جس میں ساری سجاوٹ اصلی پھولوں سے کی گئی تھی۔۔۔ سامنے اسٹیج پر دادی سفید کپڑے پہنے بیٹھی تھیں۔۔ طاہرہ آپا کا استقبال یوں کیا گیا جیسے وہ تقریب کی مہمان خصوصی ہوں ۔۔۔دادی اور استانی کے لباس بالکل ایک جیسے تھے۔۔۔ دونوں کے مکمل خاندانوں کے ساتھ ساتھ محلے کے تمام ہی گھر موجود تھے جن کے بچوں کو طاہرہ آپا نے قرآن پاک پڑھایا تھا۔۔۔

سٹیج پر بیٹھ کر استانی جی نے اور اپنی انوکھی شاگرد کو سورہ الناس پڑھائی اور دادی نے روانی سے بغیر اٹکے اس سورت کو پڑھا ۔۔۔۔طاہرہ آپا کو آج یہ الفاظ مجسم نور ہی لگ رہے تھے۔۔۔' صدق اللہ العظیم' پڑھ کر تو انہیں یوں لگا جیسے دادی پر شادی مرگ کی سی کیفیت طاری ہے وہ اس قدر خوش تھیث کہ خوشی سے ان کی آنکھوں سے موتی گر رہے تھے ۔۔۔

"میرے بچو!!! میں ایک اندھی عورت تھی... بچپن سے زبان میں لکنت کی وجہ سے قرآن پڑھ نہ سکی ۔۔۔ساری جوانی کوئی قران پڑھانے والی استانی ڈھونڈتی رہی مگر سب میری زبان کی وجہ سے انکار کر دیتے۔۔۔ اور میں سوچتی کہ اللہ کے سامنے کس منہ سے جاؤں گی ؟کہ اس کی کتاب کو پڑھا ہی نہیں؟؟؟ جو سمجھ آتی اس پر عمل کر لیتی مگر وہ ہر لفظ سے دس نیکیاں تو میری قسمت میں نہیں تھیں ۔۔۔۔آپا طاہرہ نے مجھے پڑھانے کی حامی بھری اور سالوں مجھے پڑھایا۔۔۔۔ اللہ کا شکر ہے آج مجھے وہ علم حاصل ہوا جس کی ساری عمر میں نے خواہش کی۔۔۔ اب میں قرآن پاک پڑھ سکتی ہوں ۔۔۔"الحمدللہ الحمدللہ"

شاید الفاظ بھی بہت عام تھے اور لہجہ بھی لکنت زدہ... بہت سے الفاظ بھی توتلے اور تھتھے تھے۔۔۔ مگر محفل میں موجود ہر فرد کی آنکھوں میں نمی تھی ۔۔۔خوشی تھی رشک تھا جن کو اللہ نے صلاحیت دی وہ اسے کوئی کام ہی نہ سمجھے تھے لگے باندھے ایک بار قرآن پڑھا اور پھر اپنی دنیا کی دوڑ میں دوبارہ سے لگ گئے ۔۔۔صرف فوتگیوں اور آزمائشوں پر قران پڑھنے کا خیال آتا ۔۔۔۔یا کس کی جانکنی کے وقت پر ۔۔۔۔

اور ایک یہ عورت جسے اللہ نے زبان کا حسن ہی نہ دیا تھا ساری عمر اس کے لفظوں کے نور کو پانے کی کوشش کرتی رہی اور اس کی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی ایک بار اسے پڑھ لینا تھا۔۔۔ وہ دعا کر رہی تھی کہ جب وہ اپنے رب کے حضور حاضر ہو تو قرآن اس کی زبان پر ہو اور وہ جنت کی سیڑھیاں چڑھتی جائے۔۔۔ قران کا ایک ایک لفظ سیکھنے اور ادا کرنے میں ان کے تو بے شمار سال مہینے اور دن ہی لگ گئے ۔۔۔جانے کتنی نیکیاں اس کوشش میں ان کے نامئہ اعمال میں لکھی گئی ہوں گی۔۔۔

ٹھیروں ہار گلے میں ڈالے آج آپا طاہرہ بھی پرنم آنکھوں سے سوچ رہی تھی کہ ورثہ تو وہ گھر تھا جو چھوٹا بھی تھا اور وقت کے ساتھ ساتھ پرانا ہو کر ڈھے جانے کے قریب بھی۔۔۔۔ مگر یہ ترکہ تو انہیں بھی انمول بنا گیا۔۔۔۔پارس کی مانند۔۔۔ کتنے ہی بچوں کی زندگیوں کو قرآن کے نور سے منور کرنے میں ان کا حصہ شامل تھا۔۔۔

تقریب کے بعد بہت لذیذ کھانے کا اہتمام تھا اور سب مہمان گواہ تھے کہ ان کی زبانوں نے اس سے زیادہ لذیذ نہ پکوان پہلے کھایا تھا اور نہ ہی اس سے زیادہ مبارک محفل دیکھی تھی ۔۔۔۔جس کی دلہن ایک ستر سال کی بزرگ، لکنت زدہ ،بھول جانے والی ،بڑھیا تھی ۔۔۔جس نے اپنے شوق سے اپنی معذوری کو شکست دے دی تھی۔۔۔
من کا میل مٹا مٹا دیتی ہے
خوشبو انگ پھسا دیتی ہے
سینہ خیر بنا دیتی ہے
پیر نہیں تھکتے ہیں جس میں
ایسا رقص کرا دیتی ہے
سب رنگوں سے جان چھڑا کر
یار کا رنگ چڑھا دیتی ہے
پوچھ رہے ہو بابا لو کا
اور محبت کیا دیتی ہے"

Comments

Click here to post a comment